سیاست کے کوئی اطوار نہیں ہوتے

May 24, 2021

حالات کے جبر سے اس امر پر قومی اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ عام آدمی کی زندگی بہت زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اچھی حکمرانی نہیں دے سکی۔ خارجی محاذ پر بھی پاکستان اس خطے کے انتہائی اہم ملک کے اسٹیٹس سے کم اہم ملک کے اسٹیٹس پر آگیا ہے۔ اس قومی اتفاق رائے میں حکومت میں بیٹھے زیادہ تر لوگ اور پی ٹی آئی کے حامی زیادہ تر حلقے بھی شامل ہیں۔ اگرچہ وہ ان حالات کی ذمہ داری آج بھی مخالفین پر ڈالتے ہیں لیکن وہ قومی اتفاق رائے کے مذکورہ بالا نکات سے انکار نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال سے ملک کو کیسے نکالا جائے ؟ یہ سوال بھی بہت گھسا پٹا ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ اپنی جگہ موجود ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے قیام سے ہی یہ سوال موجود ہے اور سوال کرنے والے سے الٹا ایک اور سوال کیا جاتا ہے کہ کیا ملک چل نہیں رہا ؟ دوسرا سوال کرنے والوں سے یہ تیسرا سوال بھی کرنا چاہئے کہ کیا ملک اس طرح چلتے ہیں اور کیا محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ بات درست نہیں ہے کہ ہماری قوم کی تاریخ کا مطالعہ آگے بڑھتے ہوئے قدموں اور پیچھے کو دھکیل دینے والے واقعات کی ایک ہی داستان ہے؟

ہماری نسل کے لوگ انتہائی مایوسی کا ورثہ آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس پرانے سوال کا کہ ایسی صورت حال سے کس طرح ملک کو نکالا جائے ؟ پرانا ہی جواب ہے کہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت یا تو ختم کی جائے، جو آئیڈیل ازم والا آپشن ہے اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ کم از کم عظیم مکالمہ ( گرینڈ ڈائیلاگ ) کے ذریعے وسیع تر قومی مفاہمت پیدا کی جائے اور تیسری دنیا کے بعض ملکوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ایک محدود سیاسی کردار کو تسلیم کر لیا جائے۔ اِس کے علاوہ کوئی اورراستہ نہیں ہے۔ یہ فیصلہ حقیقی سیاسی قوتوں کو کرنا ہے کہ وہ کس آپشن پر عمل کر سکتی ہیں۔ انہیں اپنی طاقت کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی قوتیں بہت پہلے سے دوسرے آپشن پر عمل پیرا ہیں لیکن وہ نہ تو یہ تسلیم کرتی ہیں اور نہ ہی اسے کسی ضابطے میں لانے کی حمایت کرتی ہیں۔ اب بھی دوسرے آپشن کے امکانات نہ صرف موجود ہیں بلکہ اس پر کام بھی ہو رہا ہے۔ کچھ حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان سیاسی عناصر کے ساتھ ’’ مفاہمت ‘‘ نہیں کرے گی، جن کے خلاف پی ٹی آئی کی قیادت کرپٹ ہونے کا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے۔ خود ایسے سیاسی عناصر کے ساتھ ’’ مفاہمت کرنا ‘‘ ان حلقوں کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی مشکل ہو گا۔ یہ بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان سیاسی عناصر کے ساتھ بھی صلح نہیں ہو گی، جن کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے۔ اس طرح کا تاثر پیدا کرنے والے حلقے دراصل پی ٹی آئی حکومت کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی مخالف سیاسی عناصر سے اسٹیبلشمنٹ کی مفاہمت خود پی ٹی آئی حکومت کے لئے خطرہ ہو گی۔ ان حلقوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے درمیان ’’ HOBNOB ‘‘ کی تاریخ ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ ان سیاسی عناصر کے ساتھ بھی مفاہمت کی گئی، جنہیں کرپٹ یا غدار کہا گیا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود میاں نواز شریف اس ’’HOBNOB ‘‘ کے ذریعہ تین مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے ۔تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے سے پہلے ان کا بیانیہ آج والا ہی تھا۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کی وجہ سے میاں نواز شریف کی بجائے میاں شہباز شریف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ معاملات طے کرنا چاہتی ہے۔ انہوںنے شاید پاکستان کی سیاسی حرکیات کو جدلیاتی اور سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ ’’فیس سیونگ ‘‘ بھی تو ایک مسئلہ ہے۔ یہ حالات ہی ہوتے ہیں، جب اسٹیبلشمنٹ ان سیاسی عناصر سے معاملات طے کرتی ہیں، جن سے معاملات کبھی نہ طے کرنے کا تاثر دیا جا رہا ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ اگر ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بالفرض نہیں ہوتی اور سیاسی عوامل کو اپنا راستہ اختیار کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو بھی ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار نہیں رہ سکے گا اور اگر اس کے برعکس ہوتا ہے تو بھی یہ بہت مشکل ہو گا کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رہے۔ جس نہج پر آج ملک پہنچ گیا ہے، کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ مفاہمت ملک کے سیاسی بحران کو ختم نہیں کر سکے گی۔ قومی اتفاق رائے سے حکمت عملی وضع کی جائے۔ محدود مفاہمتی عمل سے سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ ہو گا، جو ملک کو مزید بحرانوں کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ تیسری دنیا تو کیا ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں بھی قوانین، آئین، اصولوں اور اخلاقیات پر سمجھوتے ہوتے ہیں۔ انقلابِ روس کے بانی لینن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ سیاست کے کوئی اطوار نہیں ہوتے، صرف تجربے کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ‘‘ اس وقت ملک کی جو کیفیت ہے، ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ حالات اپنا راستہ خود بنائیں گے۔