اکیسویں صدی کی نمایاں خواتین سربراہان مملکت

June 04, 2021

اکسیویں صدی کے دو عشروں میں بہت کچھ ہوا ہے۔82ممالک میں خواتین سربراہ رہی ہیں۔ جن میں سات نمایاں ہیں۔ان میں فن لینڈ کی ’’تراجا ہولین ‘‘ بھی شامل ہیں ۔ذیل میں 21ویں صدی کی چند نمایاں خواتین سر براہان مملکت کے بارے میں جانیے ۔

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل گزشتہ سولہ برس سے اپنے عہدے پر فائز ہیں۔ جرمنی کی یہ پہلی خاتون سربراہ ہیں۔ وہ 1955ءمیں جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ اعلیٰ تعلیمی جرمنی سے حاصل کی اور کوانٹم کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وہ سیاست دان کے ساتھ کیمیا دان بھی ہیں۔ انجیلا مرکل نے اپنے طویل دورانیہ میں محض وقت نہیں گزارا بلکہ جرمنی اور یورپ کو نیا وژن ، نیا اتحاد اور خوشحالی کی راہ دکھائی۔ وہ اپنے اندر فطری طور پر قائدانہ صلاحیتیں لے کر پیدا ہوئیں۔ ان کی شخصیت میں ایک آئیڈیل سیاسی رہنما کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً دیانتداری ، خود اعتمادی، اخلاقی پختگی اور لچکدار اعتدال پسند رویہ ان کا تعلق جرمنی کی کرسچن ڈیمورکریٹ پارٹی سے ہے۔

انجیلا مرکل

انجیلا مرکل نے اپنی پارٹی کو مزید مستحکم کیا ہے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے انضمام کے دور میں انہوں نے اپنی یونیورسٹی کی ساتھیوں کے ساتھ نمایاں فلاحی خدمات سرانجام دی تھیں۔ حالیہ برسوں میں تارکین وطن کے مسئلے پر بھی انجیلا مرکل نےان کی حمایت میں آواز بلند کی اور باوجود شدید مخالفت سے وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں اور تارکین وطن کی بڑی تعداد میں جرمنی میں پناہ دی۔

انہوں نے یورپی یونین اور نیٹو کے اتحاد کو مستحکم کیا اور خصوصی طور پر امریکا ، روس اور چین سے خوشگوار تعلقات قائم کیے۔ روس اور یورپی ممالک کی آپس کی کشیدگی ختم کرائی۔ اس حوالے سے نہ صرف یورپی ممالک بلکہ بڑی طاقتوں کے سربراہ بھی انجیلا مرکل کی سیاسی فرست اور ان اعتدال پسند پالیسیویں کو سراہتے ہیں۔ نئے سیاستدانوں کے لئے انجیلا مرکل ایک مثال ہیں۔

تراجا ہولین

فن لینڈ کی تراجا ہولین (Tarja Holanan) سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما تھیں ۔انہیں 21 صدی کی پہلی دہائی میں فن لینڈ کی صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا وہ بارہ برس سے ملک کی صدر ہیں۔’’ تراجا‘‘ دسمبر 1943 میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنےکے بعدوہ عملی سیاست میں آئیں اور لوکل باڈیز کے ورکر کے طور پر کام کرنے لگیں ان کی والدہ نہایت محنتی، حب الوطن خاتون تھیں اور تراجا کی تربیت بھی اسی انداز سے کی تھی۔

اس لئے تراجا نے جلد ہی سوشل ڈیموکریٹ میں اپنی جگہ بنا لی اور آگے بڑھتی رہیں ۔یہاں تک 57 برس بعد وہ ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔ انہوں نے اپنی ماں کی سکھائی باتوں کو آخر تک اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا ،جس سے عوام میں وہ عزت اوراحترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہیں۔ انہیں فن لینڈ کے اہم قومی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

ایلن جانسن

افریقی ملک لائبیریا کی صدر ایلن جانسن نے بھی 21 صدی کے پہلے عشرے میں ملک کے صدر کا منصب سنبھالا۔ وہ بھی 12 سال تک ملک کی صدر رہیں۔ ان کی والدہ کا تعلق جرمنی سے تھا۔ ایلن 1938 ءمیں لائبیریا میں پیدا ہوئیں۔ انہیں 2011 ءمیں امن کا نوبل انعام دیاکیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں لائبیریا ، بھارت اور افریقی یونین نے بھی ایواراڈ سے نوازا۔

ایلن نے ملک میں بدعنوانی کا خاتمہ کرتےہوئے کروڑوں ڈالر ملک کو واپس دلوائے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے شب و روز کام کیا، ملک میں تعلیم، صحت لوکل گورنمنٹ کے شعبوں کی ساکھ بھال کی اور ان کی کارکردگی کا ان کے پڑوسی افریقی ممالک نے بھی فائدہ اٹھایا ۔ افریقین یونین میں جمہوری ، انسانی اور خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ عوام میں شعور پیدا کیا اس لئے انہیں اتنے اہم اعزازات سے نوازا گیا۔

حسینہ واجد

بنگلا دیش کی صدر حسینہ واجد ستمبر 1947 میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے دوبارہ بنگلا دیش کی وزیر ا عظم کا منصب سنبھالا ۔12 برس سے اس منصب پر فائز ہیں۔ ان کا تعلق عوامی لیگ سے ہے ۔ انہیں بنگالی قوم پرست رہنما تصور کیا جاتا ہے۔

ان کی سیاست کی کامیابی دراصل ان کی لائق اسٹیم ہے جو ملک کی معیشت معاشریت اور دیگر امور کو سنبھال رہی ہے۔ ان کی ملک میں اصل ساکھ بنگلادیش کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی کے طور پر ہے۔ ارجنٹینا کی صدر کوسینا فرنڈوس نےملک کی منتخب صدر کی حیثیت سے 8 سال سے زائد عرصہ قوم کی رہنمائی کی۔ انہوں نے ملک میں اداروں کی کارکردگی بہتر بنانےکے لئے انتھک محنت کی۔

وہ 1953ءمیں ارجنٹینا میں پیدا ہوئیں۔ ان کی پارٹی شہری جمہوری اتحاد نے 2007ءکے انتخاب میں انہیں فتح دلوائی۔ اور 2007ءسے 2015 ءتک صدر کے عہدے پر فائز رہیں۔ 2019 ء میں وہ نائب صدر کے منصب پر بھی اپنے فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔ اس لئے انہیں صدارتی انتخابات میں زیادہ ووقت حاصل ہوئے اور عوام نے انہیں منتخب کیا اور انہوں نے عوام کو ہرگز مایوس نہیں کیا۔ مخلص سیاسی رہنمائوں کا یہی وتیرہ ہوتا ہے وہ عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں اور یہ خیال وہ دل سے کبھی نہیں نکالتے۔

ارنا سولبرگ

ارنا سولبرگ ناروے کی وزیر اعظم ہیں۔ وہ 2013 میں اس منصب کے لئے منتخب ہوئیں اور جب سے وہ اس منصب پر فائز ہیں۔ ان کا ناروے کی کرسچن کنزرویٹو پارٹی سے تعلق ہے۔ انہیں ناروے کے عوام ’’فولادی ارنا‘‘ کہتےہیں۔ جیسے مارگریٹ تیچر کو ’’فولادی خاتونی‘‘ کہا جاتا ہے۔

ارنا سولبرگ 1961ءمیں پیدا ہوئیں۔ ناروے کی قدامت پسند پارٹی کی بھی رہنمائی کرتی ہیں۔ ناروے اسکینیڈے نیویا کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اس کو دنیا میں مہذب ترین، صاف ستھرا ، پر امن، اعتدال پسند ،عوام دوست معاشرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ارنا سولبرگ کبھی بس سے، کبھی اپنے اسکوٹر پر دفتر جایا کرتی ہیں۔ ٹریفک کے قوانین کی پوری پابندی کرتی ہیں اور ان کے لئے ٹریفک بھی نہیں روکا جاتا وہ عام شہریوں کی طرح زندگی گزار رہی ہیں اور اپنی سرکاری ذمہ داریاں بھی پوری کر رہی ہیں۔

ڈیلما روزیف

برازیل کی سابقہ صدر ڈیلما روزیف نے برازیل کے صدر کے طور پر 6 سال صدارت کی۔ برازیل جنوبی امریکا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں پر تگیزی بولی جاتی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں دیگر لاطینی امریکی ممالک کی طرح برازیل بھی کئی دہائیوں تک فوجی آمرانہ دور کا نشانہ رہا، تاہم اب وہاں جمہوری حکومت قائم ہے۔

صدر ڈیلما نے خاصے مسائل کا سامنا کیا اور ملک میں جمہوری عمل اظہار رائےکی آزادی اور خواتین کے حقوق کی بہتر انداز میں پاسداری کی لاطینی امریکی ممالک کے مسائل پرانے ہیں جو نو آبادیاتی دور سے چلے آرہے ہیں۔ منشیات کا مسئلہ گھمبیر مسئلہ ہے۔ بھارت میں آئینی طور پر صدر کا عہدہ ہر چند کہ نمائشی ہوتا ہے، مگر کچھ دائمی اختیارات صدر کے پاس ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارت کی صدر پرتیبا پائل تھیں جو پانچ سال تک صدر کے منصب پر فائز رہیں۔

کوسو مشرقی یورپ کا چھوٹا ،مگر اہم ملک ہے ۔مسلمانوں کی تعداد نمایاں ہے۔ کوسو کی صدر عطفیہ جھانسگا لائق ،محنتی ، مضبوط اور بہ ہمت رہنما تسلیم کی جاتی ہیں۔ انہوں نے نامساعد حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔ اس حوالےسے کوسوکے عوام جمہوریت پسند اور دلیر واقع ہوئے ہیں۔ کوسو میں اب امن ہے اور سیاسی عمل جاری ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن گزشتہ4سال سے زائد عرصے سے ملک کی وزیر اعظم ہیں۔دوسری بار کے لئے بھی وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہیں۔ جسینڈا آرڈرن نے اپنی سیاسی حکمت عملی اور زمینی حقائق پر مبنی پالیسیوں کی بدولت ملک کے عوام سمیت دیگر ممالک کے عوام میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ خاص طور پر جب ایک سفیدفام نسل پرست نوجوان نے مسجد میں کھلی فائرنگ کے ذریعے ایک درجن سے زائد مسلمانوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کر دیا تھا۔

جیسنڈا آرڈرن

اس سانحہ پر جیسنڈا آرڈرن کا کردار غیر جانبدارانہ اور انسان دوست تھا۔ انہوں نے کھل کر نسل پرستی کی شدید خدمت کی اور ہر طرح مسلم متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ اسی وجہ سے مسلم ممالک میں جیسنڈا آرڈرن کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 21 صدی کے ان دو عشروں میں خواتین سیاسی رہنمائوں نے قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے یہ پھر ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ کسی سے کم ہر گز نہیں۔ اب دنیا کے لگ بھگ تمام پروفیشنز میں خواتین نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ بعض بہت قدامت پسند معاشروں میں بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

مثلاً سعودی عرب میں خواتین ڈرائیونگ کرنے ،فوج میں بھرتی ہونے اور اپنا کاروبار کرنے میں خود مختار ہیں۔ لبنان میں خواتین کے خلاف کوئی بھی زیادتی لمبی قید اور جرمانے کے زمرے میں شمار ہو گی۔ مکیسکو میں خواتین کےساتھ کوئی حادثہ پیش آیا، کسی وجہ سے اپاہیج ہوئی، تو مکمل علاج اور بھاری معاوضہ دیا جائے گا۔ پاکستان میں محنت کش خواتین کی اجرت اور سہولتوں میں اضافے کے لئے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ اس طرح سے 21 صدی خواتین کے لئےبہتر ثابت ہو گی۔