بٹوارے کی سیاست

June 05, 2021

آخرکاروہ حقیقت سامنے آ ہی گئی جس کی امید ایک عرصہ سے کی جا رہی تھی۔ جس کا ہونا ٹھہر چکا تھا۔ لوگ اس بارے میں ملے جلے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ کچھ کو اس کے ہونے سے تکلیف تھی اور کچھ اس کو ذاتی Allegiance کی بنیاد پر کھڑی خاندانی عمارت کے مسمار ہونے کے قدرتی عمل سے تشبیہ دے رہے تھے۔

پی ایم ایل (ن) کے اندر پڑنے والی دراڑ اس وقت واضح ہو گئی جب میاں شہباز شریف عدلیہ سے ملنے والی ضمانت کی بنیاد پر جیل سے باہر آئے اور پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی کوششیں شروع کر دیں جس کے مطابق ان کی پہلی ترجیح پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پارلیمنٹ کی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنا تھا۔ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز اپنے چچا کے اس عزم سے سخت نالاں ہوئیں اور انہیں یہ کہنا پڑا کہ شہباز شریف پی ڈی ایم کی بجائے اپنے اتحاد کے منتر کو صرف پارلیمنٹ تک ہی محدود رکھیں۔ مریم نواز نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہیں اور جب تک وہ معافی نہیں مانگتیں انہیں اتحاد میں واپس نہیں لیا جائے گا۔

اس حوالے سے مختلف چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ اب کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے دو متوازی بیانیے سننے کو ملیں گے جن میں شہباز شریف کا بیانیہ مفاہمتی ہوگا جبکہ مریم نواززہر سے بھرپور مزاحمتی بیانیے کو پروان چڑھائیں گی ۔ چنانچہ یہ بات خارج ازامکان قرار نہیں دی جا سکتی کہ اندرونی اختلاف کے باعث پارٹی دو حصوں میں منقسم ہو جائے جس کے بعد شہباز شریف کو اتحاد کی پالیسی کی بنیاد پر حمایت مل سکتی ہے جبکہ پارٹی کے اندر مریم نواز کے نفرت آمیز بیانیے کے حامی بھی موجود ہوں گے۔

وہ لوگ جو شریف خاندان کے اندرونی حالات سے آگاہ رہے ہیں، ان کے مطابق، شریف خاندان میں تقسیم کی بات طویل عرصے سے چلی آ رہی تھی تاہم اس سے قبل پارٹی کے اندر تقسیم نہیں ہو سکی کیونکہ شہباز شریف اور ان کے رفقاء کے خیال میں مفاہمتی منتر کی تکمیل کے لئے ان کو مؤثر حمایت میسر نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بھائی کے سائے میں اپنی سیاست کو پروان چڑھایا لیکن اس کے ساتھ اپنے بیانیے کی ضرورت سے کبھی آنکھیں بند نہیں کیں جس کی حتمی تکمیل کا انحصار ان حالات کے اتار چڑھائو کے ساتھ منسلک ہے جو مستقبل قریب میں تشکیل پا سکتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات شہباز شریف کے خلاف زیر التوا مقدمات کی نوعیت ہے۔اس معاملے میں یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ اس وقت مفاہمتی مہم چلانے کی بنیادی وجہ زیرالتوا مقدمات ہیں۔شہباز شریف کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ ان کے پاس عملی طور پر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کاکوئی دفاع نہیں ہے اور اگر ان کے مقدمات کے غیرجانبدارانہ فیصلے ہوئے تو وہ انتخابی سیاست سے نااہل ہونے کے علاوہ دیگر سزائوں سے بھی بچ نہیں پائیں گے۔ اس لئے قوی امکان ہے کہ وہ تصادم کی راہ پر چلنے سے گریز کریں گے چاہے انہیں اس کی کتنی بھی بھاری قیمت کیوں ادانہ کرنی پڑے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب وقت آ گیا ہے جب دونوں بھائیوں اور ان کی اولادوں کی راہیں جداہو جائیںگی جس کے بارے میں طرح طرح کے تجزیے اور پیشگوئیاں سامنے آ رہی ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے رفقاء کی اکثریت غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی خواہش مند ہے لیکن وہ اس کے پرخطر نتائج سے بھی خوفزدہ ہیں جس کی ایک شکل مسلم لیگ کے ایک جماعت کے طورپر قائم نہ رہنے سے منسلک ہے۔

اس مرحلے پر پارٹی کے بٹوارے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی کسی امکان کو رد کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا نقطہ آغاز ہے جس سے یا تو دونوں بھائیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر خلیج پیدا ہو سکتی ہے یا کسی منظم حکمت عملی کے تحت دونوں باہم اس امرپر راضی ہو سکتے ہیں جس کے تحت ملک کے سب سے بڑے صوبے پر ان کی سیاسی گرفت کمزور نہ ہونے پائے اور مسلم لیگ کے حامی ووٹرز متحدہ پارٹی کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر ابھرنے والے ممکنہ آتش فشاں کے امکان کو زائل کرنے کے لئے حکومت اور ریاست کے خلاف کسی حد تک باغیانہ سیاست اپنانے کی حکمت عملی بھی اپنائی جا سکتی ہے۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ دونوں بھائیوں کے درمیان کسی قسم کی اہم تفریق اس مرحلے پر سامنے نہیں آئے گی جس کے نتیجے میں ان کی پارٹی پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ لیکن جس چیز کی تردید کرنا مشکل ہے وہ شہباز کیمپ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا صلح پسندانہ طریقہ کار اختیار کرنے کے لئے نواز شریف پر دباؤ برقرار رکھنے کا عمل ہے جو ماضی میں پارٹی کی روایت بھی رہی ہے۔

موجودہ حکومت اور اس کے حلیفوں کے لئے ایک چیلنج یہ ہے کہ وہ ان شاطرانہ چالوں کا ازالہ کریں جس کے تمام فوائد اپوزیشن حاصل کر رہی ہے ۔ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے تو یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ کسی ایسی کو شش کا آغاز کیا گیا ہو۔اسی لئے مسلم لیگ (ن) اپنی مقبولیت کے بلندبانگ دعوے کرتی رہتی ہے۔دروغ گوئی کی اس سیاست کے خاتمے کے لئے ملک پر مسلط ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی زنجیروں کو توڑنا ہوگا جو ملکی ترقی اور عوامی بھلائی کے منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ایک جامع سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے سے ممکن ہے۔

(صاحب تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)