یہ بھی تو کسی کا بچہ ہے

June 30, 2013

حنا گیلانی کے بارے میں ان کے علاقے کے تھانے سے رابطہ کرنے پر متعلقہ افسر نے بتایا کہ وہ مفرور ہیں۔ ان کے شوہر نے البتہ فرار ہونے کے بعد ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی ہے۔ معلوم نہیں یہ امراء اتنی آسانی سے فرار کیوں ہو جاتے ہیں؟ اور اتنی آسانی سے ان کی گرفتاری سے قبل ضمانت بھی ہو جاتی ہے۔ اتنے بھیانک جرم کے بعد کیا اس معصوم بچے کے والدین کو انصاف مل جائے گا یا ان کا حال بھی اسی کیس کے انصاف جیسا ہو گا جیسا صوبے کی ایک طاقتور شخصیت نے ایک بیکری ملازم کو بے تحاشا مارنے کے بعد حاصل کیا۔ یہ واقعہ 13 سالہ جمیل کا ہے۔ غربت سے ستائے خاندان کے دو بچے نو سالہ جاوید اور 13 سالہ جمیل ملتان لائے گئے کیونکہ یہاں ایک جاگیردار کو اپنے گھر میں ملازموں کی ضرورت تھی اور یہ وہی جاگیردار ہے کہ جس کی زمینوں پر یہ خاندان کام کرتا ہے۔
فہیم عباس شاہ نامی جاگیردار کے گھر ان بچوں نے کام شروع کر دیا لیکن کچھ عرصے بعد بچوں کے والدین ان کو واپس لینے آئے تاکہ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی تعلیم کو دوبارہ سے شروع کیا جائے۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ فہیم شاہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ یہاں کام کر رہے ہیں، واپس نہیں جائیں گے۔ اس کے بعد یہ بھی ہوا کہ فہیم شاہ نے بچوں کے گھر والوں سے ملنے پر بھی پابندی لگا دی، 6 جون کو 13 سالہ جمیل جو کہ گرمی سے ستایا تھا۔ اس نے شربت کا ایک گلاس پینا چاہا، معصوم بچے نے اپنی اس خواہش کو پورا کرنا چاہا اور شربت کا ایک جگ اٹھایا لیکن اس کوشش میں شربت کا جگ گرا اور ٹوٹ گیا۔ ایک جاگیردار گھرانے میں مزارعوں کے بچے کی اس غلطی کو ”سنگین جرم“ سمجھا گیا۔ فہیم شاہ کی بیوی حنا گیلانی نے اس ”سنگین جرم“ پر فوراً ردعمل کا اظہار کیا۔ جرم ایک نہیں دو تھے۔ ایک تو یہ کہ اس کم تر ملازم کو یہ ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے شربت کو ہاتھ لگانے کی جرأت کی اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ شیشے کا جگ بھی توڑ دیا۔
حنا گیلانی نے ایک عورت ہونے کے باوجود اس معصوم بچے کو ایسی سزا دی کہ انسانیت کانپ اٹھی، حنا نے بچے کو مارنا شروع کیا اور اتنا مارا کہ بچہ گر کر حواس کھو بیٹھا، لیکن ”انصاف کی عدالت“ کی سزا ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ رعونت اور تکبر سے بھرپور حنا گیلانی نے صرف اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ شیشے کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور اس معصوم بچے کے سر پر دے مارا۔ 13 سالہ جمیل کے سر سے خون بہنے لگا اور وہ جان بچانے کے لئے گھر کی چھت کی طرف بھاگا، وہ چھت پر بے سدھ ہو کر گر پڑا، گرمی کی شدت سے چھت کی حرارت بھی ناقابل برداشت تھی اور معصوم جان اسی گرم چھت پر تڑپ رہی تھی۔ اس کا چھوٹا بھائی 9 سالہ جاوید اپنے بھائی کی اس حالت پر چیختا چلاتا رہا، کئی مرتبہ مدد کی دُہائی دیتا ہوا نیچے بھی آیا لیکن اس گھر میں کوئی ایسا نہ تھا جو کہ ان کی مدد کرتا۔آخر 9 سالہ جاوید رحم کی اپیل لئے حنا گیلانی کے پاس گیا اور بتایا کہ جاوید چھت پر تڑپ رہا ہے، لیکن حنا گیلانی اس ”عظیم جرم“ کے مجرم کو دی جانے والی سزا سے مطمئن نہیں تھی، اس نے 9 سالہ جاوید کو بھی پیٹنا شروع کر دیا۔ بے یارو مددگار 9 سالہ جاوید وہاں سے جان بچا کر بھاگا اور واپس چھت پر اپنے بھائی کے پاس آ گیا، گرمی سے تپتی ہوئی سیمنٹ کی چھت پر وہ اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے زخمی بھائی کو دیکھتا رہا کہ جس کے جسم میں زندگی کم ہوتی جا رہی تھی۔ جاوید نے ساری رات اسی طرح اپنے بھائی کے ساتھ گزار دی، آخر سورج طلوع ہوا تو جاوید ایک مرتبہ پھر حنا گیلانی کے پاس گیا اور بتایا کہ جمیل ساکن پڑا ہے شاید اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا۔
اس تمام عرصے میں فہیم شاہ بذات خود گاؤں میں موجود رہا اور گاؤں کے مقامی مسجد کے امام کو غسل دینے کی اجازت نہ دی بلکہ کسی اور شخص کو یہ کام کرنے کو کہا۔ مولوی شفیع نامی اس شخص نے جب میت کی حالت دیکھی تو اس نے فہیم شاہ کی من گھڑت کہانی ماننے سے انکارکر دیا اور کہا کہ بچے کی میت پر جا بجا شدید تشدد کے نشانات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سر پر بھی شدید زخم ہے اور شیشے کے ٹکڑے پیوست ہیں۔ظلم کی سفاکی اس وقت مزید نظر آئی کہ جب غسل دیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی سر سے کافی خون بہہ رہا تھا اور اس زخم کو بند کرنے پر بھی کافی وقت لگا۔ اس وقت بھی فہیم شاہ نے ایک اور کہانی گھڑی کہ یہ زخم پرانا تھا اور گاڑی میں جمیل کا سر گاڑی کی کھڑکی سے ٹکراتا رہا تو اس لئے خون نکل رہا ہے۔ چونکہ فہیم شاہ اب بھی ڈھٹائی سے اپنی بیوی کے جرم کو چھپا رہا ہے اس لئے اب اس کا موقف ہے کہ فہیم ٹائیفائیڈ کی وجہ سے فوت ہوا۔جمیل کے والد حمید کو اس وقت فہیم شاہ کی فیملی کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ مقامی سیاستدانوں کی مدد سے اس غریب فیملی کو خاموش کروایا جا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا بھی یہی ہے۔ انہیں روپے پیسے کا لالچ یا دھمکی دے کر آخر کار چپ کرا دیا جاتا ہے لیکن یہ واقعہ اتنا بھیانک ہے کہ ہم آپ اور ہم جیسے تمام لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہر صورت انصاف کے تقاضے پورے کروائیں۔ اگر انصاف نہ ملا توجمیل جیسے سینکڑوں معصوم اسی طرح کے ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے۔