مجھے ووٹ کا حق نہیں چاہئے

June 13, 2021

ﷲ جانے ’’پی ٹی آئی‘‘ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے میں اس قدر مستعدی کیوں دکھا رہی ہے۔ گزشتہ مہینے صدر عارف علوی نے آرٹیکل 89کے تحت ترمیمی آرڈیننس 2021 بھی بڑی سرعت سے جاری کردیا ہے۔ اب الیکشن کمیشن انتخابات میں ’’نادرا‘‘ کی مدد سے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے قابل بنائے گا اور الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین خریدنے کا بھی پابند ہوگا۔ حکومت کے اس یکطرفہ فیصلے کو اپوزیشن کی حمایت حاصل نہیں اور مسلم لیگ ن نے مذکورہ صدارتی آرڈیننس عدالت میں چیلنج کردیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی یہ آرڈیننس مسترد کردیا ہے، پارٹی رہنما رضا ربانی نے کہا ہے کہ حکومت اگر سنجیدہ ہے تو اس بل کو پارلیمنٹ میں لائے اور اس پر بحث کی جائے کیونکہ مشاورت کے بغیر اکیلی سیاسی جماعت کی مرضی پوری قوم پرمسلط نہیں کی جاسکتی اور یہ پارلیمان کی بھی توہین ہے، پاکستان کے انتخابی سسٹم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ آرڈیننس میں سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے بیلٹ کا حق دیا گیا ہے جس سے راز داری کے اصول پامال ہوں گے۔ انٹرنیٹ کے استعمال کی صورت میں ووٹنگ ایپ یا پھر ویب سائٹ ہیک ہو جانے کا خطرہ اور امکانات موجود رہیں گے لہٰذا ایسی صورت حال میں انتخابی نتائج مشکوک ہو جائیں گے۔

حکومتی ترجمانوں کی یہ دلیلیں بودی دکھائی دیتی ہیں کہ ہم سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایسا نہیں چاہتیں۔ کیا ان ترجمانوں سے کوئی یہ سادا سا سوال کرے گا کہ اپوزیشن جماعتیں آخر ایسا کیوں نہیں چاہتیں اور صرف آپ کو ایسی کیا عجلت ہے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی؟ یاد رہے کہ ابھی تک فقط ووٹ کا حق دینے کی بات ہو رہی ہے‘ اقتدار میں نمائندگی کی بات سامنے نہیں آئی۔ بھارت میں الیکٹرانک مشینیں تو آگئیں لیکن ووٹنگ کے اس طریقہ کار کو لاگو کرنے میں 22سال کا طویل عرصہ لگا اور تمام اپوزیشن جماعتوں کی رضا مندی کے بعد یہ سسٹم اپنایا گیا۔ وہاں 1982 میں یہ کام شروع ہوا، پہلے صرف ایک نشست، اس کے بعد ایک اسمبلی، پھر دو اسمبلیاں اور پھر 2004 میں تمام حلقوںمیں یہ مشینیں استعمال ہوئیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ کیا کسی نے اوورسیز پاکستانیوں سے رائے لی ہے کہ کیا انہیں پاکستان کے الیکشن میں ووٹ کا حق چاہئے اگر چاہئے تو کیوں؟ ووٹ ڈال دینے سے ان کے کون کون سے مسائل اوردلدر دور ہو جائیں گے؟ یہ بھی ذہن میں رکھا جائے گا کہ ’’ایم پی اے‘‘ یا ’’ایم این اے‘‘اور وزیر بننے کے لئے دہری شہریت کا قانون موجود ہے لہٰذا اقتدار میں حصہ داری تو پھر بھی ان کے لئے ایک خواب ہی رہے گا۔ ہاں چور دروازے سے آئین کے ہاتھ پائوں باندھ کر اقتدار کے مزے لئے جا سکتے ہیں جس طرح کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ آخر ’’پی ٹی آئی‘‘ ایسا کیوں چاہتی ہے اور اسے ہمیں ووٹ کا حق دینے کی اس قدر جلدی کیا ہے حالانکہ 24 بلین ڈالر سالانہ زرمبادلہ کی صورت میں بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں اور تو کوئی سہولت مہیا نہیں کی گئی، نہ ایئر پورٹ پر اور نہ ہی کسی دوسری مد میں انہیں کوئی خصوصی سہولت یا مدد فراہم کی جاتی ہے بلکہ انہیں لوٹنے کے نت نئے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں۔ لیکن صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ کو اچھی طرح اس بات کا ادراک ہے کہ 2018 کا الیکشن کس طرح ہوا اور وہ کیسے مسند اقتدار پر براجمان ہوئی تھی۔ چنانچہ اس جماعت کو علم ہے کہ 2023 یا آنے والا کوئی بھی الیکشن اس کے لئے مشکل تر ہوگا‘ اس لئے اس کا تکیہ اوورسیز پاکستانیوں کے متوقع ووٹوں پر ہے۔ دنیا کے ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں وہاں وہاں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ونگ بھی موجود ہیں۔ ’’پی ٹی آئی‘‘ کے یہ ونگ ہر سال مقامی عہدیداروں کے چنائو کے لئے ووٹنگ بھی کراتے ہیں اور مختلف ملکوں میں یہ لاکھوں ووٹر 35،37پائونڈ یا ڈالر چندے کی مد میں ماہانہ ادائیگی کرتے ہیں اور یہ ادائیگی ’’پی ٹی آئی‘‘ کے سنٹرل اکائونٹ میں ہوتی ہے اور یہ کروڑوں پائونڈ یا ڈالر کہاں خرچ ہوتے ہیں یہ پی ٹی آئی کے اوورسیز ووٹروں کو بھی پتا نہیں۔ لہٰذا اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ان اوورسیز سپورٹرز کی تعداد کئی لاکھ ہے اس لئے حکومت ان ووٹوں کو جنرل الیکشن میں اپنے لئے کامیابی کی سیڑھی کے روپ میں دیکھ رہی ہے ورنہ حکومت یا پی ٹی آئی کے لئے اوورسیز پاکستانیوں کی ایسی کوئی حیثیت نہیں کہ وہ ان کے غم میں دبلی ہو رہی ہے!

یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد کم و بیش 90لاکھ ہے۔ اب ہم غالب تعداد میں اوورسیز پاکستانی اس تلخ سچائی کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں بیرونی ممالک کے سٹیریوٹائپ ماحول میں کیا اتنی فرصت ہوتی ہے کہ ہم پاکستان کے انتہائی الجھے ہوئے انتخابی ماحول میں خود کو پھنسائے رکھیں اور پھر ہم اگر ووٹ کاسٹ کر بھی لیں تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہے، ایک اور کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی محنت کش یا ٹیکنو کریٹ اوورسیز پاکستانی کبھی یہ نہیں چاہتا کہ وہ بڑی بڑی رقوم بھی خرچ کرے اور دہری شہریت چھوڑ کر ایک کرپٹ انتخابی سسٹم میں الجھ جائے،آج بھی پاکستان کی سیاست اور حکومت میں بہت سے اوورسیز پاکستانی ایسے موجود ہیں جو اقربا پروری کی وجہ سے آئین کو بائی پاس کرکے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں لیکن ان میں کوئی ایسا معقول آدمی نہیں ہے جو ملکی محبت میں یا خدمت خلق کے لئے پاکستان کی سیاست میں شامل ہوا۔ یہ سمجھنا بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ اگر کسی کو واقعی سیاست کا شوق ہے تو وہ اوورسیز پاکستانی صرف پاکستان میں ہی کیوں سیاست کرنا چاہتا ہے وہ جہاں سال ہا سال سے مقیم ہے اور اس ملک نے اسے نیشنیلٹی بھی دی ہے، دولت و عزت بھی تو وہاں کیوں الیکشن نہیں لڑتا اور اپنے ہم وطنو ںکی خدمت کیوں نہیں کرتا۔ چنانچہ بھائی! مجھے تو نہ ووٹ کا حق چاہئے نہ پاکستان کے سیاسی اقتدار میں حصہ داری!