مسلم لیگ کے ارکان کی تشویش اور خدشات پر مبنی محتاط سرگوشیاں

June 13, 2021

اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی سیاسی قربت پر سرگوشی کے انتہائی محتاط انداز میں بعض خدشات کا اظہار کیا ہے۔

گوکہ ایوان میں ایسے ارکان کی تعداد کے بارے میں کچھ بتانے سے گریز کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود ارکان کے حوالے سے جو بجٹ اجلاس میں شرکت کیلئے یہاں موجود ہیں۔

ان ذرائع نے بتایا کہ ایک طرف تو ان اراکین نے میاں شہباز شریف کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تاہم دوسری طرف اپنے خدشات میں ان کا کہنا تھا کہ میاں شہباز شریف سے قبل مریم نواز نے بھی پیپلز پارٹی پر اعتماد کیا تھا لیکن ان کے اعتماد کو دھوکہ دیا گیا۔

ان سے پی ڈی ایم کے جلوس میں بھٹو خاندان اورپیپلز پارٹی کے حق میں نعرے لگوائے گئے پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعہ پر انہیں لاڑکانہ میں گڑھی خدابخش میں بلایا گیا اور طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت جلسہ عام میں ان سے خطاب کرایا گیا جہاں مریم نواز نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کو اپنا بھائی قرار دیتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھیں۔

یہ پاکستان کی چار دھائیوں کی سیاسی تاریخ کا پہلا منظر تھا جب قومی سیاست کے دو بدترین حریف جماعتوںکی نئی قیادت ’’ ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر کسی تیسرے فریق کے مقابلے میں متحد ہونے کے عزم اور عہدوپیماں کر رہے تھے۔

لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مریم نواز نے محترمہ بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری خدمات کو شاندار الفاظ میں شہداء کی قربانیاں قرار دیا اور انہیں فیض احمد فیض کے اس شعر کے حوالے سے خراج عقیدت بھی پیش کیا۔

۔ؔ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہےیہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں۔

انہوں نےپیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کیا تھا لیکن بلاول بھٹو یا پیپلز پارٹی کے کسی دوسرے قابل ذکر رہنما نے اس حوالے سے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف یا میاں خاندان کے کسی فرد کا ذکر بھی نہیں کیا۔

البتہ بے نظیر کی فاتحہ خوانی کے موقعہ پر سٹیج سیکرٹری نے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی جلد صحت یابی کیلئے دعا ضرور کرائی‘‘ سیاسی مبصرین ملک کی دو بڑی جماعتوں کی نئی قیادت کو دشمنی اور نفرت کی دیرینہ سیاست کے خاتمے اور نئی سوچ کا پیغام قرار دیتے ہوئے بہت سی توقعات کا اظہار کیا تھا پھر اس کے بعد بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے نئی قیادتوں کے درمیان ’’ سیاسی عہد وپیماں‘‘ کے ادوار ہوئے اور ان واقعات کو بمشکل 6 ماہ ہوئے کہ یہ ’’سیاسی رومانس‘‘ اس انجام پر پہنچا کہ آج بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف ہیں تو ہم کسی نائب صدر سے کیوں بات کریں۔

ہم انہی سے بات کریں گے اور مریم نواز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی یا بلاول بھٹو میرا ہدف نہیں اگر آپ کے پاس ’’کوئی بہتر سوال‘‘ ہے تو کریں۔

اس تناظر میں اپنے خدشات کا اظہار کرنے والے ان مسلم لیگی ارکان کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف کو ہر قدم پھونک پھونک کر آگے بڑھانا ہوگا۔ مشاورت کے ذریعے حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔

ذرائع کے مطابق ان ارکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر خزانہ کی تقریر سے قبل مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ایوان کے اندر احتجاج کی جو حکمت عملی وضع کی گئی تھی وہ اختیار نہیں کی گئی اور ’’ہومیو پیتھک‘‘ نوعیت کا احتجاج کیا گیا تھا۔

جب تک قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس جاری ہے مسلم لیگ (ن) کو اپنا سیاسی تشخص برقرار رکھنے اور اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے میاں شہباز شریف کو بحیثیت اپوزیشن لیڈر اتنا جاندار اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) پر ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کی تہمت نہ لگ سکے۔