ٹیرر ٹورزم

July 02, 2013

نانگا پربت کی چوٹیوں پر غیرملکی کوہ پیماؤں سمیت پاکستانیوں اور اس سے قبل بلوچستان میں بولان میڈیکل کالج کی طالبات کا قتل عام ہو، چاہے زیارت میں ملک کے بانی کی ریذیڈنسی پر راکٹ حملے یہ نواز شریف کو ان کی بلوچستان پالیسی کا جواب تھا یا پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں افغانستان پالیسی پر تنقیدی تقریر کا جواب لیکن ایک بات واضح ہے کہ ملک میں حکومت چاہے کسی کی بھی ہو مگر رٹ دہشت گردوں کی قائم ہو چکی ہے۔ جس ملک میں ججوں پر حملے ہونے لگیں وہاں حکومت ریاست کی نہیں مافیاؤں کی مانی جاتی ہے۔ پاکستان جو کہ بدقسمتی سے ہم مانیں یا نہ مانیں کہیں سے بھی دیکھیں دنیا کے نقشے پر اس کا شمار خطرناک ترین ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ جہاں سیاحت تو عشرے ہوئے کب کی ختم ہوچکی لیکن دیامر جیسے علاقے جہاں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے مہم جو سیاح و کوہ پیما آ نکلتے تھے وہاں ان کے قتل عام کے بعد گویا ٹیرر ٹورزم کی بنیاد پڑ چکی ہے۔
کوہ ہمالیہ کی نو چوٹیوں میں سے ایک پر دہشت گرد اپنے جھنڈے گاڑ بھی چکے اور حکومت ہے کہ اب بھی انہیں باتوں سے منوانے پر مصر ہے۔ بات چیت کے حق میں ہونے والے رہنما، دانشور و صحافی آئرش ریپبلکن آرمی (آئی آر اے) سے برطانیہ کی بھی تو بات چیت کے حوالے بڑے شوق سے دیتے ہیں۔حالانکہ آئی آر اے سے نہیں اس کے سیاسی دھڑے سن فین سے بات چیت کی گئی تھی۔ یہاں تو شدت پسند گروہوں کے ایک طرح سے سیاسی دھڑے حکومتوں میں بیٹھے لگتے ہیں! یہ اور بات ہے کہ برطانیہ کو آج کل جس کراچی ساختہ دہشت گردی کے کیس کا معمہ حل کرنے کا سامنا ہے وہ انہوں نے آئی آر اے کے دنوں میں بھی کیا ہوگا۔ دہشت گرد فون کر کے اخباری دفاتر یا میڈیا کو کوئٹہ و گلگت ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے پھر رہے ہیں اور وزیر داخلہ چوہدری نثار ہیں کہ کوئٹہ میں طالبات کے قتل عام جیسے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والوں پر ڈالنے سے قبل اب بھی ثبوت مانگ رہے ہیں۔ اگرچہ مگرچہ چونکہ چنانچہ کی گردان میں ہیں۔
مجھے گلگت بلتستان میں عرصہ گزارنے والا دوست کہہ رہا تھا ”جہاں جہاں امریکی ڈرون نہیں پہنچ پائے ان سے چھپتے بھاگتے وہاں دہشت گرد گروہوں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ بقول شخصے وہ خوبصورت وادیوں میں سیاحوں کو قتل کرتے ہیں، کوئٹہ جیسے شہروں میں بچیوں کا قتل عام کرتے ہیں پھر بھی حکمران کہتے ہیں یہ پرائی جنگ ہے۔
سندھ میں تو جسٹس مقبول باقر پر قاتلانہ حملہ جس میں اپنے فرائض کی بجاآوری میں بہادر سپاہی مارے گئے وہاں آخرکار دوسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی کے فلور پر اس اعتراف کا تکلف کر ہی لیا کہ ان کی نہ صوبے کے آئی جی پولیس پر چلتی ہے نہ چیف سیکرٹری پر۔ یہ تو سندھ میں بچے بچے کو معلوم ہے کہ ان کی نہیں چلتی لیکن جو بات سید قائم علی شاہ نہیں کہہ پائے وہ تھی کہ سندھ میں اصل آخر کس کی چلتی ہے۔ کیا لوگوں کو یہ معلوم کرنے کے لئے گھوڑا باری یا میرپور ساکرو جانا پڑے گا اگر ایک وزیر اعلیٰ کی اپنے صوبے کے آئی جی اور چیف سیکرٹری پر نہیں چلتی تو پھر پیارے قارئین فیصلہ خود کریں کہ کیا تختہ مشق ستم پر سندھ کے لوگ رہ گئے تھے۔
سندھ میں مقامی سندھیوں کی حکومت کی دہائی دینے والے الطاف حسین جانتے ہیں یا نہیں کہ سندھ کی تاریخ میں سندھ صوبے میں اب تک صرف دو سندھی آئی جی اور شاذ و نادر ہی کوئی ایک سندھی چیف سیکرٹری آیا ہے۔ الطاف حسین! یقین جانیے کہ مقامی سندھیوں کے حکومتوں میں سندھیوں کی گھر زیادہ اجڑے ہیں۔ کرپٹ سندھی پولیس افسروں اور بیوروکریٹس کے گھر زیادہ بھرے ہیں بلکہ یہ وڈیروں کی ایک اور کلاس پیدا ہوئی ہے بلکہ الطاف حسین کو تو یہ مطالبہ کرنا چاہئے تھا کہ سندھیوں (مقامی چاہے غیر مقامی) پر سندھی بیوروکریسی و وڈیرہ شاہی کا ظلم ختم کیا جائے۔ سندھیوں کو سندھی حکمرانوں سے نجات دلائی جائے۔ حال ہی میں سندھ کے حقوق کی بات کرنے والے ایک پڑھے لکھے زمیندار سے ملاقات ہوئی۔ وہ دریائے سندھ کا پانی پنجاب کے ہاتھوں ہائی جیک ہوجانے کی تو بات کر رہے تھے لیکن اس سے انکاری تھے کہ سندھ میں وڈیروں کے نجی جیل کبھی وجود بھی رکھتی ہیں۔ حالانکہ ریاست کے سرابرہ کی زمینوں کی دیکھ بھال کرنے والا شخص سندھ میں نجی جیلوں کا قائم کردہ رہا ہے۔ اب ایوان صدر میں بیٹھا ہے۔
سندھ میں جسٹس مقبول باقر پر حملے کی تفتیش میں پولیس اور دیگر ایجنسیاں سندھ کی جیلوں میں قید کالعدم تنظیموں سے وابستہ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے مشتبہ دہشت گرد و شدت پسند تو دور کی بات ہے کہ ان تاریکی کے شہزادوں کی پرورش کہیں اور ہوئی ہے لیکن عام خطرناک ملزم بھی سندھ کی جیلوں سے اپنے کرمنل نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔
سندھ میں حکومت کی رٹ تو سندھ کے لوگ گزشتہ پانچ سال سے زائد بھگتاتے آئے ہیں لیکن جو قائدین اور پارٹیاں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے اور امن و امان کی بحالی کے بڑے بڑے دعوے کرتی تھیں اور جن کو ووٹ بھی لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر صرف اس لئے ڈالے تھے کہ وہ اور کچھ نہیں تو ان کو جان کا تحفظ فراہم کریں گے ان کی حکومتوں کا ہنی مون ان کے اپنے منتخب اراکین سمیت لاشوں کے انباروں سے ہوا ہے۔ پی ایم ایل این ہو کہ تحریک انصاف عام لوگوں کو اپنے جان و مال کا تحفظ دینے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ میاں صاحب! آئین کا فقرہ چھ اور چھ الف اپنی جگہ لیکن آئین کے آرٹیکل نو سے لوگوں کو زیادہ دلچسپی ہے کہ وہ ریاست سے ان کے جان و مال کی حفاظت کی اولین ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ بلوچستان میں ریاست نے پانچ جوانوں کی لاشوں کا تحفہ بھیج کر ڈاکٹر مالک کو ان کے ہی صوبے کی حق حکمرانی مبارک کہی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آئین کا اکلوتا غدار سابق فوجی آمر مشرف ہے حالانکہ ہماری تاریخ تو جدی پشتی غداروں سے بھری پڑی ہے۔ اب گردنیں دو ہیں پھندہ ایک والا کلچر ختم ہونا چاہئے۔دروغ بر گرن راوی کل تو مجھے کسی شخص نے بڑے تاریخی شاک میں ڈال دیا جب اس نے بتایا کہ ”بھٹو کی بیٹی آئی تھی“ لکھنے والے یار باش ہمارے بزرگ شاہ جی نے ان کے پاس نیویارک میں بھٹو کے وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کو بھیجا تھا کہ ان کی دیکھ بھال اور مہمان نوازی کی جائے۔ شاید یہ بھی ان کا بڑا پن تھا کہ
غمِ جہاں رخ یار ہو کہ دست عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
لوگوں کو غائب کرنے والے بھی آئین کا حلف توڑنے میں ان کے ساتھی رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ سندھی کہاوت کے مصداق” ہم نے نہیں مارا کالے کتے نے مارا، کالا کتا جیل میں ہم سارے ریل میں۔