ریپ کا تعلق لباس سے نہیں طاقت کے مظاہرے سے ہے، تجزیہ کار

June 22, 2021

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ کے میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریپ کا تعلق لباس سے نہیں طاقت کے مظاہرے سے ہے، کیا ایک مدرسے کے طالب علم سے مفتی کی زیادتی مغربی روایات سے سیکھی گئی ہے یا یہ ایک واقعہ ہے

پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ طالبان امریکا کے ساتھ انڈراسٹینڈنگ کی وجہ سے ابھی صوبائی ہیڈ کوارٹر پر حملہ نہیں کررہے، ماہر مشرق وسطیٰ امور کامران بخاری نے کہا کہ ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی کے ماضی اور کردار پر تحفظات پائے جاتے ہیں

میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیہ میں مزید کہا کہ یہ سوال مسلسل اٹھ رہا ہے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات ہونگے، وزیراعظم عمران خان کے فوجی اڈے دینے سے دو ٹوک انکار نے امریکا کیلئے مزید مشکل صورتحال پیدا کردی ہے

نیٹو نے امریکی انخلاء کے بعد کابل ایئرپورٹ کیلئے فنڈنگ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، نیٹو ممالک کابل ایئرپورٹ کا انتظام دیکھیں گے جس میں ترکی کا اہم کردار ہوگا مگر یہ افغانستان میں قابل قبول ہوگی یا نہیں یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مغربی میڈیا کو انٹرویو میں ایک بار پھر زیادتی کے واقعات کو خواتین کے کپڑوں اور کلچر سے جوڑا، اس سے پہلے بھی وزیراعظم نے ریپ کیسوں سے متعلق ایک چونکا دینے والا بیان دیا تھا اور ایسے واقعات کو پردے سے جوڑ دیا تھا۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں وزیراعظم پردے سے متعلق اپنا نظریہ عوام کے سامنے رکھ سکتے ہیں مگر یہ تاثر نہیں دے سکتے کہ خواتین کے لباس کی وجہ سے ریپ کیسز ہوتے ہیں

یہ اشارہ نہیں دے سکتے کہ ریپ کرنے والا اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کرسکتا اس لئے ریپ ہوتے ہیں، وزیراعظم کی طرف سے یہ براہ راست متاثرہ فریق پر الزام (victim blamign) ہے جو نا صرف افسوسناک بلکہ خطرناک بھی ہے، پاکستان میں پہلے ہی خواتین خود یا خاندانی دباؤ میں ریپ کیسوں کو رپورٹ نہیں کرتیں، انہیں پہلے ہی victim blaming کا سامنا رہتا ہے، یہاں تک کہ متاثرہ فریق خود یہ سوچنے لگتا ہے کہ میرا ریپ کئے جانے میں کہیں میرا قصور تو نہیں ہے

ایسے ماحول میں ملک کے وزیراعظم کو متاثرہ فریق کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے بجائے یہ کہ victim blaming کی روایت کو مزید مضبوط کر کے متاثرہ فریق کی حوصلہ شکنی کی جائے، ایسے وقت میں وزیراعظم کو قوم کے مردوں کو رضامندی کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں ہوس سے مجبور ایک مرد کے طور پر پیش کرنے کی جو بے بس ہوتا ہے۔