ابن صفی

July 03, 2013

یہ میرے لڑکپن کی بات ہے ،میں اپنے والدین کے ساتھ ان کے کسی ملنے والوں کے ہاں گیا ہوا تھا۔بڑوں کے درمیان امریکہ اور روس پر گفتگو ہو رہی تھی اور میں بے تحاشہ بور ہورہا تھا ۔اس گھر میں میرا کوئی ہم عمر تھا اور نہ ہی دلچسپی کا کوئی سامان ،اچانک میری نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے ایک ناول پر پڑی اورمیں نے حسب عادت وقت گذاری کے لئے اسے پڑھنا شروع کردیا ۔جوں جوں میں اس ناول کے صفحے پلٹتا گیا توں توں میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر ایک گھنٹے کے اندر میں نے وہ پورا ناول گھول کے پی لیا۔ابن صفی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔
ابن صفی سے اگلا تعارف والد محترم نے کروایا۔ان کے علم میں تھا کہ میں گھٹیا قسم کے جاسوسی ناول پڑھتا ہوں اور اگر اسی تواتر کے ساتھ پڑھتا رہا تو ایک دن نالائق قسم کا جاسوس بن جاؤں گا یا پھر خود کش بمبار کیونکہ ان ناولوں میں ”مذہبی جاسوسی“ کا تڑکا لگایا ہوتا ۔سو ابن صفی کا دوسرا ناول مجھے والد صاحب نے لاکر دیا جسے مجھ سے پہلے وہ خود پڑھنے بیٹھ گئے اور جیسا کہ مجھے اندیشہ تھا ،ختم کر کے ہی دم لیا۔بعد ازاں میں نے ایک عدد لائبریری ڈسکور کی جہاں سے اس نوع کے ناول اور رسالے باآسانی کرائے پر پڑھنے کے لئے مل جاتے تھے چنانچہ میں نے ایک دن میں چار چار ناول پڑھنے شروع کئے اور لگ بھگ اڑھائی تین مہینوں میں ابن صفی کی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا ختم کر ڈالیں۔یہی نہیں بلکہ اس کے بعد دوبارہ ہر ناول کرائے پر لیا گیا اور نئے سرے سے پڑھا گیا ۔چند مہینوں بعد اس لائبریری کی ایک نئی ”برانچ “کھل گئی ،مجھے شبہ ہے کہ وہ برانچ میرے کرائے کے پیسوں سے ہی کھولی گئی ہوگی۔ آج میری اپنی چھوٹی سی لائبریری میں ابن صفی کے تمام ناولوں کا سیٹ موجود ہے جسے میں نہ جانے کتنی بار پڑھ چکا ہوں اور ہر بار یوں لگتا ہے جیسے پہلی مرتبہ پڑھ رہا ہوں۔ آپ مجھے ”حافظ “ ابن صفی بھی کہہ سکتے ہیں۔
ابن صفی کی تحریر کی بنیادی خوبصورتی اس کی کردار نگاری ہے ،وہ دوسطروں میں کردار کا خلاصہ نکال کر رکھ دیتے ہیں ۔ان کا سب سے مقبول کردار علی عمران ہے جو بظاہر احمق نظر آتا ہے مگر حقیقتاً اس کے کئی روپ ہیں ۔ علی عمران کا کردار دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ناول میں اس کردار کے چند ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو قاری کے لئے نئے ہوتے ہیں۔ اس کردار کا تفصیلی احاطہ خود ابن صفی نے اپنے ایک شاہکار ناول ”ڈاکٹر دعا گو“ میں کیا اوربتایا کہ کیوں علی عمران کی شخصیت اس قدر غیر متوازن ہے ،اس کی اپنے باپ سے کیوں نہیں بنی، وہ ہر بات کو ہنسی میں کیوں اڑا دیتا ہے، اسے کرمنالوجی میں دلچسپی کیسے پیدا ہوئی اور وہ لندن سے یورپین سٹائل کا قلندر بن کر کیسے لوٹا!
ابن صفی کا دوسرا بڑا کردار کرنل فریدی ہے ۔ابن صفی کو عمران سے زیادہ فریدی سے پیار تھاکیونکہ جو رکھ رکھاؤ، خاندانی وقار،رعب و دبدبہ ،امارت،طاقت اور پرسنالٹی فریدی کے حصے میں آئی ،عمران ایک لحاظ سے اس سے محروم رہا ۔ قارئین نے اس ”جانبداری“ کا عملی مظاہرہ ان کے ناول ”زمین کے بادل“ میں دیکھا جس میں یہ دونوں کردار پہلی اور آخری بار یکجا ہوئے ۔ناول کے کلائمکس میں عمران کسی زہریلی گیس کے زیر اثر ناکارہ ہو جاتا ہے جبکہ فریدی سانس روکے رکھتا ہے اور پھر با لآخر تن تنہا آٹھ آدمیوں کو زیر کر کے اپنے ساتھیوں کو دشمن سے صاف بچا لے جاتا ہے ۔ اس موقع پر عمران کی بے بسی قارئین کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور انہوں نے ابن صفی کو لا تعداد خطوط لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کے جواب میں موصوف نے توبہ کر لی کہ آئندہ ان دونوں کرداروں کو اکٹھا کر کے کسی کی مٹی پلید نہیں کریں گے۔اسی ناول کے پیشرس میں ابن صفی نے بتایا کہ ان کے تمام ناول اور کردار ان کے اپنے ہیں سوائے پہلے ناول ”دلیر مجرم “ کے جسے اور بھی کئی مغربی مصنّفین نے اپنے اپنے انداز میں لکھا تاہم فریدی اور حمید ابن صفی کے اپنے کردار تھے،صرف پلاٹ باہر سے لیاگیا تھا۔اب صفی کی کل پانچ کہانیوں کے پلاٹ اورتین کرداروں کے علاوہ کوئی ایک کردار یا ناول ایسا نہیں جو اوریجنل نہ ہو ۔عمران سیریز کے تمام ناول اور کردار بے داغ ہیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ نہیں ۔ سنگ ہی ،تھریسیا، جوزف،جولیانا فٹنر واٹر،کیپٹن حمید،انور ،رشیدہ، استاد نرالے عالم، روشی، سرسلطان، ظفر الملک،جیمسن ،تنویر،سپرنٹنڈنٹ فیاض اور میرا پسندیدہ قاسم چند ایسے لا زوال کردار ہیں جو ابن صفی کی تخلیقی جادوگری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے ناولوں کے وہ کردار بھی قاری کی یاد داشت سے چپک کر رہ جاتے ہیں جو کسی ایک ناول میں ہی جلوہ گر ہوئے جیسے فراگ، علامہ دہشت ناک، ہمبک دی گریٹ، ایڈلاوا، بوغا،الفروزے اور خمیسو۔یہ فہرست مزید طویل بھی ہو سکتی تھی کیونکہ ابن صفی اگر کسی راہ چلتے بندے کا بھی ذکر کرتے جس کا کام دو صفحوں کے بعد ختم ہو جاتا تو اس کی کردار نگاری بھی ایسے کرتے کہ بندہ عش عش کر اٹھتا۔
ابن صفی کے ناول پڑھتے وقت ایک اور بات جو قاری کو مبہوت کر دیتی ہے وہ ان کی منظر نگاری ہے۔ برازیل اور اٹلی کے ساحلوں اور افریقہ کے جنگلوں کا ذکر وہ یوں کرتے ہیں جیسے سالہا سال وہاں رہ چکے ہوں۔ مقامی لوگوں کی بولیوں، ان کے رہن سہن ،بودو باش اوررسم و رواج کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ قاری اپنے آپ کو اسی مقام پر تصور کرکے گم ہو جاتا ہے ۔ اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابن صفی نے ہندوستان سے پاکستان آنے کے بعد افریقہ اور یورپ تو کجا کبھی پاکستان سے باہر تک قدم نہیں رکھا۔ یہ تمام محیر العقول کہانیاں انہوں نے اپنے چھوٹے سے گھر کے کمرے میں ایک چارپائی پر بیٹھ کر تخلیق کیں۔ واضح رہے کہ جس زمانے میں یہ کہانیاں لکھی گئیں وہ انٹر نیٹ تو کیا فون کا دور بھی نہیں تھا۔ اب تو ایک بچہ بھی گوگل پر سرچ کر کے معلوم کر لیتا ہے کہ افریقہ میں کتنی قسموں کے سانپ پائے جاتے ہیں!ابن صفی کی ایک اور خصوصیت ان کی مزاح نگاری ہے ،جس اعلیٰ پائے کا مزاح ہمیں ان کے ہاں ملتا ہے وہ کسی بھی جید ،مستند اور باقاعدہ قسم کے مزاح نگار سے کمتر درجے کا نہیں ۔ان کے ناول کے تو ”پیشرس“ کاہی جواب نہیں۔ ان کے کردار قاری کو بے ساختہ قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں اور یہی فن مزاح نگاری کی معراج ہے ۔اس مختصر سے کالم میں ابن صفی کے فن کا احاطہ کرناتو ممکن نہیں لہٰذا میں صرف ان کے ایک دو جملے یہاں نقل کر دیتا ہوں۔ ”بوغا “ سیریز میں ایک جگہ لکھتے ہیں :”ڈیڈی ہمیں با لآخر آدمی مل گیا!…‘ لڑکی نے خوش ہو کر کہا !”بڑی دلچسپ اطلاع ہے !“ ڈیڈی نے کتاب سے نظر ہٹائے بغیر کہا!”حالانکہ مجھے سالہا سال سے تلاش تھی لیکن ایک بھی نہ مل سکا!“اسی طرح ان کا ایک جملہ ہے ” عمل اور رد عمل کا نام زندگی ہے ۔منطقی جواز تو بعد میں تلاش کیا جاتا ہے ۔“یہ چاولوں کی دیگ کے دو دانے بھی نہیں۔
میں کوئی نقاد نہیں جو ادب میں ابن صفی کے مقام کا تعین کر سکوں تاہم میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ابن صفی کے مقام کا تعین کسی نقاد کے بس کا کام بھی نہیں کیونکہ بقول ابن صفی ”میری کتابیں لائبریریوں میں نہیں بلکہ بستر کے تکیے کے نیچے پائی جاتی ہیں ۔“ ابن صفی کو محض ایک جاسوسی ناول نگارکا لیبل لگا کر نظر انداز کردینا اس کہنہ مشق ادیب کے ساتھ ”ادبی دہشت گردی “ ہے ۔ہمیں اس دہشت گردی کا نوٹس لینا چاہئے۔
نوٹ:ابن صفی کی سالگرہ اور برسی دونوں ماہ جولائی کے ایک ہی دن آتی ہیں ،لہٰذا آج کا یہ کالم اس عظیم تخلیق کارکے نام!