اوورسیز پاکستانی حوصلہ افزائی کے مستحق

June 23, 2021

اوورسیز پاکستانیوں نے جولائی 2020 سے لے کر جون 2021کے دوران 29ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھیج کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت نے جی ڈی پی کے جو اعداد و شمار پیش کئے، اُس کا سہرا اوورسیز پاکستانیوں کے سر ہے جن کی بھیجی گئی ترسیلاتِ زر کی وجہ سے معیشت میں بہتری آئی۔ واضح رہے کہ اس وقت ایک کروڑ 15 لاکھ سے زائد اوورسیز پاکستانی دنیا کے 52 ممالک سے زیادہ میں روزگار سے وابستہ ہیں جن میں سعودی عرب میں 60 فیصد، متحدہ عرب امارات میں 24 فیصد، برطانیہ اور یورپ میں تقریباً 12 فیصد جبکہ باقی دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔ اس سال بیرون ملک سے جو ریکارڈ ترسیلاتِ زر موصول ہوئیں، اُن میں دوست ملک سعودی عرب پہلے نمبر پر رہا جہاں سے 7 ارب ڈالر، دوسرے نمبر پر یو اے ای سے 5.6 ارب ڈالر، برطانیہ سے 3.7 ارب ڈالر، امریکہ سے 2.5 ارب ڈالر، عمان سے ایک ارب ڈالر، قطر سے 850 ملین ڈالر، کویت سے 800 ملین ڈالر، آسٹریلیا سے 550 ملین ڈالر، اٹلی سے 540ملین ڈالر، کینیڈا سے 530 ملین ڈالر، بحرین سے 430ملین ڈالر، جرمنی سے 390ملین ڈالر، فرانس سے 380ملین ڈالر، اسپین سے 370ملین ڈالر، یونان سے 250 ملین ڈالر، بیلجیئم سے 220ملین ڈالر، آئرلینڈ سے 140 ملین ڈالر جبکہ جاپان، ڈنمارک، سوئیڈن، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، ملائیشیا اور ناروے سمیت دیگر 28ممالک سے 9ارب ڈالر موصول ہوئے۔ اِس طرح ترسیلاتِ زر کے حوالے سے پاکستانی روپے میں 44 کھرب روپے موصول ہوئے جبکہ پاکستان کا بجٹ 73 کھرب روپے ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی اِن ترسیلاتِ زر نے کافی سہارا دیا، نہیں تو آج بجٹ کے اعداد و شمار کچھ مختلف ہوتے۔ ایسے میں جب کورونا کے باعث دنیا بالخصوص خلیجی ممالک کی معیشتیں دبائو کا شکار ہیں اور خلیجی ممالک میں نئے ترقیاتی منصوبے رُکے ہونے کے باعث نئی افرادی قوت کام کے سلسلے میں بیرون ملک نہیں جارہی، ترسیلاتِ زر میں اضافہ عام لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے اور آج ہر شخص یہ سوال کررہا ہے کہ ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ توڑ اضافہ کیسے ممکن ہوا؟ میں نے جب اس سلسلے میں ریسرچ اور اپنے قریبی دوست ماہر معیشت اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین سلیم چامڈیا سے گفتگو کی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافے کی وجوہات میں FATF کے وہ سخت اقدامات ہیں جن کے باعث ہنڈی اور حوالے کا کاروبار شدید متاثر ہوا اور لوگوں نے بینکنگ چینل سے ترسیلاتِ زر کیں۔ FATF صرف پاکستان میں سرگرم عمل نہیں بلکہ خلیجی ممالک میں بھی FATF نے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے ہیں جس کی مثال اس طرح ہے کہ دبئی اور خلیجی ممالک میں جہاں پہلے ورکرز کو عام طور پر تنخواہیں کیش میں دی جاتی تھیں اور وہ ہنڈی کے ذریعے اپنی رقوم بھجوانے کو ترجیح دیتے تھے مگر اب تمام کمپنیوں کیلئے یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے بینک اکائونٹ میں تنخواہیں منتقل کریں جو ملازمین بینکنگ چینل سے اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ کوویڈ نے بھی ترسیلاتِ زر میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا اور پہلے جو صاحب حیثیت لوگ اپنے ساتھ غیر ملکی کرنسی لاتے تھے اور وہ بینکنگ نظام میں ظاہر نہیں ہوتی تھی، کوویڈ کے باعث فلائٹس معطل ہونے کی وجہ سے غیر ملکی کرنسی کیش کی صورت میں لانے کا سلسلہ رُک گیا ہے۔

ایک طرف جہاں ترسیلاتِ زر میں اضافہ خوش آئند ہے، وہاں یہ امر قابل افسوس ہے کہ ہماری ترسیلاتِ زر، ملکی ایکسپورٹس سے تجاوز کرگئی ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹس 24سے 25ارب ڈالر اور امپورٹس 50ارب ڈالر کے قریب رہیں۔ اس طرح 25 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ 29ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر سے پورا کیا گیا اور حکومت کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ وہ کرنٹ اکائونٹ خسارے پر قابو پانے میں کامیاب رہی۔ حالیہ بجٹ میں بھی حکومت کا تمام تر دارومدار ترسیلاتِ زر پر ہے اور حکومت نے ترسیلاتِ زر کا تخمینہ 33 ارب ڈالر لگایا ہے۔ حکومت انڈسٹریز کو اربوں روپے سبسڈی کی صورت میں دیتی ہے اور انہیں کم نرخوں پر بجلی سپلائی کرتی ہے، اِسی طرح کم شرح سود پر صنعتوں کو قرضے فراہم کئے جاتے ہیں، اگر حکومت اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بھی مراعات کا اعلان کرے تو اس سے ترسیلاتِ زر بڑھ کر 50ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ اسی طرح حکومت سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہری کو ہر سال ایک ایوارڈ دیتی ہے، اگر سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر بھیجنے والے کو بھی ایسا ہی ایوارڈ دیا جائے تو اس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

ہم FATF کو تنقید کا نشانہ تو بناتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ FATF کے سخت قوانین کے باعث آج ہماری ترسیلاتِ زر میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ FATF نے ہنڈی کے ذریعے رقوم پاکستان منتقل کرنے کی اعلیٰ سطح پر روک تھام کی ہے جبکہ بیرون ملک سے پاکستان رقوم بھجوانے کا عمل بھی سخت کردیا ہے، اگر حکومت اس سلسلے میں مزید بہتری لائے تو ہم ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے رقوم بھیجنے کا معاملہ مکمل ختم کرسکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ہنڈی کے کاروبار کو مکمل ختم کردیا جائے تو ترسیلاتِ زر کا تخمینہ 35 ارب ڈالر تک ہے لیکن اس کیلئے حکومت کو بینکنگ چینل سے پیسے بھیجنے یا وصول کرنے والوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی اور اُنہیں ٹیکس وغیرہ کی چھوٹ دینا ہوگی، تب ہی ہنڈی یا حوالہ سے مکمل چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔