خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ

July 01, 2021

1960سے 1975تک باقاعدگی سے گورنمنٹ کالج، کنیئرڈ کالج میں سالانہ ڈرامےنہ صرف کلاسک بلکہ مشہور بھی ہوتے تھے۔ لاہور کالج اور ایف سی کالج میں بھی کوشش کی گئی مگر سب ڈرامے، ضیا الحق کے ڈرامے میں ضم ہوگئے۔ اب بچوں کے اسکولوں میں ٹیبلو، ڈانس اور لڈی پیش کرنے کیلئے بچے والدین سے سارے علاقائی لباس بنواتے اور چھوٹے سے چھوٹے شہر کے اسکولوں میں ان تقریبات میں والدین بھی شریک ہوتے۔ آنے والی حکومتوں نے ساری چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں پر چادر اوڑھنے کی اس گرمی میں پابندی، تعلیمی اداروں میں پرنسپل حضرات لازمی نافذ کرتے ہیں کہ ان کی نوکری کا سوال ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں سوال کرتے ہیں کہ نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا جبکہ امریکہ میں نوجوان تعلیم یافتہ پاکستانی اسکالرز کو حکومت کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ ہمارے نصاب میں عربی پڑھانا لازمی قرار دیا جارہا ہے۔ اس نئے نصاب میں جنسی حملوں اور آلودگی کے ساتھ موسمی آلودگی موضوع نہیں۔ بچوں اور بڑوں کے بنیادی حقوق اور شہریوں کی ذمہ داریاں نہیں سجھائی جائیں گی تو پھر احساس کے فنڈز کی تقسیم کا مسئلہ ہو کہ کورونا ویکسین انجکشن، ہلڑ بازی ہی قومی کردار ٹھہرایا جائے گا۔

50برس پہلے بھٹو صاحب کے زمانے میں ہر ڈویژن میں آرٹس کونسل قائم کرنے کے آرڈر ہوئے۔ تمام صوبوں میں کم یا زیادہ، بہرحال آرٹس کونسل میں مذاکرے، مشاعرے اور ڈرامے، شہر کے نوجوانوں کو تازہ خیالات سے آشنا کرتے ہیں مگر پھر فنڈز کی کمی ہر ایک کے آڑے آتی رہی ہے۔ اس لئے وہ رونق اور جوش و خروش، جو اس زمانے میں تھا اب ویرانیوں میں بدل گیا ہے۔ سرکاری مجبوریاں ہیں کہ سنسر شپ، ان باتوں میں کچھ تازہ زہر بھی شامل ہوتا جاتا ہے۔ مولویوں کے مسائل پر تو خود ہمارے پڑھے لکھے دوست حنیف جالندھری نہیں بول رہے۔ میرا مسئلہ وزیراعظم کی گفتگو جو کسی اخبار کے نمائندے کو بلا کر وزیراعظم ہائوس میں کی گئی، وہ بھی نہیں ہے کہ شیر چاہے بچہ دے یا انڈا دے۔ اس کی حاکمیت ہے۔ نادر شاہ کا زمانہ مت یاد کرو۔ صرف یہ سامنے رکھو کہ فیس بک کیا گل کھلا رہی ہے، وہ اعداد و شمار جو غیر ملکی پریس میں شائع ہوئے۔ وہ ذرا ملاحظہ فرمایئے:

2016سے 2019تک 23ہزار لڑکیاں فیس بک کے باعث خوار ہوئیں۔ 3لاکھ لڑکیوں نے عریاں تصویریں بنوائیں اور بلیک میل ہوئیں۔ 3ہزار لڑکیوں نے ساتھی کے کہنے اور ضد پر فلم بنوائی اور وہ مسلسل کہتا رہا ’’یہ میں Deleteکر دوں گا‘‘۔ مگر پھر کیا ہوا وہ روز اخبار اور میڈیا کبھی ڈھکے چھپے انداز میں اور کبھی ’’واشگاف‘‘ روپ میں ان سارے عذابوں کو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایک اور بات ذہن میں رکھیں یہ وہ سب لڑکیاں ہیں جو ضلعوں اور تحصیلوں میں رہتی ہیں۔ یہ جنسی حرکات ابودِ آدم سے چلی آرہی ہیں۔ سبب کیا ہے، معاشرے کی گھٹن۔

آج یہ حال ہے کہ موبائل، خاکروب سے لیکر ریت مٹی میں اٹے مزدور کے پاس موجود ہے۔ ہمارے بچوں کو موبائل کے وہ سب کرتب اور معجزے جو پوشیدہ ہیں، معلوم ہیں۔ میں بہت سی نئی مائوں کو کہتی ہوں ’’بچوں کو دودھ پیتے ہوئے ، ٹی وی کے سامنے مت بٹھائیں مگر سوفیصد مائیں میری بات کو رد کرتی ہوئی کہتی ہیں۔ بچہ، ٹی وی دیکھتے ہوئے دودھ کی بوتل پکڑ کر خود پیتا ہے۔ مجھے اس دوران گھر کے دوسرے کام کرنےکی مہلت مل جاتی ہے‘‘۔ کسی کو یاد ہی نہیں کہ بچے کو ماں کادودھ گود میں لیکر پلانے کی نفسیات بڑے ہوکر کس کردار کو ظاہر کرتی ہے۔

ہمارے چیف جسٹس کو کراچی سے عشق ہے۔ اچھا ہے اپنے شہر سے عشق کرنا۔ میں بڑی لاہور میں ہوئی۔رہتی اسلام آباد میں ہوں مگر مجھے اب تک لاہور ہی سے عشق ہے۔ وہاں جب راوی دریا کے کنارے بسے ہوئے کسانوں کو نیا شہر بنانے کے لئے ہٹایا جارہا ہے۔ مجھے دکھ اسی طرح ہورہا ہے جیسا کہ الہ دین پارک کے مضبوط اور خوبصورت ڈیزائن کو اسلئے اجاڑ دیا کہ انہوں نے زمین کی لیز میں توسیع نہیں کروائی تھی۔ چیف صاحب ہماری تاریخ تو ایک غریب عورت کی فریاد سن کر، اس کے دکھ دور کرنے کی حکایتوں سے بھری ہوئی ہے۔ 25ہزار لوگوں کے خاندان بیروزگار ہوگئے اور ابھی تو کراچی کواصلی حالت میں لانے کے لئے کتنی ہی عمارتیں ڈھائی گئیں اور ڈھائی جارہی ہیں۔ لاقانونیت کو کوئی بھی فروغ نہیں دینا چاہتا۔ گزشتہ سال کے جہاز حادثےنے کراچی کے گھروں اور افراد کو زندگی اور چھتوں سے محروم کیا اور وہ لوگ جن کے پیارے جہاز سے فناہوکر، دفنانے کو بھی نہ مل سکے۔ ان کے زخموں کا مداوا چیف جسٹس صاحب ہی کرواسکتے ہیں۔ پیسہ کراچی سے کہاں جاتا ہے بطور شہری آپ کی تشویش بجا مگر قانون کو عوام کو محفوظ بنانے کے لئے استعمال کی گزارش ہے۔