ڈرون اور پختونخوا حکومت کا مخمصہ

July 07, 2013

رحمن بابا قول و فعل اور حقیقت و نمائش میں فرق کو شعری واردات کے ذریعے کیا خوب بے نقاب کرتے ہیں، فرماتے ہیں۔
جنتو نہ پہ عمل دی پہ لباس نئہ دی رحمانہ
منم لاس کے دے تسبیح دی خو نظر دے پہ کمسو دے
خود سے حضرت مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اے رحمن جنت دکھا وے سے نہیں، عمل ِ خالص سے ملے گی، مانا ہاتھ میں تیری تسبیح ہے مگر نظر جو زلف یار پر ہے“۔
ہم پاکستانی انتخابی مہم کے دوران یہ تو دیکھتے تھے کہ ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں تسبیح ہے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی نظریں زلف ِ جاناں یعنی کرسی پر ہے!! یہ تو اب پتہ چلا جب ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پختونخوا حکومت نے اسمبلی کا اجلاس عجلت میں ملتوی کر دیا۔ اخبارات کے مطابق اپوزیشن کے اصرار کے باوجود پختونخوا کی حکمراں جماعت ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کے خلاف لائی جانے والی قرارداد اُس وقت روکنے میں کامیاب ہو گئی جب اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا یعنی جو جماعتیں اقتدار سے باہر ڈرون اور نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنے دیتی تھیں جب انہی نمائشی نعروں کی بدولت انہیں حکومت مل گئی تو اب وہ اپنے کہے پر عمل سے اس لئے راہ فرار اختیار کر رہی ہیں کہ مبادا کہیں مشکل میں نہ پھنس جائیں، بنابریں دوسرے معنوں میں ان جماعتوں کو ڈرون، نیٹو سپلائی سے کیا لینا دینا تھا ان کا مقصود تو وہ کرسی تھی جسے کھونے کا رسک وہ اب کسی صورت لینے کے لئے تیار نہیں !! تفصیلات کے مطابق بدھ 3جولائی کو خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل حکومت نے اپوزیشن کو ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بندش کے خلاف قرارداد منظور کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم جب اجلاس شروع ہوا تو صرف 45منٹ میں قرارداد کے ماسوا باقی کارروائی عجلت میں مکمل کر کے اسپیکر نے ڈرامائی طور پر اجلاس غیرمعینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دیا، جس پر اپوزیشن سکتے میں آ گئی، جمعیت علمائے اسلام (مولانا فضل الرحمن گروپ) کے رکن اسمبلی مفتی سید جانان کے مطابق اجلاس شروع ہونے سے قبل وزیر قانون اسرار اللہ گنڈاپور نے قرارداد پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن حکومت نے ہمیں دھوکہ دے دیا … اطلاعات کے مطابق قبل ازیں جب اپوزیشن اور حکومت نے قرارداد کے حوالے سے مذاکرات کئے تو اپوزیشن کا موٴقف تھا کہ قرارداد میں کہا جائے گا کہ اگر ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو نیٹو سپلائی بند کر دی جائے گی جس پر حکومت تذبذب کا شکار ہوئی اور منت سماجت کی کہ قرارداد میں سے نیٹو سپلائی بند کرنے کی سطور نکال لی جائیں۔ جب اپوزیشن نے اسے اپنے للکار والے شاہکار وعدے یاد دلائے تو وہ ماننے پر تیار تو ہوئی لیکن شرط یہ عائد کی کہ نیٹو سپلائی کراچی سے بند ہونی چاہئے جس پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور حکومت کی منطق کو مضحکہ خیز قرارداد دیتے ہوئے یہ رائے دی گئی کہ پختونخوا کے اراکین دوسرے صوبوں کے بجائے اپنے صوبے کے حوالے سے استحقاق رکھتے ہیں، جب ہم خود یہ ”نیک کام“ سرانجام دے سکتے ہیں تو دوسروں کو کیوں زحمت دی جائے!! بہر کیف حکومت نے قرارداد لانے کا وعدہ کرلیا لیکن جیسے ہی دیگر کارروائی مکمل کی تو فوری طور پر اجلاس ملتوی کر دیا۔یہ تو ابتدائے عشق ہے، نہ جانے آنے والے دنوں میں عوام کے جذبات برانگیختہ کرنے والوں کو کتنی مزید قلابازیاں کھانی پڑیں!! حیرت کا باعث یہ امر ہے کہ جس جماعت نے نیٹو سپلائی کے خلاف دو روز تک پشاور میں دھرنا دیا، جب اُس کے ہاتھ یہ اختیار آ گیا کہ وہ اے این پی حکومت سے کئے گئے نیٹو سپلائی بند کرنے کے مطالبے پر ازخود عملدرآمد کر سکتی ہے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگ گئی ہے !!
دوسری طرف جب مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کو اسی پیمانے پر جانچا جائے تو وہ بھی انیس بیس کے فرق سے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے صف میں ہی کھڑی نظر آتی ہیں۔ پختونخوا اسمبلی کا اجلاس جب ملتوی ہوا تو اپوزیشن چیمبر میں مسلم لیگی و اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب خان کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں اس مقصد کے حصول کے لئے اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلانے کے لئے ریکوزیشن پر ارکان سے دستخط لئے گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مسلم لیگ پختونخوا اسمبلی میں اتنی سرگرداں ہے وہ قراردادوں کے چکر میں پڑنے کے بجائے اپنی مرکزی حکومت سے اس سلسلے میں عملی اقدامات کا تقاضا کیوں نہیں کرلیتی ؟!! جے یو آئی قرارداد لانے کی فکر میں ہے لیکن کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ وہ مرکزی حکومت کے لئے اپنی حمایت ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی بند کرنے سے مشروط کرلے… لیکن بات تو وہی رحمن بابا والی ہے کہ زبان پر تو صبح شام امریکہ کے خلاف ورد جاری رہتا ہے لیکن ہدف ذاتی و جماعتی مفادات ہی ہوتے ہیں۔وطن عزیز میں سب سے آسان کام امریکہ کو گالیاں دینا ہے اور سب سے باعث شرم امر اقتدار میں آکر گالیاں کھانے والے امریکیوں سے مل بانٹ کر کھانا ہے!! صدر آصف زرداری نے کیا خوب کہا تھا ڈرون چیل نہیں کہ گرایا جائے عمران خان سمیت تمام سیاستدان بھی اسی سچ سے بدرجہ اتم آگاہ تھے لیکن مقصد چونکہ ڈرون گرانا نہیں تھا اے این پی وپیپلز پارٹی کی حکومت گرانا تھا سو وہ مقصد انہوں نے حاصل کر لیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ سیاستدانوں کے نعرے ہمیشہ دکھاوا ثابت ہوئے اگر اقتدار میں آنے والے سیاستدان اپنے نصف وعدوں پر بھی عمل کر لیتے تو آج پاکستان فنا وبقا کی صورتحال سے دوچار اقوام عالم کے سامنے یوں کاسہٴ گدائی لئے کھڑا نظر نہ آتا ‘!! انتخابی مہم کے دوران جن کا نعرہ کشکول توڑنا تھا انہوں نے اب آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کر لی ہیں اور 5.3/ارب ڈالر قرضہ منظور کرالیا۔ وزیر اطلاعات محترم پرویز رشید نے بجا فرمایا کہ ”قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا لیکن انتخابی مہم کے دوران بھی اس طرح کے حقائق کی نقاب کشائی کی جا سکتی تھی اگر وہ تمام ناپسندیدہ کام جو سابقہ حکومت کر رہی تھی آپ بھی وہی کر رہے ہیں تو پھر انتخابات کی بدولت ملک و قوم کو چہروں کی تبدیلی کے ماسوا ملا تو کیا ملا؟قول وفعل میں تضاد کے ریکارڈ ہولڈر رہبران ملت کے اوصاف حمیدہ کے کس کس رخ زیبا سے پردہ اٹھایا جائے کہ ہر دیدار پر جمال بے مثال کی تاب کیلئے جگر کہاں سے آئے … اب جو وزیر موصوف بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کر دینے کیلئے صدا بلند کئے ہوئے ہیں ۔وقت کا نوحہ یہ ہے کہ غیر تو کیا پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے جبکہ پاکستانی دھڑا دھڑ سرمایہ بیرون ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے معیشت کے اتار چڑھاؤ پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی سید منہاج الرب کی 4 جولائی کو روزنامہ جنگ میں شامل اشاعت ہونے والی وہ چشم کشا رپورٹ ملاحظہ فرمائیں جس کے مطابق ”ہر روز ہنڈی کے ذریعے تین سے چار کروڑ ڈالر پاکستان سے باہر منتقل ہو رہے ہیں“ یہ تو غیرقانونی طور پر منتقل ہونے والی رقم ہے قانونی طور پر ترسیل شدہ رقم اس کے علاوہ ہے۔ کاش عوام جذباتی نعروں کے بجائے کبھی ہوش وتفہیم کی روشنی میں بھی کوئی رائے قائم کرلیں۔اور جو ان سے بجٹ کے موقع پر ہمیشہ قربانی کا تقاضا کرتے ہیں وہ یہ قربانی خود کیوں نہیں دیتے!! کاش ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکیں اے کاش، فیض صاحب نے کہا تھا
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا