افغانستان کی صورت حال۔ خطے پر اثرات

July 09, 2021

دو دہائیوں تک افغانستان کو تاراج کرنے کے بعد امریکی فوج وہاں سے نکل گئی۔ تمام تر جدید جنگی ساز و سامان اور بے حساب ڈالروں کے باوجود امریکہ کو افغانستان سے بے نیل و مرام فرار ہونا پڑا۔ رات کی تاریکی میں بگرام ائیر بیس پر امریکی فوج بکتر بند گاڑیوں سمیت دیگر گاڑیوں، فوجیوں کے استعمال کا سامان اور بھاری تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود بھی چھوڑ گئی،صرف بھاری ہتھیار لے گئی۔ امریکی فوجیوں کے جانےکےبعد مقامی افغانیوں نے بگرام ائیر بیس پر ہلہ بول دیا اور جو جس کے ہاتھ لگا وہ لوٹ کر لے گیا۔ افغان فوجی کمانڈرز کے مطابق امریکیوں نے پہلے سے ان کو کوئی آگاہی نہیں دی تھی۔ دوسرے الفاظ میں امریکیوں نے یا تو افغان حکومت کے ذمہ داران کو اس قابل نہیں سمجھا کہ انہیں اپنی روانگی سے آگاہ کریں یا وہ ان پر اعتبار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پینٹاگون کا دعویٰ ہے کہ افغان ذمہ داران کو پہلے ہی اطلاع دی جا چکی تھی۔ حقیقت کیا ہے یہ تو بتانے والے ہی جانتے ہوں گے لیکن جس طرح امریکہ ناکام و نامراد افغانستان سے نکلا اس سے ویت نام میں امریکی ناکامی کی یاد تازہ ہوگئی۔

طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ اس بار طالبان سوچ سمجھ کر کارروائیاں کررہے ہیں۔ انہوں نے شروعات ہی شمالی افغانستان کے اہم علاقوں سے کی ہیں۔ ماضی میں طالبان کو مخالف گروپوں کی جانب سے یہاں سخت مزاحمت کا سامنا رہا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس بار طالبان کے مزاحمت کار کوئی مخالف گروپ نہیں بلکہ کمزور افغان فوجی ہیں، جن میں سے بیشتر پڑوسی ملک فرار ہوگئے یا طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک چکے ہیں۔طالبان کے راستے میں رکاوٹ امریکی جنگی ہوائی جہاز تھے جن کی بمباری سے طالبان مشکل میں تھے، اب وہ مشکل تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ ایک اور حیرت انگیزبات یہ ہے کہ طالبان نے امریکی فوجیوں کا کہیں بھی راستہ روکا نہ ان کے انخلامیں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ تیسری بات یہ کہ امریکی فوجی بکتر بند گاڑیاں، جیپیں، جنگی سامان اور بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود ایک ایسے مقام پر چھوڑ گئے جو طالبان کے راستے اور پہنچ میں ہے جس پر طالبان نے آسانی سے قبضہ کرلیا۔ یہ سب اتفاقات ہیں یا کوئی افہام و تفہیم، یہ فریقین ہی جانتے ہوں گے۔طالبان اب تک سو سے زائد اضلاع کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ دوسری طرف افعان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کبھی نہ تو طالبان کی برتری کو تسلیم کرے گی نہ طالبان کو افغاستان پر قبضہ کرنے دے گی۔ افغان صدر نے ان افواہوں کی بھی تردید کی کہ ان کی طالبان کے ساتھ کوئی خفیہ ڈیل ہوئی ہے۔ انہوں نے طالبان کوافغانستان میں خونریزی کا ذمہ دار قرار دیااور حسبِ روایت پاکستان کے بارے میں کہا کہ امریکیوں کے مطابق اب فیصلہ طالبان اور پاکستان نے کرنا ہے کہ حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جانا ہے یا امن کے قیام کے لئے کوشش کرنی ہے۔ افغان صدر نے جو کچھ کابینہ اجلاس میں کہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو ابھی مزاحمت کا سامنا رہے گا افغان حکومت نے اب تک طالبان کے خلاف فضائیہ کو استعمال نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ بھی ایک معمہ ہےجبکہ افغان شہریوں کی فی الحال پاکستان کی طرف رخ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس وقت طالبان شمالی افغانستان میں مصروف اور برسرپیکار ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر باشندے ازبک، تاجک اور ہزارہ برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے صرف ہزار ہ برادری کے لوگ ایران کا رخ کرسکتے ہیں۔ ماضی میں بھی جب طالبان کے خلاف احمد شاہ مسعود اور جنرل دوستم کے گروپس لڑرہے تھے تو صرف ہزارہ برادری کے لوگ ایک مخصوص تعداد میں ایران چلے گئے تھے۔ طالبان کے قندھار، کابل اور خوست، پکتیا، لوگر اور جلال آباد کے قریب پہنچنے پر بڑی تعداد میں افغانوں کی پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ طالبان کے لئے اہم ترین کابل پر قبضہ کرناہے۔وہ اس وقت تک افغانستان میں برسراقتدار نہیں آسکتے جب تک کابل کا کنٹرول حاصل نہ کریں۔ اس کے علاوہ قندھار بھی طالبان کے لئے بہت اہم ہے۔ اگرچہ ماضی میں طالبان کی ابتدا ملاعمر کی رہنمائی میں قندھار سے ہوئی تھی لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ قندھار اور کابل میں شدید لڑائی کا خطرہ موجود ہے۔ طالبان کے لئے اس وقت موسم بھی سازگار ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ سردیوں سے پہلے کابل پر قبضہ کرلیں۔

افغانستان میں جیسے جیسے لڑائی میں شدت آئے گی ویسے ہی اس خطہ میں امن کو درپیش خطرات بڑھتے جائیں گے۔ اس جنگ میں کون کس کی حمایت کرے گا اور کس کا کتنا جانی و مالی نقصان ہوگا؟ یہ تو آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو ہے کہ اس کے نہ صرف اربوں روپے افغانستان میں لگے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو بطور بیس کیمپ استعمال کرنے کے مواقع بھی ختم ہوسکتے ہیں۔ پاکستان، ایران اور بھارت مختلف وجوہات کی بنا پر پورے خطے میں سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس وقت طالبان اپنی برتری کے مدِ نظر کسی کم قیمت معاہدے کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔ افغانستان میں خانہ جنگی اور لڑائی میں شدت کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ لاکھوں افغانوں کی آمد پاکستان کیلئے نئی مشکلات پیدا کرے گی۔ماضی میں بھی پاکستان کو مہاجرین کی آمد سےسماجی و معاشی منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)