چارہ، چُھریاں، مُڈیاں اور رسیاں

July 15, 2021

تمام مذاہب اور ثقافتوں میں وقتاً فوقتاً مذہبی ایام اورتہوار منانے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ مواقعے ایک جانب لوگوں میں اجتماعیت کا شعور بےدار کرتے ہیں تو دوسری جانب ان کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں معاشروں میں گردش زر کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ اسلامی معاشروں میں بھی وقتاً فوقتاً ایسی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔

عیدالاضحی مسلمانوں کا ایسا تہوار ہے جو ایک جانب انہیں راہِ خدا میں اپنی عزیز ترین شئے قربان کرنے کا درس دیتا ہے تو دوسری جانب اس موقعے پر زبردست معاشی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ لوگ قربانی کے جانور خریدتے ہیں جنہیں پہلے بیوپاری ایک سے دوسرے مقام پر لاتے اور لے جاتے ہیں، پھر یہ ہی عمل جانور خریدنے والے کرتے ہیں۔

پھر جانوروں کے لیے چارہ اور ان کی آرایش کے لیے مختلف اشیاء خریدی جاتی ہیں۔ قربانی کےلیے چھریاں، چاقو اور بغدے خریدےجاتےہیں۔ گوشت بنانے کے لیے مُڈّیاں درکار ہوتی ہیں۔ قصاب کا انتظام کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ ان تمام مراحل میں پیسہ ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا ہے اور ارتکازِ دولت کے فلسفے پر چوٹ پڑتی ہے۔اس پورےعمل سے بہت سے افراد کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ ذیل میں ہم نے ان میں سے بعض افراد سے گفتگو کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ عیدالاضحی کے موقعے پر وہ کس طرح کچھ رقم کما لیتے ہیں اور اس ضمن میں ماضی اور حال کا فرق کیا ہے۔

چارہ ،چارے کی اقسام اور خطرات

سُپر ہائی وے پر واقع مویشی منڈی میں جانوروں کا چارہ فروخت کرنے کے لیے کئی افراد نے جھونپڑیاں یا ٹھیے بنائے ہیں جہاں چارہ کاٹنے کی مشینیں بھی نصب ہیں۔ تاہم بعض افراد کٹا ہوا چارہ بھی فروخت کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ سلیم، اکبر، ملک نواز، شفیع چانڈیو وغیرہ سے اس منڈی میں گفتگو کا موقع ملا۔ ان کے بہ قول یہ کاروبار وہ ہی شخص کرسکتا ہے جسے اس کام کا پہلے سے تجربہ ہو۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چارے کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ اسی طرح ان کے معیارات اور نرخ بھی ہوتے ہیں۔ ہرا چارہ ہر علاقے میں علیحدہ معیار کا ہوتا ہے۔

بھوسے کا بھی یہ ہی عالم ہوتا ہے۔ مختلف علاقوں میں ان کی خریدو فروخت کے لیے منڈیاں قائم ہیں جہاں بڑے بڑے بیوپاریوں اور آڑھتیوں سے چھوٹے بیوپاری اور آڑھتی اپنے نمائندوں کے ذریعے خرید و فروخت کرتے ہیں اور خریدا گیا چارہ ٹرکوں میں بھر کر مختلف علاقوں، مویشی منڈیوں اور باڑوں کو بھیجا جاتا ہے۔ یعنی یہ کام کرنے کے لیےپوراجال درکار ہوتاہے۔اس جال میں بیوپاری ، آڑھتی اور ٹرانسپورٹرز شامل ہوتے ہیں۔

مذکورہ افراد کے بہ قول عام آدمی کے لیے ہرا چارہ، بھوسا، گھاس، کھلی، بھوسی ٹکڑے وغیرہ ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن ان کے بیوپاریوں اور جانوروں کے مالکان کو یہ سب اشیاء خریدنے، فروخت کرنے اور جانوروں کو کھلانے کے ضمن میں کئی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ نرخ اور معیارکے ضمن میں کوئی دھوکا نہ ہوجائے اور جانوروں کی صحت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ کبھی کبھار ہرے چارے،کھلی، دانے، بھوسے اور بھوسی ٹکڑوں میں پھپھوند (یعنی فنگس) لگ جاتی ہے۔

جسے کھانے سے جانور کی موت تک واقع ہو سکتی ہے۔ چارے کی خرید و فروخت سے وابستہ افراد اس بارے میں ہر وقت ہوشیار رہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ عموماً یہ شکایت کس موسم میں پیدا ہوتی ہے۔ پھپھوند مذکورہ اشیاء کے کس حصے میں لگتی ہے، اس کی نشانی کیا ہوتی ہے، کس موسم میں کس علاقے سے آنے والے چارے یا مذکورہ اشیاء میں یہ شکایت سامنے آسکتی ہے اور ایسے چارے وغیرہ کو کس طرح رکھا، صاف اور فروخت کیا جاتا ہے۔

بتایا گیا کہ عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ ہی مذکورہ اشیاء کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ پرانے بیوپاری اس صورت حال سے بچنے کے لیے پہلے سے بڑے بیوپاریوں سے رابطہ کرتے ہیں اور بعض معاہدے بھی کرلیتے ہیں جس کے لیے بیعانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ ہی منڈیوں میں چارے وغیرہ کی کمی کی شکایات سامنے آنے لگتی ہیں۔ ان کی نقل و حمل کے لیے ٹرانسپورٹرز نسبتاً زیادہ کرایہ مانگنے لگتے ہیں اور چارہ کاٹنے والے بھی ان ایّام میں مزدوری کا معاوضہ زیادہ طلب کرنے لگتے ہیں۔

مویشی منڈی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے عیدالاضحی سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل سے کوششیں شروع کردی جاتی ہیں۔ بجلی کی فراہمی انتظامیہ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ جگہ حاصل کرنے کے بعد عارضی جھونپڑی بنائی جاتی ہے کیوں کہ سبز چارہ کھلی ہوامیں اور دھوپ کی وجہ سے خراب ہونے لگتا ہے۔ چارہ فروخت کرنے والوں کی جھونپڑیوں میں عموماً دو تین افراد ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ ایک شخص چارہ کاٹتا ہے، دوسرا فروخت کرتا ہے اور تیسرا مال کی مسلسل فراہمی کے لیے رابطے کرنے، مال کی خریدو فروخت اور اسے اتروانے کی ذمے داریاں نبھاتا ہے۔

مویشی منڈی میں جانوروں کے بعض بیوپاری بھی ان سے چارہ وغیرہ خریدتے ہیں اور بعض کا اپنا انتظام ہوتا ہے۔ سبز چارے اور بھوسے وغیرہ کے ٹرک ملک کے مختلف حصوں سے سفر کرکے رات کے آخری پہر میں یا علی الصباح منڈی پہنچتے ہیں جس کے بعد سبز چارے کی کٹائی کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور وقفے وقفے سے سارا دن جاری رہتا ہے۔

چارہ فروخت کرنے والوں کی جھونپڑیوں اور ٹھیوں میں چارپائیاں، چارہ کاٹنے کی مشین، بستر، صراحیاں، مٹکے، ریڈیو وغیرہ عام طور سے دیکھنے کو ملے۔ یہ کام کرنے والوں کو وقفے وقفے سے موبائل فون بھی استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ کسی جھونپڑی میں موبائل فون اور یو پی ایس کی چارجنگ کا عمل بھی دیکھنے کو ملا۔ بتایا گیا کہ بجلی چلی جانے کی صورت میں بعض تاجر جنریٹر کا بھی انتظام کرلیتے ہیں تاکہ چارے کی کٹائی کا عمل رُکنے نہ پائے۔ ایک جھونپڑی میں چارہ کاٹنے والے محنت کش کو گدلا پانی پیتے دیکھا تو سوال کرنے پر اس نے جواب دیا: ’’بابوجی! یہاں کاروبارا ور محنت کرنے والوں کو جانوروں کے ساتھ ان ہی کی طرح رہنا پڑتا ہے۔

دن بھر پسینے اور دھول مٹی سے جسم بے چین رہتا ہے۔ کھانے، پینے کی اشیاء میں بھی بھوسے کےٹکڑے اور ریت مٹی اُڑکرپڑتی رہتی ہے جسے مجبوراً کھانا اور پینا پڑتا ہے۔ یہاں پانی خریدنا پڑتا ہے جوگدلا اور دھول مٹی والا ہوتا ہے۔ رات کو مچھر صحیح سے سونے نہیں دیتے۔ امیر تو سال میں ایک بار قربانی کرتا ہے، لیکن غریب تو روزانہ قربان ہوتا ہے۔ چند پیسے کمانے کے لیے گھر سے سیکڑوں میل دور ایسے ماحول میں رہنا ہماری مجبوری ہے۔ اگر یہ قربانی نہ دیں تو چار پیسے کیسے ہاتھ آئیں گے۔‘‘

بُھوسی ٹکڑے نہ کھلائیں

سبز چارے کے نرخ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پتّے کے رنگ، چوڑائی، تازگی اور ڈنڈی کی موٹائی دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں۔ پھپھوند پتّوں کے غیر نمایاں حصّوں اورگٹّھوں کے اندرونی حصّوں میں لگتی ہے۔ عام آدمی کو سبز چارہ خریدتے وقت گہرے سبز رنگ کے پتّوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور چارے کا گٹّھا کھول کر اس میں پھپھوند نہ لگی ہونے کا اطمینان کرلینا چاہیے۔ اگر کھلی کھلانا مقصود ہو تو بالکل خشک کھلی خریدنی چاہیے۔ بھوسی ٹکڑے کھلانے سے عام آدمی کو مکمل طور پر احتراز کرنا چاہیے،کیوں کہ ان میں اکثر پھپھوند کی شکایات ہوتی ہیں۔ چناچھلکے کے ساتھ کھلانا بہتر ہوتا ہے۔

مذکورہ افراد کے بہ قول چارے بھوسے وغیرہ کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے کے بعد عیدالاضحی پر اس کاروبار میں اب پہلے والا مزہ نہیں رہا ہے۔ پہلے لوگ قربانی کا جانور عموماً دس پندرہ روز پہلے خرید کر گھر میں یا کسی باڑے میں باندھ دیتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ دس پندرہ دنوں میں جانور کو اچھی خوراک فراہم کرکے اس کی صحت بہت اچھی کردی جائے۔ لیکن اب گائے، بیل کے ایک روز کے چارے کا خرچ پانچ تا آٹھ سو روپے تک جا پہنچا ہے لہٰذا لوگ چاہنے کے باوجود عید قربان سے ایک دو روز قبل ہی جانور خریدتے ہیں۔

بکرے، دنبے تولُوسن، گھاس، پھونس، پتّوں وغیرہ سے بھی پیٹ بھرلیتے ہیں، لیکن گائے، بیل کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ بکروں، دنبوں اور بھیڑوں کو بھی فربہ کرنے کے لیے چنے کی دال وغیرہ دینی پڑتی ہے۔ اس تمام صورت حال کے باوجود مختلف علاقوں میں خشک اورسبز چارہ فروخت کرنے والے ذوالحج کے دس، بارہ ایّام میں یومیہ سات ، آٹھ سو روپے منافع کما لیتے ہیں۔ مویشی منڈیوں میں یہ کام کرنے والے تاجر یومیہ کم از کم دس بارہ ہزار روپے منافع کما لیتے ہیں، لیکن اس میں سے دو تین افراد کی اجرتیں اور دیگر اخراجات بھی نکالنے ہوتے ہیں۔

کمانی،بلیڈ اور اسکریپ سے بنی چُھریاں

رنچھوڑ لائن میں واقع لکھ پتی ہوٹل کے قریب چُھریاں اور بغدے فروخت کرنے والے شبیر احمد کے بہ قول وہ دس پندرہ برس سے عیدالاضحی کے موقع پر چُھریاں اور بغدے فروخت کررہے ہیں۔ اس کام سے انہیں دس بارہ روز میں مجموعی طور پر تین ،چار ہزار روپے کی آمدن ہوجاتی ہے۔ وہ لوہار بازار،واقع اسلم روڈسے چُھریاں اوربغدے خریدتےہیں۔ بعض اوقات وہ اپنی مرضی کے ڈیزائن کے مطابق چُھریاں اور بغدے بنواتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گاہک ان سےکیسی چُھریاں اور بغدے خریدنا چاہتے ہیں۔ لوہے کے ہوش ربا نرخوں نے یہ کاروبار بُری طرح متاثر کیا ہے۔

رہی سہی کسرچین سے آنے والی چُھریوں، چاقوئوں اور کمپنیوں کے مال (برانڈیڈ سیٹس) نے پوری کردی ہے۔ پہلے لوگ کمانی والی چُھریاںبہ طور خاص طلب کرتے تھے۔ اس کے بعد بلیڈ والی چُھریوںکی مانگ تھی۔ کوئی لوہار سے خاص طور پے کمانی کا بغدا بنواتا تھا۔ لیکن اب اوّل تو نئی نسل کو اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہے ۔دوم، جنہیں معلوم ہے وہ منہگائی اور مصروفیاتِ زندگی کی وجہ سے اس بکھیڑے میں نہیں پڑتے۔ لوہار بھی اب چُھریوں اور بغدوں پر زیادہ محنت نہیں کرتے، کیوں کہ انہیں ان کی محنت کا اچھا معاوضہ نہیں ملتا۔ پرانے لوگ کباڑ بازار سے گاڑیوں کی کمانیاں خریدکر لوہار کے پاس لےجاتے اور ان کی مدد سے اپنی پسندکی چھریاں اور بغدے بنواتے تھے ۔

پتلی اور چھوٹی چُھریوں کے لیے بھاری بھر کم آریوں (جو مشینوں کی مدد سے چلائی جاتی ہیں) کے بلیڈز خام مال کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اسکریپ سے جو چُھریاں بنائی جاتیں انہیں ٹیمپرکیا جاتا تھا۔ یعنی انہیں بنانے کے بعد گرم حالت میں پانی اور تیزاب میں بجھایا جاتا تھا۔ ایساکرنے سے اُن کی دھار کی عمر بڑھ جاتی تھی اور ایسی چُھریاں استعمال کے دوران بہت اچھے نتائج دیتی تھیں۔ لیکن اب تو تیسرے درجے کے اسکریپ کے لوہے سے چُھریاں بن رہی ہیں جن میں پھوٹک لوہا یا بیٹرھ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بعض اوقات استعمال کے دوران ایسی چُھریاں ٹوٹ جاتی ہیں اور استعمال کرنے والوں کو زخمی کر دیتی ہیں۔ ان چھریوں کی دھار جلد کُند ہوجاتی ہے لہٰذا بار بار انہیں تیز کرنا پڑتا ہے یا ان پر شان رکھوانی پڑتی ہے۔

ملیر کے علاقے ٹنکی میں سڑک کے ساتھ اسٹال لگا کر چھریاں اور بغدے فروخت کرنے والے محمد شاکر کے بہ قول وہ دس برس سے عیدالاضحی کے موقع پر یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس کام میں منافع کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اب لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز مل جائے جو قربانی کے جانور کا گوشت اور ہڈیاں کاٹنے اور توڑنے کے کام آسکے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ چُھری یا بغدے کا معیار کیا ہے اور وہ کس قسم کے خام مال سے تیار کیا گیا ہے۔ البتہ پرانے لوگ اب بھی چُھریاں اور بغدے دیکھ بھال کر خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ایسی چیز خریدیں جو برس ہا برس تک کام آئے ۔

پہلے چھریاں 25 تا 50 روپے میں مل جاتی تھیں لیکن اب مناسب سائز کی چُھری کے نرخ کم ازکم دوسو روپے سے شروع ہوتے ہیں۔ بغدے پہلے دو تا تین سو روپے میں بھی مل جاتے تھے لیکن اب سات،آٹھ سو روپے سے کم کے نہیں ملتے۔ اب تو قصّابوں نے بھی بغدوں کی جگہ کلہاڑیاں استعمال کرنا شروع کردی ہیں۔ تاہم بعض ہڈیاں توڑنے کے لیے وہ آج بھی بغدے ہی استعمال کرتے ہیں۔ اناڑی قصائی کلہاڑیوں کے وار کرکرکے گوشت اور ہڈّیاں خراب کردیتے ہیں۔ انہیں کلہاڑیاں سستی پڑتی ہیں اور صرف کام نکالنا ہوتا ہے لہٰذا وہ انہیں ہی استعمال کرتے ہیں۔آج کل قربانی کرنے والے بھی بس یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد قربانی کے جانور کا گوشت بن جائے اور ان کی جان چھوٹے۔ محمد شاکر کے بہ قول وہ عیدالاضحی کے دس بارہ روز میںتین چار ہزار روپے کما لیتے ہیں۔

پائوں کے توڑے ، گھنٹیاں،چمک دار چادریں

سُپر ہائی وےاور ملیر سٹی پرواقع مویشی منڈیو ں میں میں جانوروں کی آرایش کےلیے استعمال ہونے والی اشیاء اور رسیّاں فروخت کرنے والے صنوبر خاں، رفیق سومرو، معراج محمد، نذیر اور ندیم کے بہ قول وہ کئی برس سے عیدالاضحی کے موقعے پر یہ اشیاء فروخت کرتے آرہے ہیں۔ پہلے ان اشیاء کی تعداد بہت کم تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے صرف گلے میں ڈالنے والا پٹّا، پائوں کے توڑے اور گھنٹیاں ہوتی تھیں، لیکن اب سر اور ناک پر لگائی جانے والی پٹّی، جانور کی کمر پر ڈالنے والی چادر، گھنگھرو، طرح طرح کی گھنٹیاں، موتیوں کی مالائیں، بیل بوٹے والی پٹّیاں (بیلیں) وغیرہ بازاروں میں دست یاب ہیں۔

یہ اشیاء سو، ڈیڑھ سوتا پانچ سو روپے میں فروخت ہوتی ہیں۔ سُپر ہائی وے پر واقع مویشی منڈی میں یہ اشیاء فروخت کرنے والے صنوبر خان کے مطابق گزشتہ برس اس منڈی سے ایک شخص نے پندرہ لاکھ روپے کا بیل خریدا تھا اور اس کے لیے ان سے تقریباً تین ہزار روپے کی آرایشی اشیاء لی تھیں۔ بعض افراد توقیمتی گائے اور بیل کے بیٹھنے کے مقام پر بھی خوب صورت اور چمک دار چادریں بچھاتے ہیں۔کمر پرڈالنے والی چادر عموماً ریشمی اور چمک دار ہوتی ہے ۔ بعض چادریں جالی دار ہوتی ہیں جن پر گوٹا، کناری بھی لگائی جاتی ہیں۔بعض چادروں کے کونوں پرچھوٹے چھوٹے گھنگھرو لگے ہوتے ہیں جو جانور کے حرکت کرنے یا چلنے پر آواز پیدا کرتے ہیں۔

بتایا گیا کہ جانوروں کو باندھنے والی رسّیاں تین تا پانچ روپے فی لچّھی کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں۔ نائیلون کی رسّیاں سوتی رسیوں کی نسبت سستی ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی گرہیں کھلنے کا خطرہ رہتا ہے لہٰذا سمجھ دار افراد سوتی کے ساتھ ریشمی رسّیاں استعمال کرتے ہیں تاکہ اگر ایک رسّی کی گرہ کُھل جائے تو دوسری کے ذریعے جانورکو بھاگنے سے روکا جاسکے۔ بعض افراد مویشی منڈی آتے ہیں تو رسّیاں ساتھ لاتے ہیں۔ لیکن بہت سے افراد ایسا نہیں کرتے اور جانور خریدنے کے بعد رسّیاں فروخت کرنے والوں کو ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔

مذکورہ افراد کے بہ قول وہ عیدالاضحی کے ایّام میں یومیہ چار۔پانچ سو روپے منافع کما لیتے ہیں ۔ لیکن یہ مختصر رقم کمانے کے لیے انہیں سارا سارا دن دُھول مٹّی پھانکنا پڑتی ہے اور سخت ماحول میں صبح سے شام تک طرح طرح کے گاہکوں کی باتیں سننا اور انہیں مال فروخت کرنا ہوتا ہے۔ ان افراد کےبہ قول لوگ ہزاروں، لاکھوں روپے کے جانور خریدتے ہیں، لیکن ان سے چند روپوں کی اشیاء خریدنے کے دوران بعض اوقات کافی بحث،مباحثہ کرتے ہیں جس پر انہیں کافی حیرت ہوتی ہے۔

مُڈّی کی عمر اور گانٹھیں

برنس روڈ، ملیر اور مویشی منڈی، سپرہائی وے پر مُڈّیاں فروخت کرنے والے افراد، اعجاز خاں، طاہر ملک، سراج اور عبدالقدیر کے مطابق وہ کئی برس سے عیدالاضحی کے موقعے پر مُڈّیاں فروخت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلے یہ کام نسبتاً زیادہ منافع بخش تھا، لیکن اب منافعے کی شرح کم ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے یہ کام بہت کم افراد کرتے تھے، لیکن اب ایک ہی مقام پر ایسے کئی افراد نظر آجاتے ہیں جو مُڈّیاں فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ مذکورہ افراد کے مطابق پہلے یہ کام وہی افراد کرتے تھے جو سال بھر لکڑیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک رہتے تھے۔

تاہم اب عیدالاضحی کے موقعے پر بہت سے ایسے افراد بھی مُڈّیاں فروخت کرنے لگتے ہیں جو سال بھر کوئی اور کام کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس کاروبار میں نئے عوامل شامل ہوگئے ہیں۔ پہلے لکڑی کے تاجر عیدالاضحی کی آمد سے دو تین ماہ قبل ہی مُڈّیوں کے لیے درکار مخصوص لکڑیوں کی خریدو فروخت کا کام شروع کردیتے تھے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد وہ ہاتھ والی بڑی بڑی آریوں کے ذریعے لکڑیاں کاٹ کر مُڈّیاں بناتے تھے۔

بتایا گیا کہ پہلے مُڈّیاں بنانے کے لیے درختوں کے موٹے اور پُختہ تنے استعمال کیے جاتے تھے۔ یہ لکڑیاں عام طور سے ملک کے مختلف حصوں سے کراچی لائی جاتی تھیں۔ ان میں شیشم، پڑتال، نیم، اورکیکر کی لکڑیاں شامل ہوتی تھیں۔ اب پکّاشیشم کم یاب اور بہت منہگا ہوگیا ہے۔ نیم کی لکڑی بھی بہت کم ملتی ہے۔ لہٰذا تیسرے درجے کی لکڑیوں سے مُڈّیاں بنائی جارہی ہیں۔ا ب لکڑیوں کے بہت سے تاجر لکڑیاں فروخت کرنے کے بجائے مشین کے ذریعے خود ہی انہیں کاٹ کر مُڈّیوں کی شکل دیتے ہیں اور بڑی تعداد میں انہیں مختلف تاجروں کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔

مشینی آرے نے بہت سے لوگوں کا روزگار ختم کردیا ہے اور یہ ممکن بنا دیا ہے کہ کوئی بھی مُڈّیاں خریدکرانہیں فروخت کرنےکاکام شروع کردے۔ ایسی صورت میں عیدالاضحی کے موقعے پر زیادہ گھیرے (قطر) والی لکڑیاں مشکل سے ملتی ہیں۔ جو لوگ مُڈّیاں بنا کر فروخت کرتے ہیں وہ لکڑی کے مقابلے میں ان کے کہیں زیادہ نرخ طلب کرتے ہیں، لہٰذا انہیں خرید کر فروخت کرنے والوں کے منافعے کی شرح کافی کم ہوجاتی ہے۔

آبادی میں اضافے،خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں حالت پہلے جیسے نہ رہنے اور میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں لکڑیوں کی با آسانی اور سستے داموں دست یابی روز بہ روز مشکل ہوتی جارہی ہے۔ زیادہ گھیرے اور زیادہ عمر والے تنے اوّل تو کم یاب ہیں، دوم بہت منہگے ہیں۔ آج کل جن لکڑیوں سے مُڈّیاں بنائی جارہی ہیں وہ پختہ نہیں ہوتی ہیں یا ان میں گانٹھیں ہوتی ہیں ،لہٰذا ان سے بننے والی مُڈّیوں کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ بتایا گیا کہ اچھی لکڑی وہ ہوتی ہے جس میں گانٹھیں بہت ہی کم ہوں اور ضرب لگانے پر وہ آسانی سے نہ ٹوٹے۔

عام طور سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوتی اور وہ کچّی اور گانٹھوں والی لکڑیوں سے بنی ہوئی مُڈّیاں خرید لیتے ہیں۔ ایسی مُڈّیاں بعض اوقات بغدے کی دوچار ضرب ہی سے ٹوٹ جاتی ہیں یا ان میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ آج کل مُڈّیاں وزن کے حساب سے فروخت کی جاتی ہیں یا ان کے وزن کا اندازہ کرکے ان کی قیمت بتائی جاتی ہے۔ گاہک کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مُڈّی کس لکڑی سے تیار کی گئی ہے، اس لکڑی کے فی کلو نرخ کیا ہیں اورمُڈّی کا وزن کتنا ہے۔ ایسی صورت حال میں بعض افراد گاہکوں کو جی بھر کر لوٹتے ہیں۔ مُڈّی خریدنے سے قبل چند باتوں کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ اس کی دونوں سطحیں اگر سفید ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کچّی لکڑی سے تیار کی گئی ہے۔ اگر لکڑی کے گرد چھال ہو اور اس کا رنگ سیاہی مائل یا تیز کتھئی نہ ہو تو بھی لکڑی کچّی خیال کی جاتی ہے۔

اگر مُڈّی کے درمیان میں سیاہی مائل یا تیز کتھئی رنگ کی گانٹھ ہو تو ایسی مُڈّی خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ لیکن اگر رنگ ایسا نہ ہو تو ایسی مُڈّی نہیں خریدنی چاہیےکیوں کہ وہ بغدے کی ضربوں سے ٹوٹ سکتی ہے۔ اگرمُڈّی کے کناروں پر سیاہی مائل یا تیز کتھئی رنگ کی دو تین گانٹھیں ہوں تو بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر مُڈّی اپنے حجم کی نسبت زیادہ بھاری محسوس ہو تو اُسے خریدنے سے پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ لکڑی کے کچّا ہونے یا اسے عیدالاضحی سے چند یوم قبل تک پانی میں بھگوئے رکھنےکی علامت ہوتی ہے تاکہ اس کا وزن بڑھ جائے۔ ایسی مُڈّی اگر پختہ رنگ والی ہو تو بھی نہیں خریدنی چاہیے کیوں کہ اس کے بھی جلد ٹوٹ جانے کا امکان ہوتا ہے۔

مذکورہ افراد کے مطابق مُڈّیاں خریدنے کے لیے لوگ عیدالاضحی سے عموماً تین چار روز قبل ان سے رجوع کرتے ہیں۔ زیادہ تر افراد کو لکڑیوں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا بعض افراد ہر سال مُڈّی خریدتے ہیں کیوں کہ پہلے والی دوسری عید تک ٹوٹ چکی ہوتی ہے۔ لوگ وزن دیکھتے ہیں یا اپنے مطلب کے مطابق مُڈّی کا حجم۔ مُڈّیاں فروخت کرنے والے ان سے ہر طرح کی لکڑی کے عوض ایک ہی طرح کے فی کلو گرام نرخ وصول کرتے ہیں۔