صدر ممنون حسین کے دوست نہ بدلے

July 16, 2021

سابق صدر مملکت ممنون حسین بھی راہی ملک عدم ہو گئے ۔ یہ 2003 کا ذکر ہے میں ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کی غرض سے موجود تھاممنون حسین اور پروفیسر غفور احمد مرحوم سے ٹی وی پروگرام کے دوران تعارف ہوا جو پھر ان دونوں بزرگوں سے ان کے آخری وقت تک محبت و شفقت کی صورت میں برقرار رہا ۔ یہ مشرف کی آمریت کے دن تھے اور کراچی میں ممنون حسین جمہوری جدوجہد کی ایک آواز کے طور پر متحرک تھے ۔ ان کے ساتھ اس جدوجہد میں ہمہ وقت خواجہ طارق، لیاقت آرائیں، منور رضا اور ناصر الدین محمود شانہ بشانہ رہتے ۔ جب بھی سفارت کار کراچی میں کسی سے ملاقات کی مجھ سے خواہش کا اظہار کرتے جو معاملہ فہم بھی ہو تو سب سے پہلے جس کا نام میرے منہ سے نکلتا وہ ممنون حسین ہی ہوتے ۔ گورنر کے عہدے تک پہنچنے والے شخص پر اس کی مخالف ترین حکومت بھی ایک دھیلی بدعنوانی تو دور کی بات کسی شناسا کے لئے میرٹ سے ہٹ کر سفارش تک کا الزام عائد نہیں کر سکی تھی۔ وہ بات بھی بہت کمال دلیل سے کرتے ۔ یہ دونوں وصف سفارت کاروں کے لئے بہت اثر انگیز ثابت ہوتے ۔ میرا جب کبھی کراچی جانا ہوتا تو ان سے ضرور ملاقات کرتا اور وہ جب کبھی لاہور تشریف لاتے تو ضرور شرفِ ملاقات بخشتے ۔ 2013 کے عام انتخابات سے قبل وہ مسلسل بہت دنوں تک لاہور میں ہی مقیم رہے اور کراچی چیمبر کے سابق صدر ، مشیر اور گورنر سندھ کے عہدے پر رہنے والے شخص کی سادگی ایسے سامنے آئی کہ سوچتا ہوں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں ۔ ان دنوں میں، ممنون حسین مرحوم، سینیٹر مشاہدﷲ خان مرحوم، کھیل داس کوہستانی کامران مائیکل ، بھگوان داس اور میں روزانہ عشاء کے کچھ بعد محفل جماتے اور اس محفل کو ممنون حسین مرحوم اور مشاہدﷲ خان مرحوم کی شاعری کا ذوق اور دونوں صاحبان کے برجستہ لطیفے فجر تک دلکش بنائے رکھتے ۔ ان کی سادگی کا ذکر کیا انہیں محفلوں کے درمیان کھانے کا وقت ہوتا تو اپنی پسندیدہ جگہ لکشمی چوک پر دال چاول کھانے کی فرمائش کرتے اور وہیں جا کر عام سی کرسیوں پر بیٹھ جاتے پھر وہی کشمیری چائے نوش فرماتے۔ ان کا معمول تھا کہ چائے والے کے پھٹے پر ہی بیٹھ کر چائے نوش کر لیتے ایک دن پھٹے پر ذرا مٹی لگی ہوئی تھی جب وہ پھٹے پر بیٹھنے لگے تو چائے والا بولا بائوجی رکیں مٹی لگی ہے میں ذرا صاف کردوں ۔ بولے یار مٹی میں ہی جانا ہے اس سے کیا بچنا ؟ چائے والا مجھ سے مخاطب ہوا کہ بندہ تو کوئی بڑا لگتا ہے مگر ہے بڑا بااخلاق ، میں بولا گورنرسندھ رہ چکے ۔ چائے والا بولا بائوجی مذاق نہ کرو کہاں میرا پھٹا اور کہاں گورنر؟ میں ہنس پڑا اور بولا چند دنوں بعد ملوں گا تو اور بھی کچھ تم کو بتاؤں گا ذرا پہچان لو ان کو ، وہ غور سے دیکھنے لگا ۔ میں لندن اے پی سی کے دوران یہ سن چکا تھا کہ مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت جن ایک دو افراد کو بطور صدر براجمان دیکھنا چاہتی ہے ان میں سے ایک ممنون حسین بھی ہیں اس لئے یقین تھا کہ اس بار صدر مملکت کے منصب پر وہ فائز ہونگے ۔ جب صدر منتخب ہو گئے تو ایک دن میں اس چائے والے کے پاس سے گزرا تو ٹھہر گیا مجھ کو دیکھتے ہی وہ لپکتا ہوا میرے پاس آیا اور بولا وہ ، وہ تو اب صدر بن گئے ہیں ۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی اتنا سادہ بھی ہو سکتا ہے ۔ میں بولا وہ ایوان صدر میں بھی اتنے ہی سادہ ہیں۔ اپنے صدارتی انتخاب سے ایک رات قبل اپنے کراچی کے دوستوں کے علاوہ مشاہد ﷲ خان مرحوم ، نہال ہاشمی، اسد عثمانی، طارق گل مرحوم، میاں عبیدﷲ ایڈوکیٹ اور راقم الحروف کے ساتھ فجر تک بیٹھے رہے، کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایسے سادہ رویہ والا شخص پاکستان کے سب سے بڑے آئینی منصب پر منتخب ہونے والا ہے ۔ جس دن منتخب ہوئے تو اسی روز مرحوم مشاہد ﷲ خان نے افطار ڈنر دیا ،دوران ڈنر برطانوی سفیر کا فون آگیا مجھے فون سننے کا کہا ۔ برطانوی سفیر وقت مقرر کرنا چاہ رہا تھا کہ کب برطانوی وزیر اعظم ان کو فون کرکے مبارکباد دے ۔ صدر منتخب ہونے کے بعد بھی ان کا معمول تھا کہ ہر پندرہ دن بعد اسلام آباد کے اپنے دوستوں کو ایوان صدر بلاتے ۔ مشاہد ﷲ خان مرحوم ، راجہ ظریف، طارق عزیز ،سلمان عباسی اور افتخار اعوان لازمی مہمان ہوتے ۔ بطور صدر بھی اپنا موبائل خود سنتے اور اگر کبھی نہ سن پاتے تو کال بیک ضرور کرتے ۔ ایک دعوت نامہ کے سلسلے میں ان سے کال اٹینڈ نہ ہوئی، کوئی پندرہ منٹ بعد مجھے کال بیک کی اور کہا کہ جہاز سے اتررہا تھا اس لئے آپ کی کال نہیں سن سکا۔ میں نے کہا کہ آپ کے اسٹاف کو ایک ادارے نے آپ کے لئے دعوت نامہ بھیجا ہوا ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا بولے آپ نے کہہ دیا کافی ہے اب اسٹاف خود رابطہ کرلیگا ۔راقم الحروف کو سینیٹر مشاہد ﷲ خان کی وساطت سے ایوان صدر میں عہدے کی بھی پیشکش کی ۔ ایک ملاقات میں مجھے کہنے لگے کہ آپ کو تو پارلیمان کا حصہ ہونا چاہئے تھا میں بولا آپ کا حسن نظر ہے اور آپ کی مانند ہی جمہوری جدوجہد کسی صلہ کی خاطر نہیں کی تھی اور اگر وقت پڑا تو دوبارہ سینہ سپر ہونگا فرط محبت سے مجھے گلے لگا لیا۔ لیکن میں بدقسمت ان کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔