تشدد پسند کارروائیوں کی کبھی حمایت نہیں کی،انجم چوہدری

July 24, 2021

راچڈیل(ہارون مرزا)شدت پسند جماعت اسلامک اسٹیٹ کی حمایت کی دعوت دینے کے الزام میں جیل کاٹنے والے 54سالہ عالم دین انجم چوہدری نے عوامی تقریر پر عائد پابندی ختم ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ انہوں نے کبھی تشدد پسند کارروائیوں کی حمایت کی ہے۔ خیالات کے اظہار کیلئے قانون سازی کرنے والوں سے متفق نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ میڈیا میں کسی مسلمان کے ساتھ جو پروفائل ہے اس کی برطانیہ میں کبھی بھی کسی سطح پر منصفانہ آزمائش ہو سکتی ہے۔ جیوری لازمی طور پر متعصب ہوگی۔ جج ، کراؤن پراسیکیوشن سروس ، پولیس ان میں سے کوئی بھی واقعتا انصاف پر نہیں ہوسکتا ہے میں ایک بے قصور آدمی ہوں ، مجھے یقین ہے کہ میں ایمان کا قیدی تھا، میں نے کسی مخصوص تنظیم کی حمایت نہیں کی ،اگر آپ ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں آپ کو نام نہاد آزادی اور جمہوریت حاصل ہے تو ان چیزوں کو کبھی بھی جرم نہیں بنایا جانا چاہیے، یہ امر قابل ذکر ہے کہ داعش کی حمایت میں انجم چوہدری کو 2018میں جنوبی مشرقی لندن بیلمارش ہائی سیکورٹی جیل منتقل کر دیا گیا تھا،انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے گھر کے قریب واقع ایک چھوٹے سے پارک میں پریس کانفرنس میں اپنی آپ بیتی بیان کی۔عوامی سطح پر بولنے سے منع کرنے کیساتھ ہی ان کے انٹرنیٹ اور موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی اور ان پر ایسے لوگوں سے رابطے رکھنے پر پابندی عائد تھی جن پر پیشگی منظوری کے بغیر انتہا پسندی سے متعلق جرائم کا شبہ ہوسکتا ہے، رہائی کے باوجود انہیں سخت پابندیوں کا سامنا کرناپڑےگا ،انہیں الیکٹرانک ٹیگ پہننا تھا اور رات کے وقت کرفیو کی پاسداری کرنی تھی، صرف پہلے سے منظور شدہ مساجد میں شرکت کرنا تھی اور ایک مقررہ علاقے میں ہی رہنا تھا ، ساتھ ہی دیگر معیاری تقاضوں پر بھی عمل کرنا تھا جیسے پروبیشن افسران سے باقاعدہ ملاقاتیں کرنا سرفہرست ہے۔ انجم چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کبھی تشدد پسندانہ سوچ کو ہوا دی ہو یا لوگوں کو داعش میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہو ،مجھ پر کسی بھی طرح کا الزام عائد کیا جاسکتا تھا ، مجھ پر نائن الیون اور 12 افراد کو سڑک پر لے جانے کا الزام عائد کیا جاسکتا تھا جو میڈیا کے پروپیگنڈے کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ، عدالتوں میں آنے سے پہلے ہی آپ کو میڈیا میں آزمایا جا چکا ہے اور اس وجہ سے مجھے یقین نہیں ہے کہ مجھ جیسے شخص کا کبھی بھی منصفانہ ٹرائل ہوسکتا ہے لہذا اس حقیقت کو زیادہ لوگ تسلیم نہیں کریں گے کہ مجھے حقیقت کے برعکس سزا دی گئی۔