آخر ہم کدھر جا رہے ہیں؟

July 24, 2021

انسان دو معاملات میں بالکل بےبس ہے۔ دکھ سے بھاگ نہیں سکتا، خوشی خرید نہیں سکتا۔ آپ کا سب سے اچھا دوست آپ کا ضمیر ہے جو اچھی بات پر شاباش دیتا اور بُری بات پر ملامت کرتا ہے۔ جب آپ کو اچھے عمل سے مسرت، برُے کام سے رنج ہو تو آپ اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ضمیر کی آواز سنیں تو آپ کی راہ میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ یہ ضمیر کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ جب جاگتا ہے تو قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے، مردہ ہو جائے تو تباہی و بربادی لاتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔ اسی بنیاد پر روزمرہ زندگی کے امور میں فیصلے کیجئے، آپ کا ووٹ ہو یا زندگی کے دیگر معاملات میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں۔ آپ کا ضمیر جگانے کے لئے دنیا میں کوئی ایسی دوا ایجاد نہیں ہوئی کہ جسے استعمال کرنے سے یہ فوراً جاگ جائے، یہ خود احتسابی کا ایک ایسا عمل ہے جو زندگی کے آغاز سے اختتام تک جاری و ساری رہتا ہے۔ آپ کے ہاتھ میں عدل و انصاف کا ترازو ہو یا آپ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوں، آپ معلم ہوں، دکاندار، قلم کار یا عام شہری، جب آپ ضمیر کی آواز سنیں گے تو محسوس ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور یہ حقیقت کُھل کر سامنے آجائے گی کہ آپ جو بھی فیصلہ کررہے ہیں ٹھیک ہے یا غلط؟ پھر کوئی خوف، لالچ، مفاد، خودغرضی آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوںگے۔ اگر آپ سکونِ قلب چاہتے ہیں تو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے ضمیر کے مطابق بے دریغ فیصلے کیجئے، میں کوئی حکیم یا واعظ تو نہیں لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ بےضمیر فرد ہو یا قوم کا کوئی مستقبل نہیں۔ وقتی مفادات اور مصلحت کے شکار افراد یا گروہ سب خسارے میں ہیں۔ کبھی اس بات پر بھی غور کریں کہ ہم من حیث القوم جس پستی کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ جب ہم غربت، بےروزگاری، محتاجی اور بےبسی کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی سوچئے کہ اس کا اصل قصور وار کون ہے، حکمران یا ہم؟ دور جدید میں ہر فرد اس حد تک تو باشعور ہو چکا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول اور حکمرانوں کی معاشی، سیاسی، خارجی پالیسیوں کا خود تجزیہ کر سکے اور اس حقیقت کو جان سکے کہ صحیح اور غلط کیا ہے تو پھر آپ کا ووٹ ہی وہ پہلا قدم ہے جو اس کمزور نظام کی بنیادیں مضبوط کر سکتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ووٹ کا حق اپنے ضمیر کی آواز پر استعمال کریں تو پھر آپ یہ آواز کیوں نہیں سنتے، کیوں نہیں یہ یقین رکھتے کہ ووٹ آپ کے پاس قوم کی امانت ہے اور یہ معاملہ صرف آپ اور اللہ کے درمیان ہے۔ پھر خوف کس بات کا، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ برسراقتدار لوگوں کی سوچ، پالیسیاں ملک و قوم کے مفاد میں ہیں تو دل و جان سے اس نظام کو قبول کیجئے۔ ان کے اقتدار کا تسلسل برقرار رکھئے، اگر آپ کا ضمیر مطمئن نہیں، آپ بدستور مشکلات اور ذہنی الجھاؤ کا شکار ہیں تو یہ آپ کا بنیادی حق ہے کہ اپنے ضمیر کے مطابق کسی اور کو موقع دیں۔ عام انتخابات ہوں، بلدیاتی اداروں کی بحالی کا مسئلہ ہو، ضمنی انتخابات کا موقع آئے، گلگت بلتستان، آزادکشمیر کے انتخابات ہوں، آپ کے سامنے صرف قومی مفاد ہونا چاہئے۔ کہنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ خدا نے کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی جو خود اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتی۔ آج نفسا نفسی کے اِس دور میں ہمارے دلوں پہ گویا قفل لگ چکے ہیں۔ ہمارے ضمیر سو رہے ہیں۔ خدا کے لئے غفلت کی نیند سے جاگئے اور سوچئے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا ہم زندہ قوم ہیں یا ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں؟ سرِ راہ عورتوں کی عزتیں لٹ رہی ہیں۔ معصوم بچوں سے زیادتی کے بعد قتل کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ زینب ریپ و قتل کیس کے بعد متعدد بچوں کے ساتھ درندگی کے واقعات نے دل چیر کر رکھ دیے ہیں۔ بےروزگاری، تنگ دستی نے گھریلو نظام تباہ و برباد کر دیا ہے، ہنستے بستے خاندانوں میں طلاق کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ غربت کے ہاتھوں مجبور لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ سرعام چوریاں، ڈکیتیاں اور مزاحمت پر بے گناہ شہریوں کا قتل عام سی بات ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی حالت یہ ہے کہ صرف اقتدار کی ہوس میں اندھے ہوئے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی باتیں تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں، دنیا کو متاثر کرنے کے لئے عورت کی آزادی کے پاسدار بھی بنتے ہیں، بچوں کے تحفظ کے قوانین بھی بنائے جارہے ہیں لیکن ان کی عزت و زندگی کے تحفظ کی جب عملی طور پر بات آتی ہے تو زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں۔ ان سیاست دانوں کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ کوئی اقتدار حاصل کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا چاہتا ہے تو کوئی اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے لئے دھمکیاں دے رہا ہے۔ جہاں بات بنتی نظر نہ آئے تو کوئی امریکہ سے مدد مانگ رہا ہے۔ کہیں کہیں مذہب کارڈ بھی کھیلا جارہا ہے۔ حکمران ہیں کہ اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے ہی کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ نعرے تبدیلی کے لگائے جارہے ہیں مگر ہم زبردستی تباہی کے کنوئیں میں دھکیلے جارہے ہیں۔ آخر ہم کدھر جارہے ہیں؟ یہ انفرادی اور اجتماعی سوچ کی گھڑی ہے، اگر ہم نہ بدلے تو کہیں سب کچھ ہی نہ بدل جائے۔