واپڈا کی آئینی حیثیت کا تعین کیا جائے

July 15, 2013

1956ء میں مشرقی پاکستان کے قد آور بنگالی سیاستدانوں حسین شہید سہروردی اور شیر بنگال فضل حق کو اعتماد میں لیکر پاکستان کے اس حصے کے طاقتور حلقوں کی ہدایات کی روشنی میں سب سے پہلے مغربی پاکستان میں واقع صوبے مثلاً پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان کی انفرادی صوبائی حیثیتوں کو ختم کرکے ان صوبوں پر مشتمل ایک یونٹ بنایا گیا جسے مغربی پاکستان کہا گیا اور بعد میں 1962 ء میں جو آئین بنایا گیا اس کی بنیاد بھی پیئرٹی کے اصول پر رکھی گئی‘ اس نئے نظام میں مشرقی پاکستان اپنی اکثریت ختم کرنے پر کیوں راضی ہوا کی کہانی اس وقت کم و بیش گمشدہ کہانی ہے مگر سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کرکے اسے مغربی پاکستان میں ضم کرنے کے لئے کس طرح ایک دن کے لئے سندھ اسمبلی کو کراچی سے حیدرآباد منتقل کیا گیا اور کس زور اور زبردستی سے یہ قرارداد منظور کرائی گئی جبکہ اس کے برگزیدہ اسپیکر غلام علی تالپور کو اونٹنی پر چڑھاکر کس طرح دور دراز شہر مٹھی‘ تھر کے علاقے کی سیر کو بھیجا گیا مگر اس مرحلے پر میں یہ بات ضرور ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ 1956 ء کے آئین کے تحت اور بعد میں ایوب خان کی طرف سے 1962ء میں نافذ کئے گئے آئین میں واپڈا صوبائی سبجیکٹ تھا یعنی پاکستان میں دو واپڈا تھے ”ایسٹ پاکستان واپڈا اور ویسٹ پاکستان واپڈا“ مگر جب جنرل یحییٰ خان نے مغربی پاکستان کا ایک یونٹ ختم کرکے سارے پاکستان میں ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے تو مغربی پاکستان کے سارے سابق صوبے خودبخود بحال ہوگئے‘ مجھے اس وقت ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اس کے بعد جب مرکز اور صوبوں میں بجٹ بننے لگے تو سندھ کے بجٹ میں بھی دیگر صوبوں کی طرح واپڈا کے لئے الگ رقم مختص کردی گئی مگر شاید اس وقت کے حکمرانوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اور اسلام آباد سے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے سارے صوبوں پر یہ واضح کیا گیا کہ اب واپڈا مرکز کا سبجیکٹ ہے لہٰذا اس کے لئے صوبائی بجٹوں میں رقوم مختص نہ کی جائیں‘ بعد میں جب 1973 ء کا آئین بنا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت قومی اسمبلی میں نیپ کے قوم پرست موجود تھے اور پی پی کے بھی سندھ کے ممبران کا تعلق چھوٹے صوبے سے تھا مگر جب 1973 ء کا آئین بنا تو یہ ایک عجیب آدھا تیتر آدھا بٹیر والا نظام نافذ کیا گیا۔ اس آئین کے تحت پانی صوبائی سبجیکٹ تھا‘ بجلی کنکرنٹ لسٹ پر تھی مگر پانی اور بجلی کے شعبوں کے ادارے واپڈا کو وفاقی فہرست پر رکھا گیا‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تضاد کو اس پورے عرصے کے دوران کسی نے بھی چیلنج نہیں کیا‘ اب ہمارے ہاں18 ویں ترمیم والا 73ء کا آئین موجود ہے‘ اس آئین کے تحت بھی پانی حسب معمول صوبائی معاملہ ہے چونکہ کنکرنٹ لسٹ ختم کرکے بجلی کو وفاقی فہرست پارٹ ٹو میں شامل کیا گیا ہے اور واپڈا کو بھی وفاقی فہرست دو میں شامل کیا گیا ہے‘ واپڈا کو مع پی آئی ڈی سی چوتھے شیڈول کے پارٹ ٹو کے کلاس تین میں وضاحت سے پیش کیا گیا ہے‘ اسی طرح بجلی کو چوتھے شیڈول کے پارٹ ٹو کے کلاس 4 میں رکھا گیا ہے‘ مجھے اس شق 3 کے حوالے سے ایک اہم بات کہنی ہے مگر اس سے پہلے چاہتا ہوں کہ آئین میں کونسل آف کامن انٹریسٹس (سی سی آئی) کے حوالے سے جو شقیں ہیں ان پر اس وقت کس حد تک عمل ہوا‘ میں سب سے پہلے آئین کے آرٹیکل 154 کے کلاس 2 کا ذکر کرنا چاہوں گا اس کلاس میں کہا گیا ہے کہ "The council shall be constituted with in thirty days of the prime minister taking oath" (ترجمہ: وزیراعظم کی طرف سے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد تیس دنوں کے اندر سی سی آئی کو تشکیل دیا جائے گا) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مدت گزرے ابھی ایک دو دن ہوئے ہیں‘ یہ بھی ہو سکتا ہے جب ہفتہ کو یہ کالم لکھا جارہا ہے سی سی آئی کی تشکیل کا اعلان ہوجائے‘ ایسی باتوں کا مجموعی طور پر ذمہ دار وزیر اعظم ہوتا ہے مگر کیا یہ ذمہ داری وزیر خزانہ اور وزیر قانون کی نہیں تھی کہ ابتدا ہی میں ایسی کسیlapse سے پرہیز کیا جاتا مگر سی سی آئی کے حوالے سے میں اس کالم میں انتہائی سنجیدگی سے آرٹیکل 156 (i) کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس ایک آرٹیکل پر اس بات کا انحصار ہے کہ اب جبکہ میاں نواز شریف ایک ایسے وزیر اعظم کی حیثیت میں آئے ہیں کہ ان سے نہ صرف جمہوریت پسندوں بلکہ وفاق پرست عناصر جن کا خاص طور پر سندھ سے تعلق ہے، چاہیں گے کہ اب یہ شائبہ نہ ہو کہ اب بھی ملک کو وفاقی طرز پر نہیں مگر وحدانی طرز پر چلایا جائے گا۔ واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 154 کے کلاز (i) میں کہا گیا ہے کہ ("The council shall formulate and regulate policies in relation to metters in part II of the federal legislative list and shall exercize supervision and control over related institutions)‘ اس شق کی ایک ایک بات انتہائی اہم ہے۔ مثال کے طور پر اس آرٹیکل کے تحت (ای) سی سی آئی وفاقی فہرست کے پارٹ دو میں ذکر کئے گئے معاملات کے بارے میں پالیسیاں بنائیں گی بھی اور ان کے عملدرآمد کو ریگولیٹ بھی کرے گی‘ اس کے علاوہ اس آرٹیکل کے اس سیکشن میں بات اور وضاحت سے کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ”سی سی آئی کو متعلقہ اداروں کی سپرویژن اور کنٹرول کا بھی اختیار ہے“۔ کچھ قانون دانوں کی رائے ہے کہ وفاقی فہرست کے پارٹ ٹو میں ذکر کئے گئے سبجیکٹس وفاقی کابینہ کے بجائے سی سی آئی کے کنٹرول میں ہیں۔ ان قانون دانوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ آرٹیکل 154 کے سیکشن (3) میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ ”کونسل کا ایک مستقل سیکریٹریٹ ہوگا“۔ ان شقوں کو بنیاد بناکر ملک کے کچھ قانون دان اس رائے کے ہیں کہ وفاقی فہرست دو کے سبجیکٹس وفاقی کابینہ کے بجائے سی سی آئی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں‘ اگر اس موقف کو تسلیم کیا جائے تو پھر وفاقی فہرست پارٹ ون اور ٹو کے لئے الگ الگ نظام قائم کرنے پڑیں گے‘ ہوسکتا ہے کہ حکومت کے قانون دان اس رائے سے اتفاق نہ کریں‘ پتہ نہیں اپوزیشن کے ممتاز قانون دانوں مثلاً بیرسٹر اعتراز احسن اور فاروق نائیک کی کیا رائے ہو مگر بہرحال سندھ کے نہ صرف قانون دان بلکہ قوم پرست حلقے اس رائے کے ہیں کہ اس ملک میں آئین کی اگر کوئی اہمیت ہے تو پھر اس سلسلے میں دو نظام ہی چلانے پڑیں گے۔ اب ہم جب ایک بار پھر چوتھے شیڈول کی طرف آتے ہیں تو ان قانون دانوں کی یہ آراء شیڈول چار کے پارٹ ٹو کے ان اہم اداروں سے بھی لاگو ہوسکتی ہے‘ مثال کے طور پر ریلویز‘ انڈسٹریز‘ بجلی‘ بڑے سمندری پورٹ‘ وفاقی حکومت کے تحت چلنے والی ساری ریگولیٹری اتھارٹیز‘ نیشنل پلاننگ اینڈ اکنامک کوآرڈی نیشن‘ آدم شماری اور ہائر ایجوکیشن‘ مجھے دراصل ان میں سے ایک‘ ایک ادارے اور ایشو پر سندھ کے ماہرین کی معروضات پیش کرنی ہے مگر فی الحال ہم صرف واپڈا کے ذکر تک ہی اکتفا کرتے ہیں‘ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ جب 1990ء میں اسلام آباد کی بیوروکریسی کے اپنے تعلقات کے ذریعے جب عالمی بینک کی طرف سے حکم صادر کرایا گیا کہ واپڈا کو توڑ دیا جائے اور واٹر اور پاور سیکٹرز کے الگ الگ ادارے بنائے جائیں اس مرحلے پر واپڈا صوبوں کے حوالے کر دینا چاہئے تھا مگر یہ نہیں کیا گیا اور واپڈا جو اب صرف پانی کو ڈیل کررہا ہے کو ابھی تک برقرار رکھا گیا ہے‘ دوسری طرف پاور سیکٹر کے لئے پیپکو کے نام سے ایک الگ ادارہ بنایا گیا‘ یہ بات بھی کم عجیب نہیں کہ جب سے واپڈا بنا سندھ سے اس کا چیئرمین صرف ایک بار اے جی این قاضی رہے‘ باقی واپڈا کے اپر اسٹرکچر میں سندھ سے کسی کو آگے آنے نہیں دیا گیا‘ اب کی بار جب سندھ کے صحافیوں نے شور مچایا تو ہندوستان سے پانی کی تعمیر کے بارے میں بات چیت سے فارغ ہونے والے راغب علی شاہ کو واپڈا کا چیئرمین مقرر کیا گیا حالانکہ یہ تقرری بھی میرٹ پر نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مجھے ایک الگ کالم لکھنا ہے‘ میں یہاں اس بات کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سندھ کے لوگ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ سے ان کے بہت مشکور ہیں جن کے ذریعے او پی ایس میں تقرریوں اور پروموشن میں کی گئی دھاندلیوں پر پابندی لگائی ہے مگر سپریم کورٹ کو عرض ہے کہ ان کے اس آرڈر کو جس طرح سندھ حکومت کی طرف سے اوپر سے نچلی سطح پر سبوتاژ کیا جارہا ہے اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے التماس ہے کہ مزید انکوائری کرائے‘ اسکے علاوہ سپریم کورٹ سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ صرف سندھ نہیں بلکہ مرکز پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی جس طرح میرٹ کا بیڑہ غرق کیا گیا ہے اس کو بھی ایکسپوز کریں‘ اس سلسلے میں ہم صحافی ان کے ڈسپوزل پر ہیں‘ ہم خود اس سلسلے میں تفصیلی سروے کررہے ہیں جو جلد شائع کریں گے۔