افغانستان میں امریکی شکست اور ملکی منظرنامہ!

August 22, 2021

جنوبی ایشیا کا منظرنامہ ایک بار پھر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں چین، روس اور پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔افغانستان میں طالبان کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا خوش آئند امر ہے۔ افغانی عوام نے برطانیہ اورسوویت یونین کے بعد امریکہ جیسی تیسری سپرپاور کو بھی ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب اپنی اگلی نسل افغانستان میں نہیں جھونک سکتا۔ ان کے پالیسی بیان میں یہ بھی تسلیم کیاگیا ہےکہ افغانستان میں فوجی حل کے ذریعے مستقبل میں مضبوطی اور استحکام نہیں آسکتااس لئے ہم نے اس طویل جنگ سے چھٹکارہ حاصل کر لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغان جنگ کا فوجی حل نہیں تھا تو پھر امریکہ افغانستان پر بیس سال کیوں مسلط رہا؟ اور اسے اب دو دہائیوں کے بعد افغانستان کو تباہ کرنے کے بعد یہ خیال کیوں آیا؟ امریکہ نے کس قانون کے تحت بیس سال افغانستان پر قبضہ کئے رکھا؟ امریکہ کو ان سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔اسے افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے خطیر جانی و مالی نقصان کا بھی حساب دینا چاہئے۔ 20سال بعد نام نہاد امریکی جنگ کا خاتمہ اوربعد کی صورتحال امریکہ کو خوش کرنے والوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ طالبان کا بغیر لڑے افغانستان فتح کرنا قابل تحسین ہے۔ لگتا ہے کہ طا لبا ن نے اب بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال میں طالبان بھی نئے انداز میں نظر آرہے ہیں۔ طالبان نے کابل سمیت پورے افغانستان میں عام معافی کا اعلان کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔اس سے امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ پروپیگنڈا دم توڑ گیا ہے کہ طالبان امن کے دشمن ہیں۔ اب افغانستان میں طالبان اور دوسرے اسٹیک ہولڈزر مل کر نمائندہ افغان حکومت تشکیل دیں گے تاکہ وہاں مستقل امن کا قیام ممکن ہو سکے۔ امریکہ اب افغانستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک میں قدم نہیں جماسکتا۔اس کے لئےویت نام کے بعد افغانستان کا سبق کافی ہے۔افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران لاکھوں افغانی شہری جبکہ 75ہزار پاکستانی شہید ہوئے اس دوران 3ہزار 846 امریکی فوجی و کنٹریکٹر جبکہ نیٹو ممالک کے ایک ہزار44سے زائد فوجی ہلاک ہوئے۔ 444 امدادی کارکن اور 72صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ تاریخ کی مہنگی ترین جنگ نہتے افغانی عوام نے اپنے ایمانی جذبے سے جیت لی ہے۔ طالبان کی کامیابی پورے عالمِ اسلام کی کامیابی ہے۔ اسلامی دنیا میں اس عظیم کامیابی سے خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس سے کشمیر اور فلسطین میں آزادی کی تحریکوں کو تقویت ملے گی۔ خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ افغانستان میں فلاحی کاموں کی آڑ میں بھارت نےجو ڈرامہ رچا رکھا تھا اس کا بھی بالآخر خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہندوستان کو بھی ہز یمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے اربوں ڈالر ڈوب چکے ہیں۔پاکستان نے بھی افغانستان کے حوالے سے اچھاکردار ادا کیا ہے۔ دوحہ، قطر مزاکرات میں پاکستان پیش پیش رہابلکہ افغانستان میںامن کےلئے پاکستان کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ اب بھی برادر ہمسایہ اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان افغانستان سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔چین اور روس نے بھی افغانستان اورطالبان کےلئے اچھے جذبات کا اظہارکیا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے بہترین مفاد میں طالبان حکومت کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے کیونکہ یہ سی پیک کی کامیابی اور وسط ایشیا کی ریاستوں اور یورپ کو سی پیک کے ساتھ جوڑنے کےلئے اشد ضروری ہے۔

آج کے کالم میں دیامر بھاشا ڈیم کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔کرپشن کا خاتمہ کئے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتاجبکہ ملک میں کرپٹ عناصر کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں، ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر بر سر اقتدار آنے والوں کے دور حکومت میںبڑے بڑے اسکینڈلز منظر عام پر آرہے ہیں۔ دیا میر بھاشا ڈیم منصوبے کے ٹھیکے میں اربوں روپے کی کرپشن کا حالیہ انکشاف بھی لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کرپشن اور مہنگائی کو روکنے میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔پنجاب کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کا پارلیمانی نظام بھی تین برسوں سے عد م توجہی کا شکار ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی باہمی چپقلش کے باعث قائمہ کمیٹیوں کو بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ 40قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے باوجود صرف 21کمیٹیز کے چیئرمین منتخب ہو سکے ہیں۔ حالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ پنجاب میں امن و امان کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سال کی پہلی ششماہی میں لاہور میں 1609اور پورے صوبے میں 6954خواتین کواغواکیا گیا،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں نے بھی عوام کو مایوس کیا۔ موجودہ حکومت بھی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ تینوں جماعتوں نے قوم کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ جب تک فرسودہ نظام سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ لاہور سمیت پورا پنجاب لاقانونیت کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ دن دیہاڑے چوری، ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ تحریک انصاف حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)