ملالہ اور قومی سلامتی

July 20, 2013

اگر پاکستان کو قائم رہنا ہے اور خدا اس ملک کو اپنی امان میں رکھے تو کوئی طاقت ملالہ یوسف زئی کو سرخرو ہونے سے نہیں روک سکتی۔ میں جانتا ہوں کہ میری یہ دلیل پاکستان کے موجودہ تناظر میں انتہائی متنازع سمجھی جائے گی۔ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو غیظ وغضب کے عالم میں اسے رد کریں گے لیکن میری خواہش یہ ہے کہ ہم میں اتنی برداشت تو ہو کہ ہم ایک ایسے موضوع پر بات کرنے کی کوشش کر سکیں جس کا تعلق واقعی پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے ہے۔ گزشتہ ہفتے اپنی سولہویں سالگرہ کے موقع پر ملالہ نے اقوام متحدہ کے خصوصی اجلاس میں جو تقریر کی اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی۔ ملالہ تو پاکستان کی بیٹی ہے لیکن اس کے اپنے گھر میں ایک عجیب تذبذب کا عالم رہا۔ میں نے اس خاموشی کی گونج بھی محسوس کی جس کا اظہار مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں نے کیا۔ اس ہفتے کے دوران کئی تبصرے ہوئے۔ سوشل میڈیا میں زیادہ ہلچل مچی۔ مجھ جیسے چند لبرل تبصرہ نگاروں نے خاص طور پر انگریزی اخبارات میں ملالہ کو اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن کہا۔ تعلیم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کو اجاگر کیا اور خود کو ایک اقلیت محسوس کرنے کا دکھ منایا۔ قدامت پرست طبقے نے ملالہ کو امریکہ یا مغرب کا ایک ایجنٹ جان کر اس کی ملامت کی۔ گویا پاکستان کا معاشرہ ابھی اس قابل نہیں کہ وہ ملالہ کے پیغام کو اپنا سکے، بہرحال یہاں میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ میں ملالہ کے بارے میں کئے جانے والے تبصروں کا احاطہ کروں۔ میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی اور قدامت پرستی کی جس سوچ نے بظاہر ہم پر غلبہ حاصل کر لیا ہے کیا اس کامقابلہ تعلیم، بچیوں کی تعلیم اور نئے خیالات کی بنیاد پر کی جانے والی سماجی تبدیلی کے بغیر کیا جا سکتا ہے؟ جن تضادات کا ہمیں سامنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ یوں تو ہم دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی بات کرتے ہیں لیکن جس انداز فکر نے جن ذہنی رویوں نے اور جن ریاستی اقدامات نے اس دہشت گردی کو جنم دیا ہے ان کی ہم حمایت کرتے ہیں اور اکثر کافی جوش وجذبے کے ساتھ دہشت گردی کی لہر سونامی بنتی جا رہی ہے۔ طالبان نے ہمیں لہولہان کر دیا ہے۔ پھر بھی ان کے لئے ایک نرم گوشہ بڑی سیاسی جماعتوں میں موجود ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا ذہنی خلفشار تو دیدنی ہے۔ جن باتوں کو بالکل واضح ہونا چاہئے وہ جیسے ہمیں دکھائی بھی نہیں دیتیں۔ مثلاً جمعرات کے اخبارات میں، میں نے شہباز شریف کا یہ بیان پڑھا کہ پاکستان کی بقاء کا دارومدار دہشت گردی کے خاتمے پر ہے۔ بالکل ٹھیک۔ اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے؟پاکستان کے عوام ایک نفسیاتی اور ثقافتی الجھن کا شکار ہیں۔ اس کرب کے عالم میں شاید کھوئے ہوئے ماضی کا سحر ان کا ایک جذباتی سہارا بن جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے اپنے مذہبی تشخص پر تو بڑا ناز ہے لیکن اپنے ملک اور معاشرے کی معروضی صورتحال کا مشاہدہ کرنے کی سکت ہم میں نہیں ہے آپ کچھ نہ کریں صرف اپنے ذاتی تجربات اور زندگی کے معاملات سے اپنے تعلق کا جائزہ لیں۔ رمضان کی برکتوں سے قطع نظر، کیا ہم اجتماعی طور پر نیک اور ایماندار ہیں؟ کیا ہر طرف بے ایمانی اور لوٹ مار اور دھوکے بازی کا دور دورہ نہیں ہے؟ آپ سڑک پر چلتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ دیکھتے تو ہیں لیکن سوچتے نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ چند بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ تبدیلیاں عالمی سطح پر رونما ہونے والے تاریخی اور تہذیبی ارتقاء سے ہم آہنگ ہوں تب ہی ہم اس عہد میں اپنا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی تو دور کی بات ہے ہم تو غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اور سب انسانوں کے برابر ہونے کا فلسفہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ قدیم رسومات اور قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ہم مغرب پرست کہہ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مغرب کی پیروی کی جائے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ عہد حاضر میں علم، فن، تحقیق، تخلیق، مشاہدے اور تجربات کی بنیاد پر ایک پرامن اور ترقی پذیر معاشرہ قائم کیا جائے۔ اس معنی خیز سماجی تبدیلی کے لئے ملالہ کا پیغام اور اس کی جدوجہد ایک ایسا اشارہ ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ ملالہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مغرب نے اپنے مقاصد کے لئے ایک پاکستانی لڑکی کو ڈھونڈ لیا ہے اور اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مغرب کے کیا مقاصد ہیں اور وہ کتنے بدبودار ہیں، یہ ایک الگ بات ہے لیکن تمام بچوں کے لئے لازمی تعلیم اور دہشت گردی سے نجات کا کوئی نعرہ لگائے تو ہم اسے اس لئے رد کر دیں گے کہ یہ آواز تو کہیں اور سے آئی ہے؟ یہ بھی سوچئے کہ اقوام متحدہ نے ملالہ کو پوری دنیا کے بچوں کے لئے تعلیم کا ایک سمبل بنایا ہے۔ ہمیں تو اس پر فخر کرنا چاہئے۔ آخر ہم بھی تو دن رات تعلیم تعلیم کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں کا اب بھی کیا حال ہے، اس کا ذکر ہمارے اوسان خطا کر سکتا ہے۔ پتہ نہیں کیا یہ بھی مغرب کی سازش ہے یا ہم اپنے خلاف سازش کرنے میں مغرب سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہر میدان میں شکست کھانے کے بعد لگتا ہے کہ اس میدان میں ہم کافی کامیاب ہیں۔ طالبان نے گزشتہ برسوں میں لڑکیوں کے سیکڑوں اسکولوں پر حملہ کیا اور ہم نے اسے کوئی سازش نہیں سمجھا۔ اقلیتوں کے ساتھ ہمارے معاشرے میں جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کی سازش کون، کہاں تیار کرتا ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کتنا بڑا عذاب بنتی جا رہی ہے اس کا ادراک اب بھی پوری طرح نمایاں نہیں۔ تشدد اور عدم تشدد کے ٹکراؤ سے جو نکات پیدا ہوتے ہیں ان پر گفتگو ہمارے لئے مشکل ہے۔ ملالہ نے اپنی تقریر میں یہ منظر کشی کی تھی کہ اگر وہ طالب بھی اس کے سامنے ہو جس نے اسے گولی ماری تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک آتشیں ہتھیار ہو تب بھی وہ اسے گولی نہیں مارے گی۔ اب یہ دیکھئے کہ اگر ایک مرد کے پاس ہتھیار ہو اور دوسرا نہتا ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ جس کے پاس ہتھیار ہے وہ کون ہے اور جو نہتا فرد اس کے سامنے کھڑا ہے تو وہ کتنا ہی عظیم، نیک اور معاشرے کے لئے بے بہا کیوں نہ ہو بس ایک لبلبی دبانے کی بات ہے۔ انسانی تہذیب کی بنیاد ہی ایسے واقعات کا سدباب کرنا ہے۔ کوئی بھی فرد، یا گروہ یا تنظیم اپنے طور پر یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ فلاں شخص اور ملالہ تو ایک لڑکی ہے۔ واجب قتل ہے اگر ایسا ہو اور لوگ ڈٹ کر اس کی مذمت بھی نہ کرسکیں تو پھر ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ میں نے شہباز شریف کے بیان کا ذکر کیا۔ اس ہفتے بی بی سی نے ایک ایسی رپورٹ کا حوالہ دیا جو سرکاری طور پر دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کا ایک ڈرافٹ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جہادی پاکستان کو قبل از تاریخ کی تاریکی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اب اگر یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ ملالہ کے سمبل کی ہمیں بھی ضرورت ہے۔اس قسم کے سمبل کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رہی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی عام شہری حالات وواقعات کے کسی اہم موڑ پر ایک پرچم، ایک علامت بن جاتا ہے۔ انقلابات بھی برسوں ذہنوں کے حیران کارزار میں نئے خیالات اور امکانات کی کشمکش کے بعد، کسی ایک واقعہ سے نمودار ہوتے ہیں۔
گزشتہ اتوار انقلاب فرانس کی سالگرہ تھی اس دن 1789ء میں عوام کے ہجوم نے باستیل کے قید خانے پر دھاوا بول دیا اور یہی انقلاب کا نکتہ آغاز تھا۔ ملالہ کی نسبت سے ایک مثال بہت اہم ہے۔ یہ 1955 کی بات ہے جب امریکہ کے ایک شہر منٹگمری میں ایک سیاہ فام خاتون نے پبلک بس میں اس نشست پر سے اٹھنے سے انکار کر دیا جو سفید فام مسافروں کے لئے مخصوص تھی۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا مقامی عدالت نے سزا سنائی لیکن مقدمہ سپریم کورٹ تک گیا اور پورے ملک میں نسلی علیحدگی کے قانون کے خلاف ایک شور مچ گیا۔ اس طرح روزا یارک نے تاریخ میں اپنا نام لکھوایا اس پر کتابیں لکھی گئیں۔ فلمیں بنیں ایک عام سلائی کرنے والی مزدور سیاہ فام عورت آنے والی نسلوں کی ہیروئن بنی۔ میری سات سالہ نواسی جو کیلیفورنیا کے ایک اسکول میں پڑھتی ہے وہ روزا یارک کو جانتی ہے۔
میں نے جو یہ کہا کہ ملالہ ایک دن سرخرو ہو گی تو اس لئے کہ ہم کسی ایسے مستقبل کا تصور نہیں کر سکتے جب تمام بچیاں اسکول نہ جائیں اور خواتین اپنی صلاحیت اور حوصلے کے مطابق ایک باعزت زندگی نہ گزار سکیں۔ تاریخ کا اپنا ایک جبر ہوتا ہے۔ قدامت پرست، وہ اس وقت کتنے ہی مسلح اور مشتعل کیوں نہ ہوں تبدیلی کا راستہ نہیں روک سکتے۔ پاکستان ایک جدید ملک اور معاشرے کی شکل میں ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ زندگی کی مسرتوں کے لئے ترستی ہوئی خواتین اور محکوم طبقے کتنی ہی بار اپنی بازی کیوں نہ مارتے رہیں ایک دن آئے گا جب وہ مسند پر بٹھائے جائیں گے۔ چلتے چلتے ایک اور مثال۔ ایک نسل کا فاصلہ بھی ابھی طے نہیں ہوا کہ جنوبی افریقہ میں ایک چھوٹی سفید فام اقلیت ایک بڑی سیاہ فام اکثریت پر حکمراں تھی۔ تب بھی تاریخ کے ارتقاء کو سمجھنے والے جانتے تھے کہ یہ نظام ضرور بدلے گا۔ نیلسن منڈیلا کی قیادت نے اس تبدیلی کو تاریخ کا ایک عجوبہ بنا دیا۔ جمعرات کو ان کی 95 ویں سالگرہ منائی گئی۔ وہ ان دنوں اسپتال میں زیرعلاج ہیں تو کیا میں منڈیلا کی قسم کھاؤں کہ ملالہ سرخرو ہوگی؟