بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ

August 29, 2021

عصمت دری ایک مجرمانہ فعل ہے۔ پاکستانی قوانین کے تحت پاکستان میں عصمت دری کی سزا یا تو سزائے موت یا دس سے پچیس سال کے درمیان قید ہے۔ اجتماعی زیادتی سے متعلق مقدمات میں، سزا یا تو سزائے موت یا عمر قید ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر سائنسی ثبوتوں کا استعمال پاکستان میں عصمت دری کے واقعات میں قانونی چارہ جوئی میں کیا جاتا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان میں روزانہ کم از کم 11 زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ گزشتہ چھ سالوں میں،000، 22 سے زیادہ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ تاہم، صرف 77 ملزمان کو ہی مجرم ٹھہرایا گیا ہے جو کل تعداد میں %0.3 پر مشتمل ہیں۔2019 میں، حکومت پاکستان نے ملک بھر میں ایک ہزار سے زیادہ خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ یہ خصوصی عدالتیں صرف پاکستان میں خواتین پر تشدد سے متعلق امور کو حل کرنے پر توجہ دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے ذریعہ خصوصی عدالتوں کے قیام کو سراہا گیا۔

مختاراں بی بی کے ساتھ زیادتی کے بعد پاکستان بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔ گروپ کے خلاف وار ریپ (ڈبلیو آر) نے پاکستان میں عصمت دری کی شدت اور پولیس میں اس سے عدم توجہی کا ثبوت دیا ہے۔ ویمن اسٹڈیز کی پروفیسر شہلا ہیری کے مطابق، پاکستان میں زیادتی اکثر اوقات بنایا جاتا ہے اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے اور بعض اوقات ریاست کی خاموشی بھی ملتی ہے۔

مرحوم وکیل عاصمہ جہانگیر کے مطابق، جو خواتین کے حقوق گروپ وومن ایکشن فورم کی شریک بانی تھیں، پاکستان میں زیر حراست خواتین میں سے بیس فیصد تک کاجسمانی یا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ میڈیا کے مطابق، زیادتی کرنے والوں میں 82 فیصد سے زیادہ کنبہ کے افراد ہیں، جن میں باپ، بھائی، دادا اور متاثرہ افراد دیگر اہلِ خانہ شامل ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ ٹنڈوآدم کی رہائشی51سالہ رخسار ولد لیاقت راجپوت کے ساتھ پیش آیا، جب اپنی ہی سگی بہن کا خون سفید ہوگیا۔ گھر سے بھاگ کر اپنے ماموں اور بھائی کے پاس آگئی اور میڈیا کے سامنے پیش ہوکر اپنے ساتھ ہونے وا لے و اقعے کی رو داد سناتے ہوئے بتایا کہ میں اپنے بھائی شوکت کے ساتھ رہتی ہوں چار روز قبل اپنی بہن صفیہ کے گھر نیو سٹی میں رہنے کے لیے آئی، تو بہنوئی شاہد مغل نے میرے ساتھ زبردستی کی اور زیادتی کا نشانہ بنایا،جب کہ بہن و بہنوئی نے مل کربلیک میل کیا۔سوشل میڈیا کے ایک نمائندے نے اپنے دوستوں کے ہمراہ ذیادتی کا نشانہ بنایا اور دیگر کے سامنے بھی پیش کیا جاتا رہا۔

جب کہ دوسرے واقع ٹنڈوآدم شہر کی 21 سالہ لڑکی سویرا کے ساتھ پیش آیا، جسے تین ماہ قبل کاشف بھٹی ولد مبارک نے شادی کا جھانسہ دیکر گھر سے بھگا لے گیا اور فحاشی کے اڈے پر یرغمال بنا کر مسلسل زیادتی کرتا رہا اور دیگر افراد بھی آتے اور زیادتی کرتے رہے ۔ ایک دن موقع پاکر متاثرہ لڑکی فرار ہونے میں کام یاب ہوگئی اور گھر پہنچنے پر والدین اسے تشویش ناک حالت میں تعلقہ اسپتال لے کر پہنچے۔

پولیس میں رپورٹ درج کروانے جب سٹی تھانے پہنچے، تو حدود کا جواز بناکر بی سیکشن تھانے روانہ کیا گیا، جہاں پر پولیس نے دس سے بارہ گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھا۔ اطلاع ملنے سابق ناظم محمد فاروق غوری اور معروف وکیل اور بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صحافیوں کے ہمراہ بی سیکشن تھانے پہنچے، بے ہوش لڑکی اور اس کے والدین کو تعلقہ اسپتال پہنچایا اورطویل انتطار کے بعد والد اشرف کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ۔ پولیس نے ملزم کاشف بھٹی، امجد شیخ اور اڈے کی مالک شائستہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

متاثرہ لڑکی کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ میری بچی کو اغوا کرکے ایک رات شہر کے وسط میں واقع معروف رہائشی سوسائٹی کے ایک گھر میں رکھا گیا اور زیادتی کی گئی، جس کے بعد چانیہ پاڑہ میں واقع فحاشی کے اڈے پر رکھا گیا، جہاں پر تین ماہ تک مسلسل زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا، تاہم اس وقت لڑکی کی حالت بہت خراب ہے، جب کہ پولیس کی جانب سے بھی ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ بھوک اور پیاس میں ہمیں دس سے بارہ گھنٹے رکھا گیا۔ اس واقعے پر اے ایس پی ٹنڈوآدم ایاز حسین جتوئی سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ مقدمہ درج کرکے ایک خاتون شائستہ اور اس کے بھائی امجد شیخ سمیت مرکزی ملزم کاشف بھٹی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے ملزمان کو عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ کے بعد سیشن جج سانگھڑ کے حکم پرامجد شیخ اور کاشف بھٹی کوڈسٹرکٹ جیل سانگھڑ اور خاتون شائستہ کو سینٹرل جیل حیدرآباد بھیج دیا گیا۔

تیسرا واقعہ ٹنڈوآدم کے میواتی پاڑہ نزد فرقان مسجدکے قریب ایک مکان میں پیش آیا، جہاں شام تقریبا 5 بجے کے قریب امان اللہ مری نامی شخص نے 6سالہ معصوم بچی عاصمہ دختر معین الدین پٹھان کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی، جس کی اطلاع سٹی تھانے کو دی گئی، جس پر پولیس کی جانب سے روایتی ٹال مٹول کا مظاہرہ کیا گیا ۔

علاقہ مکینوں کی جانب سے ایس ایس پی سانگھڑ ڈاکٹر فرخ احمد لنجار سے رابطہ کیا گیا، جس کے بعد مقدمہ اندراج کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری کے بعد ملزم امان اللہ مری نے اپنے جرم کا اعترف کرلیا۔ اس موقع پر اے ایس پی ایاز حسین جتوئی سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ بچی کی میڈیکل رپورٹ کروائی ہیں اور کیس میری کمانڈ میں ہے اور میں خود اس کیس کو باریکی سے دیکھ رہا ہوں۔