سیا ست ، غنڈہ گردی اور کالم

July 24, 2013

کیا تحریک انصاف واقعتا نون لیگ کی چھاتی پر مونگ دَل رہی ہے؟ کیا تحریک انصاف کا وجودنون لیگ کے لیے عذابِ جان ہے؟ کیا تحریک انصاف سیاسی قبائل کے متوالوں کے لیے آزمائش ہے؟ آخر چند مخصوص لوگوں کی جانوں کو لالے کیوں پڑ گئے ہیں؟عمران خان کا سیدھا پاؤں کس کس کے آڑے تر چھے، ٹیڑھے پاؤں پر بیٹھ گیا۔ ایسے اصحاب اپنے اپنے جرائم دامن میں چھپائے عمران خان کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑچکے ہیں؟عمران خان کا ”قاتل ، ڈاکو، چور ، بھتہ خور،منافق “ کو اُن کے کرتوتوں کی عکاسی کرتے ہوئے ناموں سے منسوب کرنا کیا اخلاقی گراوٹ یا سماجی اقدار کی پامالی کے زُمرے میں آتا ہے؟ یہ ایک اکیڈمک گفتگو ہے کہ پبلک پیسہ اور قومی اداروں کے اوپر اپنے مامے، چاچے، تائے کی فاتحہ خوانی پڑھنے والوں کو کیا نام دیا جائے؟ اُردو لغت نہ تو ایسے الفاظ کو گالی سمجھتی ہے اور نہ کوئی متبادل پیش کرتی ہے۔میرے ایک محترم بھائی نے تو حد ہی کر دی بلکہ ساری حدیں ایک ہی جست میں پھلانگ لیں۔ ایسے لگتا ہے لاوہ پھٹنے کو تھا ۔ کوئی غبار تھا جو کالمِ غبار سے اُٹھا ۔ اُن کے قریبی ساتھی بھی یہ سمجھنے سے قاصر کہ تحریک انصاف کا اس میں قصور کیا؟وہ اس میں کہاں ملوث؟ وہ کئی دہایئوں سے لکھ رہے ہیں۔ کالم نویس اور قاری کا ایک خاص رشتہ ہو تا ہے ۔ تعریف و توصیف کے ڈونگر ے بھی اور نا پسندیدگی بھی۔ خیالات سے اتفاق بھی اور اختلاف کی گنجائش بھی۔ لیکن یقینا بہتان اور گالی طبیعت کے لیے مکد ر۔اگر ردِعمل غنڈہ گردی میں ہو تو اُسکی مذمت بھی ہونی چاہئے اور قانون کے ذریعے مرمت بھی۔ لیکن حضور مکافات ِ عمل کا کیا کیا جائے جب آپ تحریک انصاف کی غنڈہ گردی پر کالم لکھ چکے اور ایک کانفرنس میں حکومت کی تعریفیں کرچکے جبکہ دوسری طرف انہیں بیکری ملازمین کی پٹائی والا واقعہ نظر تک نہیں آیا۔ اے میرے پروردگارکیا ہمیں ہماری زندگیوں میں اپنی آنکھوں کے شہتیر دیکھنے کی بصیرت بھی کبھی نصیب ہو گی؟
ہماری معاشرتی اقدار جس تنزل اور انحطاط کا شکار ہیں ہمارے رویئے ، کالم ، sms فقط اس کا عکاس اور شاخسانہ ہیں۔حضور ایسے لوگوں سے تو ایسی ہی توقع تھی۔ لیکن برادرم آپ سے اپنے منصب اور مقام کے برخلاف انتہائی زباں کی توقع نہیں تھی۔ کیا پریشانی ، غم ، غصہ میںآ پ جیسے نابغے کو اپنی اقدار بالائے طاق رکھ دینا چاہیے تھا ؟ ہرگز نہیں۔کیا آپ سے توہین اور بے عزتی کرنے والا گروہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گیا؟ یقینا ۔ وگرنہ ہمیں وہ صاحب جن کے قلم کی دھاک اور دھوم سے زمانہ متاثر ہے ایسی بے معنی، بے مقصد تحر یر نہ ملتی ۔ حضور ایسے ہی لوگوں نے تو ملک کے ہر معروف و غیرمعروف شخص کو تسلسل سے تختہ ہائے دشنام بنا دیا ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کے بہانے کسی ایک سیاسی جماعت پر ایسے بھونڈے الزامات۔ اخلاق اور دیانت کے کسی تقاضے پر فٹ ہیں؟ کیا ہمیں ایسے لوگوں کی سطح پر اُترنا پڑے گا؟ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کو لکھنے کی لامحدود صلاحیتوں سے نوازا ہے اُس سے آپ نے سخت نا انصافی فرمائی۔ وگرنہ پرویز الٰہی دور میں سینگھوں کو پھنسائے بغیرسینگھوں سے کام لیتے رہے ہیں کہ آپ کے پہلو میں بیٹھے کوکانو ں کان خبرنہ ہوئی بلکہ جدہ تک لوگ سر دھنتے رہے۔مجھے یقین ہے اگر آپ کامطمع نظر عمران خان کو زدوکوب کرنا اور شرفا سے دادو تحسین وصول کرنا تھا تو اس کا اختتام بالخیر اگلے دن حکومت کی تعریف و توصیف سے کر دیا ۔Face Book اور Twitter پر تو آپ ہیں نہیں۔ رہ جاتی ہے بات SMS کی ، کیا بہتر نہ تھا آپ قانون کا راستہ لیتے اور SMSوالے نمبروں کے خلاف FIR درج کرواتے؟آپ کے خلاف ہونے والی حرکت کی سخت سے سخت الفاظ میں جتنی بھی مذمت کی جائے وہ شاید اخلاق اور انصاف کے تقاضے پورے نہ کر پائے گی۔ ایسی یاوہ گوئی پر مجھے بھی صدمہ ہے اوردوسری طرف چیئر مین تحریک انصاف نے تمام نوجوانوں کو بلا تفریق PTI ، ن لیگ ، PPP ، وغیرہ وغیرہ اپنے Twitter پر سمجھایا کہ نوجوان اپنے اخلاق و اقدار پر توجہ دے کر اُسے بہتر بنائیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے( باوجود یکہ ، آپ کے نفرت اور عداوت بھرے کالم) آپ سے اظہار افسوس کیا ہے۔آپ نے بھرے جلسے میں ڈاکٹر علوی کے اظہارِ ہمدردی کا اپنے انداز اور اپنے مطابق تذکرہ بھی کیا ہے۔ میں نے اپنی ذاتی کاوش سے تحریک انصاف کے اعلیٰ سطح کے قائد ین سے لے کرادنیٰ سے ادنیٰ کار کُن سے استفسار بھی کیا ہے اور تفتیش بھی ۔ جہاں سب نے ایسے عمل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے وہاں آپ کے قلم سے پھوٹے ہوئے شگوفوں پر اپنے آپ کو ضرر رسیدہ پایاہے ۔حضور اگر ایسے واقعہ میں رائی برابر بھی سچائی نہ ہو تو جو پہاڑ آپ نے اس مفروضے پر تعمیر کیا ہے کیا آپ اُس کو مسمار کر دیں گے اور اخلاق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے بہتان پر معذرت فرما لیں گے؟ یقینا یہ آپ کے وقار کو چار چاند لگا دے گا۔
آپ کی ناراضی کی وجہ کیاہے؟ حکومتی طاقت کا نشہ یا قبولیت کی کوئی اور منزل مطمع نظر ۔ تحریک انصاف کے گلے پر کُند چھری چلانے میں ایسی مہارت اور پھر کُندچھری کی ایسی روانی کہ نواز شریف کو بھی آپ نے نہیں چھوڑا۔ میاں صاحب کے بارے میں انتہائی بے ہودہ اجمالی تفصیلات والا کارٹون جو سوشل میڈیا میں چند دنوں کے بعد کسی ردی کا حصہ بن جاتا۔ حضور کیا آپ نے اُس کی مشہوری کرا کے اپنے ممدوح کی خدمت کی ہے یا اُن سے کوئی بدلہ لیا ہے۔سوئے ادب پر معافی میا ں صاحب کے حدِ ادب کے کچھ تقاضے آپ پربھی واجب تھے۔مزاحیہ پہلو یہ ہے کہ ایک اور صحافی شیریں مزاری کے غم میں گھلتے نظر آئے۔ بے چاری عائشہ احد کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ پاکستان کا ہر با شعورشہری سیاست کے ذریعے بدمعاشی ، غنڈہ گردی گالی ، بھتہ خوری، قتل ، اغواء ، جسمانی اذیت، ڈاکہ، چوری، اداروں کی پامالی کے رواج سے انتہائی کبیدہ ہے اور اس معاملے کی دُرستگی کے لیے سنجیدہ بحث اور کوشش کا متلاشی ہے۔ ایسی خرابیاں جس سے ہمارے حکمران اپنی سیاست کو دوام بخش رہے ہیں اور پروان چڑھا رہے ہیں۔معلوم نہیں اس بُرائی کے انڈے کب اور کہاں سینچے اسکا تعین تو مشکل البتہ انگریز بہادر نے ہمیں غلام رکھنے کے لیے ریاستی جبر استعمال کیاجو آزادی کے بعد ہمارے بانیان ‘قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد اس میں حصہ بقدرِجثہ ڈالتے رہے۔ایوب خان کا دورِ سیاسی جبر و تشدد اور غنڈہ گردی کی انمٹ داستان رقم کر گیا حکومتی مخالفین کا قتل ، اغوا ء ، زنا بالجبر، جسمانی تشدد ، غنڈہ گردی عام کر دی گئی تھی۔ ڈاکو اور جرائم پیشہ لوگ پالے جانے لگے اور جیل سے اُن کو رہا کرا کے قتل اور دوسری وارداتیں کروائی جانے لگیں میرے خاندان میں میرے والدِ محترم ظفر اللہ خان، مولانا عبدالستار خان نیازی اورمر حوم چچا امان اللہ خان بے شما ر دفعہ توہین ِآمیز انداز میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنے ۔بھٹو صاحب کا ظہور پہلے سے مروجہ طریقوں کا نہ صرف تسلسل تھا بلکہ سیاست میں اس نے نئی جہت متعارف کرائی۔ شہاب رسالے میں مولانا مودودی کا سر تھرکتی رقاصہ کے جسم پرچسپاں کرنے کا عمل یا مخالف سیاستدان کے خلاف گندی زبان اور گندے ناموں کا استعمال ۔ ایسے بیہودہ واقعات کی ایک ”درخشاں کہکشاں “ رہا۔بعد کی سیاست نے تو انہیں ادارے کا درجہ دے دیاکروڑوں روپے سے قائم میڈیا سیل کے ذریعے مخالفین کی وہ کردارکشی کی گئی کہ نہ اپنے سگے چاچوں کی اولادیں محفوظ رہیں اور نہ مخالف سیاستدان اُن کے عتاب سے بچ سکے۔ 1988 اور 1990میں بے نظیر کے خلاف الیکشن مہم یا1997 - 1996 میں عمران خان کے اوپر ایسے غلیظ اور رکیک حملے جو پستی اور اخلاق باختگی کی ساری حدیں عبور کر گئے ۔90کی دہائی میں الزام کہ اپنے عزیز و اقارب کی لتراہٹ۔ ”حضور تھوڑی کو بہتا سمجھیں “۔ جب تک ہم اپنے ہاتھی ڈکار مارے بغیر ہضم کرتے رہیں گے اور تحریک انصاف کے کیڑوں مکوڑوں کے لیے چھلنی لگانے کا عمل جاری رکھیں گے۔ یہ منافقت ہمیں گُھن کی طرح کھاتی رہے گی ۔ عمران خان ایک سچا ، کھرا، صادق اور امین ہے۔ زہر ِھلا ہل کو قند کبھی نہیں کہے گا چور کو چور کہے گا منافق کو منافق کہے گااور ڈاکو، ڈاکواور قاتل ہی قاتل کہلوائے گا ۔ لٹیرے اور غنڈے کو لٹیرا اور غنڈہ ہی کہا جائیگا۔ اس میں معاشرت اور تہذیب کی بے ادبی کہاں؟ ہاں اگر ہمارے قائد ین ایسی باتوں میں ملوث ہیں تو اُن کو اسکا قطعاََ بُرا نہیں منانا چاہیے اور اگر وہ معصوم اور آبِ زَم زَم میں دُھلے دُھلائے ہیں تو عمران خان صاحب کو نہ حق پہنچتا ہے اور نہ اجازت کہ ایسے قائدین کی بے توقیری کرے۔ میں حلفاََ کہتا ہوں کہ ہمارے اکثر قائدین میں یہ تمام اخلاقی اجناس بدرجہ اتم موجود ہیں۔
اے اہل ِ اقتدار اے حزب اختلاف ! وطن عزیز کے ساتھ بہت ہو گئی ملک کو لوٹ کرآپ نے ادھ موا ء کر دیا آپ کے اور آپ کی اولاد کے تصرف میں اربوں ڈالر غیرملکی بینکوں میں محفوظ اور سات پُشتوں کے لیے کافی ۔ 18کروڑ لوگوں سے دُشمنی چھوڑدیں۔ ان پر اپنا غصہ تھوک دیں اورعوام سے صلح کر لیں۔اب تو بے چاری ہڈیاں بھی چٹخنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ لوگ جب آپ کے ماضی میں جھانکتے ہیں اورآپ کی مستقبل کی خواہشات اور عزائم کو دیکھتے ہیں تو خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔