قوموں کی اصل دولت

September 15, 2021

گزشتہ دنوں وزیر اعظم ،عمران خان نے نتھیا گلی میں بین الاقوامی ہوٹل کاسنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے بڑی ضرورت پاکستان کی دولت میں اضافہ کرنے کی ہے۔ہماری جنگ کرپٹ سسٹم کے خلاف اورقانون کی بالادستی کے لیےہے۔ انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں پر زور دیاکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، اس راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کریں گے، ہماری حکومت کرپٹ سسٹم کو ٹھیک کرنے اور قانون کی بالا دستی کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمایہ کاری اور معیشت کی صورت حال بہ تدریج بہترہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔ مواقعے نہ ہونے کی وجہ سے ملک کا ٹیلنٹ باہر چلا گیا۔۔۔۔۔برآمدات بڑھنے سے دولت میں اضافہ،روپیہ مضبوط ہوگااور منہگائی کم ہوگی۔ پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت دولت میں اضافہ کرنا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ نوّےلاکھ پاکستانی باہر ہیں۔ ان کی سالانہ آمدن بائیس کروڑ لوگوں کے برابر ہے۔ سب سے زیادہ دولت منداور ہنر مند پاکستانی ملک سے باہر ہیں کیوں کہ سسٹم نے ان کو یہاں مواقعے فراہم نہیں کیے۔ جب وہ باہر گئے تو وہاں کام یاب ہو گئے، کیوں کہ وہاں کا نظام بہتر تھا۔حکومتی اقدامات کی وجہ سے صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ ہم بہ بتدریج بہتری کی طرف گام زن ہیں۔ صنعتیں چل پڑی ہیں ، سرمایہ کاری آ رہی ہے اور معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔

اس تقریر کی بعض باتیں بلاشبہ ناقابلِ تردید ہیں ، لیکن کئی نکات ایسے بھی ہیں جن سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔ ملک کی دولت میں اضافہ کرنے اور بد عنوانوں اور بد عنوان نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی بات سے کسی بھی محب وطن پاکستانی کواختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہاں یہ نکتہ سمجھنے کا ہے کہ قوموں کی اصل دولت کیا ہوتی ہے۔ مواقعے نہ ہونے کی وجہ سے ملک کا ٹیلنٹ باہر چلا گیا، یہ بات بھی درست ہے۔ہم بہ تدریج بہتری کی طرف گام زن ہیں، صنعتیں چل پڑی ہیں ، سرمایہ کاری آ رہی ہے اور معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ اس نکتے پر اختلاف کی کافی گنجایش موجود ہے۔اس ضمن میں تازہ اشارہ یہ ہے کہ صرف تین برس میں پاکستان سے اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ملک کا درجہ چھن گیا ہے۔

ابھرتی معیشتوں کی فہرست سے پاکستان کے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی اقتصادی حکمت عملیوں پر تنقید کرنے والے حلقوں کے خدشات میں کچھ نہ کچھ وزن ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی تنزّلی عوام کو درپیش مشکلات کا اعتراف ہے۔ یہ عالمی درجہ بندی اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ حکومتی اقتصادی اعدادوشمار عالمی سطح پر مسترد ہوئے ہیں پاکستان کا نام ابھرتی ہوئی معیشتوں کی فہرست سے نکلنا افسوس ناک اور باعث تشویش ہے ۔

ناقدین کے بہ قول مورگن اسٹینلے کیپٹل انٹرنیشنل کی عالمی فہرست میں پاکستان کی تنزّلی اچھی خبر نہیں ۔ایم ایس سی آئی کا پاکستان کو فرنٹئیر مارکیٹس میں شمار کرنا ملک کی معاشی بدحالی کا اعلان ہے ۔یاد رہے کہ میاں نوازشریف کے دور میں پاکستان کو دنیا کی بیس ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کیاگیا تھا۔ تازہ درجہ بندی اس بات کی تصدیق ہے کہ پاکستان کی معیشت کا حجم سکڑ چکا ہے اوراسے سرمائے کی قلت کا سامنا ہے ۔

ہمیں آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے

پاکستان کی عالمی درجہ بندیوں میں اس تیزی سے اتار چڑھاو کوئی نئی بات نہیں ہے۔البتہ اس کے جدید رجحانات کی بنیاد رکھنے میں سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا بنیادی کردار ہے۔ان کے دور سے ملک کی معیشت میں بہت اونچی سطح پرسٹّے بازی کے رجحان کو فروغ ملاتھااور ملکی اورعالمی سطح پراقتصادی اعداد وشمار میں بہت بری طرح ہیر پھیر کی گئی تھی جس کا اعتراف بعض عالمی اداروں نے بھی کیا تھا کہ انہیں شوکت عزیز نے جعلی اعدادوشمار دیےتھے۔

یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تیز رفتار اتار چڑھاو اس لیے ہے کہ ہماری معیشت ہمیشہ کم زور سہاروں پر کھڑی کی گئی۔ ایسے سہارے جو ذراسے مشکل حالات میں ڈھے جاتے ہیں اور مصنوعی انداز میں بڑھائی گئی ریٹنگ دھڑام سے نیچے آجاتی ہے۔ لیکن وقت آگیاہے کہ ہم اپنی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔ اس کام کے لیے ہمیں یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ قوموں کی اصل دولت کیا ہوتی ہے۔

یہ دولت دراصل اس قوم کے انسانی وسائل کا سرمایہ ہے۔لیکن اس ضمن میں ہماری حالت یہ ہے کہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس 2020 میں پاکستان کی درجہ بندی دو درجے کم ہوگئی تھی۔ ایچ ڈی آئی سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ برائے سال 2020کے مطابق کُل189ممالک میں ہمارا نمبر 154ہے۔ تاہم اس سے ایک برس قبل پاکستان کی درجہ بندی 152ویں نمبر پرتھی۔ اسی طرح ملک کی درجہ بندی تمام ہم مرتبہ معیشتوں سے کم رہی اور صرف افغانستان ہی پاکستان سے نیچے رہا اور اس کی درجہ بندی169ویں نمبر کی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے جاری کردہ ایچ ڈی آئی 2020کے مطابق بھارت، بنگلا دیش، نیپال اور بھوٹان پاکستان سے آگے رہے۔یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں عالمی راہ نماؤں کے لیے ایک بالکل واضح انتخاب پیش کیا گیا ہے کہ ماحول اور قدرتی دنیا پر جو بے حد دباؤ ڈالا جارہا ہے اسے کم کرنے کے لئے جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں ورنہ انسانیت کی ترقی رک جائے گی۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق تعلیمی کارکردگی میں پاکستان آخری دس ممالک کی فہرست میں افریقی ممالک کے ساتھ واحد ایشیائی ملک ہےجہاں اس کا مطلوبہ اسکولز کا مطلوبہ تعلیمی دورانیہ 8.3 فی صد ہے۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان آئندہ چند برسوں میں سب سے کم تعلیم یافتہ ملک بن سکتا ہے۔

یاد رہے کہ ایچ ڈی آئی رپورٹ ممالک میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی کی صورت حال کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے، لیکن 2020 میں ممالک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور سیارہ زمین پر دباؤ ڈالنے والے مادی عوامل کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

یہ رپورٹ جو دراصل 2019ء میں ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے، کا عنوان تھا:’’دی نیو فرنٹیئر:ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ انتھروپوسین‘‘ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھارت 131 ویں نمبر پر ہے۔ بنگلا دیش 133، سری لنکا 72، مالدیپ 95، نیپال 142 اور بھوٹان 129 ویں نمبر پر ہے۔ ناروے، آئرلینڈ، ہانگ کانگ، آئس لینڈ اور جرمنی اس درجہ بندی میں سر فہرست ہیں۔

وسطی افریقا، جمہوریہ نائجر،چاڈ، جنوبی سوڈان اور برونڈی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی سب سے کم درجہ بندی پر موجود ہیں۔ امریکا کو 17 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی ترقی کے لیے معاشرتی اصولوں، اقدار حکومت اور مالی مراعات کو تبدیل کرتے ہوئے اگلے محاذ پر فطرت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق نئے تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ صدی (2100ء) تک دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہر سال موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم کے دورانیے میں سو دن کا اضافہ ہو سکتاہے۔ لیکن موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے ’’پیرس معاہدے‘‘ پر مکمل عمل درآمد سے یہ دورانیہ نصف تک لایا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ پہلی ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ 1990ء میں پاکستان کے وزیر خزانہ کی سربراہی میں تیار کی گئی تھی اور 2020ء کی رپورٹ اس سلسلے کی تیسویں کڑی ہے۔

صائب مشورہ جو ہم نے نہیں مانا

یہ اپریل 2019کی بات ہے۔اس وقت عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے سو سال اور مستقبل کا خاکہ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں مشورہ دیا گیا تھاکہ پاکستان انسانی وسائل کی ترقی میں سرمایہ کاری بڑھائے ۔ عالمی بینک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسٹنٹ (اپنی عمر سے کم وزن اور قد والے) بچوں کی شرح کم ہوئی ہے جو اس وقت اڑتیس فی صد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ دنیا میں اس طرح کے بچوں کی شرح سے زاید ہے۔ اسٹنٹنگ کے مسائل سے لوگوں کی قابلیتوں پر ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آج اس عارضے کے شکاربچوں کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل کی افرادی قوت کو کئی سالوں تک مسائل کا سامنا ہو گا۔

عالمی بینک کے ہیومن ڈیولپمنٹ پروگرام کے حکام نے کہاتھا کہ اسٹنٹنگ صرف صحت اور غذائیت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ معاشی مسئلہ بھی ہے کیوں کہ اس کا تعلق پیداوار سے بھی ہے۔ اس کے معاشی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس کے منفی اثرات کا تخمینہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کادو سے تین فی صدہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کے ایک بڑے حصے سے محروم ہو گا۔ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کی پائے دار ترقی میں اضافے کے لیے انسانی وسائل پر سرمایہ کاری بڑھانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماں اور بچے کی صحت، بچوں کی بہتر تعلیم اور خواتین کی متناسب شرکت سے خوش حالی اور پائے دار ترقی کے اہداف کا حصول یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

مگر اشرافیہ کا کیا کریں

کچھ عرصہ قبل UNDP نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی معیشت کے چھبّیس کھرب ساٹھ ارب روپے (17.4 ارب ڈالرز ) اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا چھ فی صد ہیں جو تقریباً17.4ارب ڈالر (2,659,590,000,000روپے)بنتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے تحت جاری کردہ نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ (NHDR) میں پاکستان میں عدم مساوات کے معاملات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طاقت ور طبقہ اپنے منصفانہ حصے سے زیادہ کے لیے اپنا استحقاق استعمال کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مراعات سے سب سےزیادہ فائدہ کارپوریٹ سیکٹر اُٹھاتا ہے۔ایک تخمینے کے مطابق اس نے سات کھرب اٹھارہ ارب روپے (4.7 ارب ڈالر) کی مراعات حاصل کی ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات حاصل کرنے والا ملک کا ایک فی صد امیر ترین طبقہ ہے جو ملک کی مجموعی آمدن کے نو فی صدکا مالک ہے، جاگیر دار اور بڑے زمیں دار جو آبادی کے 1.1فی صد پر مشتمل ہیں لیکن ملک کی بائیس فی صد قابلِ کاشت زمین کے مالک ہیں۔

پاکستان کی پارلیمان میں دونوں طبقات کی بھرپور نمائندگی ہے۔ بیش تر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو مراعات کی فراہمی کے ذمے دار تھے وہ ہی مراعات وصول کررہے ہیں۔ ایک ہاتھ سے وہ مراعات دے رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے وصول کررہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملک کا ایک ادارہ زمین، سرمائے ، انفرا اسٹرکچر اور ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں دو کھرب ساٹھ ارب روپے (1.7ارب ڈالر)کی مراعات لے رہاہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے غریب ترین ایک فی صد کی آمدن صرف 0.15فی صد ہے۔ مجموعی طور پربیس فی صد امیر ترین لوگوں کے پاس قومی آمدن کا 49.6فی صد ہے۔ بیس فی صد غریب ترین آبادی کے پاس قومی آمدن کا صرف سات فی صد ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک کا متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے۔ یو این ڈی پی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ متوسط آمدن والے افراد 2009سے اب تک آبادی کے بیالیس فی صد سے کم ہوکر 2019 میں چھتّیس فی صد رہ گئے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں جنوبی ایشیاء میں پاکستان آخرسےدوسرے نمبر پر ہے۔ پہلےپر افغانستان ہے۔

نتیجہ سامنے ہے

جدید معاشی نظریات کے مطابق پیداواری عمل (Production Process) کا انحصار چار عوامل پیداوار(Factors of Production)، زمین (Land)، محنت (Labour)، سرمایہ (Capital) اورآجر(Enterprienuer)پرہے۔ زمین Land) سے مراد قدرتی وسائل ہیں،خواہ وہ زمین کے ٹکڑے کی صورت میں ہو یا زمین پر زرعی پیداوار کی صورت میں۔ نیز زیر زمین معدنیات کی صورت میں ہویا پھر سمندر میں موجود وسائل کی صورت میں۔

پیداواری عمل میں چار میں سے دو عوامل (Factors)کا تعلق انسانی وسائل (Human Resource) سے ہے ،جس سے انسانی وسائل کی اہمیت کا اندازہ لگا نامشکل نہیں۔کسی بھی ادارے کو بنانے اور بگاڑنے میں انسانی وسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر انہیں بہتر انداز میں منظم (Manage)کرلیا جائے تویہ وسائل ادارے کو ترقی کی راہ پر گام زن کردیتے ہیں۔ اگر انسانی وسائل کی تنظیم بہتر انداز میں نہ کی جائے تو یہی وسائل ادارے کو زمین بوس کرنے میں وقت نہیں لگاتے۔

اس لیے جدید نظمیات میں انسانی وسائل کی تنظیم (Human Resource Mangement) ایک اہم موضوع بن کر ابھرا ہے۔ اس پر تحقیقی مقالے، کتابیں لکھی جارہی ہیں اور ادارے اس بات کو اپنی سوچ(Vision) کا حصہ بنا رہے ہیں کہ انسانی وسائل ہمارے لیے سب سے اہم ہیں اور ان کی بہتر انداز میں تنظیم ہی ادارے کی ترقی کا ضامن ہے۔

کوئی ہم سے آگے کیوں؟

یہ نکات ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ماہرین معیشت و تجارت کو یہ کہتے ہوئے سنا جائے کہ پاکستان میں آج بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں تجارتی ادارہ قایم کرنے اور اسے چلانے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھ رہاہے، اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پھر سے سر اٹھارہا ہے اور روپے کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔

ہم اپنا اقتصادی نظام چوں کہ بیساکھیوں پر کھڑا رکھنے کے عادی ہیں لہذا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اس وقت بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے آنے والی ترسیلات زر کا سہارا ہے۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان میں بنگلا دیش کی طرح برآمدات میں اضافہ ہواہے اور نہ بھارت کی طرح بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے برعکس پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی دیکھی گئی ہے۔ معیشت کے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری، دونوں میں اضافہ ہو ورنہ پاکستان پر قرضے میں اضافہ ہوتا جائے گا۔پی ٹی آئی کی حکومت کے تین برسوں میں قرضہ چوبیس ہزار ارب روپے سے بڑھ کراڑتیس ہزار ارب روپے کی سطح عبور کرگیا ہے۔

2008ء میں بنگلا دیش کی ترسیلات زر پاکستان سے ڈیڑھ ارب ڈالرز زیادہ تھیں مگر پاکستان کی برآمدات زیادہ تھیں۔ ن لیگ کی حکومت میں پاکستان کی ترسیلات زر تقریباً 20ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھیں اوراسی دوران بنگلا دیش میں آنے والی ترسیلات زر 15ارب ڈالرز تک پہنچیں۔تحریک انصاف کی حکومت کے تین سالوں میں پاکستان کی ترسیلات زر 29ارب ڈالرز پر پہنچ گئیں جبکہ بنگلا دیش کی ترسیلات زر تین برسوں میں 24.7ارب ڈالر ز تک پہنچ گئیں۔ ترسیلات زر میں اس بے پناہ اضافے کی بڑی وجہ کورونا کی وجہ سے سفری پابندیوں کے باعث ہنڈی ،حوالے کا نہ ہونا اور اس کی وجہ سے آفیشل بینکنگ چینل سے ترسیلات زر کا بھیجنا بھی ہے۔ان حالات میں یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کورونا کے خاتمے کے بعد لوگ کہیں دوبارہ ہنڈی، حوالے کی طرف تو نہیں چلے جائیں گے۔

پاکستان کے 27ارب ڈالرز کے مقابلے میں بنگلا دیش کے پاس 45ارب ڈالرز کے ذخائر ہیں جس میں بڑا کردارا س کی برآمدات کا ہے۔ پاکستان میں نہ صرف نئی بیرونی سرمایہ کاری کم ہورہی ہے بلکہ اس کا حجم بھی کم ہورہا ہے۔بیرنی سرمایہ کاری پانچ سال میں 41.9ارب ڈالرز سے کم ہو کر 35.6ارب ڈالرز ہوگئی ہے جبکہ بھارت کا بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 318ارب ڈالرز سے بڑھ کر 480ارب ڈالرز پر پہنچ گیا ہے۔

بنگلا دیش سے یہ اعدادوشمار کیوں آرہے ہیں؟ اسے سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بنگلا دیش کی معاشی ترقی تین ستونوں برآمدات، معاشی ترقی اور مالی معاملات میں دانش مندی پر کھڑی ہے۔ 2011ء سے 2019ء کے درمیان بنگلا دیش کی برآمدات میں ہر سال 8.6فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔اس کام یابی کی بنیادی وجہ بنگلا دیش کا مسلسل ٹیکسٹائل ملبوسات کی برآمدات پر فوکس ہے۔ اس کے ساتھ ایک اہم وجہ خواتین کا بنگلا دیش کی لیبر فورس میں پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ بڑھتا ہوا کردار ہے۔

ایسے میں ہمیں ان ماہرین اقتصادیات کی باتیں یاد آتی ہیں جو مسلسل کہتے آرہے ہیں کہ انسانی وسائل کی ترقی پر سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی پر سرمایہ کاری اقتصادی شرح نمو میں اضافے کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ انسانی وسائل کی ترقی اور غیر ہنر مند افرادی قوت کو ہنر مند بنانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرے تاکہ اقتصادی ترقی اور انسانی وسائل میں موجود خلا کو پر کیا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی معیشت عالمی سطح پر اس وقت مقابلہ کرسکتی ہے جب اسے پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد دست یاب ہوں۔ غیر ہنر مند اور کم پڑھی لکھی افرادی قوت سے اقتصادی ترقی کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔