اور ہم کو احساس کی بیماری ہے

September 19, 2021

بےحسی شرط ہے جینے کے لئے... ہماری قومی سیاست تو ایک عرصہ سے بیمار اور کمزور ہے۔ پاکستان میں سیاست ایک طرف بہت ہی مقبول کھیل تماشا ہے اور اس میں کام کرنے والے اشرافیہ کہلاتے ہیں اور خوب کماتے بھی ہیں۔ کسی بھی سیاسی پنڈت کا بیان سن کر آپ کی ہمدردی اپنے آپ سے بڑھ جائے گی۔ آپ کو جلد ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھاشن دینے والا سیاسی کھلاڑی کھیل میں بھی جوڑ توڑ کے ساتھ چمتکار دکھانا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ آج کل بھی ہو رہا ہے۔ عمران خان نے سیاست میں پائوں کیا رکھا ہے سب کو اپنی اپنی فکر لگ گئی ہے اور سارے شاطر سیاستدان اس کو بدلنے پر لگ گئے ہیں مگر وہ سب اندر سے ایک نہیں ہیں۔ یہ ان سب کی خوش قسمتی ہے کہ ملک میں انصاف نہیں ہے اور نہ انصاف ہو سکتا ہے۔ اگر قانون بنانے والے عقلمند ہوتے تو عمران خان کے ساتھ جنگ کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

ہماری سیاست کا ایک نظریہ ہے جس پرصرف اور صرف سیاسی اشرافیہ ہی نہیں بلکہ اعلیٰ نوکر شاہی بھی عمل کرتی ہے۔ وہ نظریہ ہے ’’دکھائو کچھ اور بتائو کچھ اور پھر اس کے بعد چپ‘‘۔ اس وقت پانی پت کی طرح کی سیاسی جنگ عمران خان کے لئے ان کے پرانے مہربان لوگ لڑتے نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دو بڑے اہم کھلاڑی ایک عجیب رشتہ کے ساتھ پارٹی کو بھی چلا رہے ہیں۔ سابق صدر پاکستان اور بےنظیر شہید کے بچوں کے باپ پیپلز پارٹی کے روحانی پیشوا ہیں۔ زیادہ عمر کی وجہ سے انہوں نے اپنا تختعارضی طور پر اپنے فرزندِ ارجمند بلاول بھٹو زرداری کو دے رکھا ہے۔ ان میں اگر کمی ہے تو عمل اور خیر کی ہے۔ آج کل کی پارٹی سیاست میں عمل کے بغیر بھی آپ کی نامزدگی ہو سکتی ہے اور اس کے لئے بلاول بھٹو زرداری اپنے ہنر کا بیانیہ جاری کرتے رہتے ہیں۔

عمران خان کی مخالف سیاسی اشرافیہ اس وقت آپس کی رنجش میں مبتلا نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف سابق وزیراعظم پاکستان خاقان عباسی ہیں جن کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھرپور اعتماد سے نوازا تھا اور وعدے کے برخلاف پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کو نظر انداز کرکے وزیراعظم پاکستان بنوایا تھا۔ اس کی وجہ بڑی معقول تھی۔ خاقان عباسی نے ماضی میں نواز شریف کے بچوں کا بہت ہی خیال رکھا۔ ان کی اس ادا کی وجہ سے مریم نواز بھی متاثر تھیں اور ان کی خصوصی مشاورت کے باعث خاقان عباسی کو وزیراعظم کا عہدہ ملا تھا۔ دوسری طرف جناب شہباز شریفتھے، جو عسکری انتظامیہ سے بےلوث محبت کی وجہ سے میاں نواز شریف سے اپنی حیثیت منواتے رہتے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ کے سفارتی حلقوں نے بھی اِسی انتظامیہ سے پوچھ کر خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے کے لئے پاس کیا تھا، ورنہ چوہدری نثار کا فارمولہ کامیاب ہو جاتا۔

اس وقت ایک دفعہ پھر ہماری سیاست میں چوہدری نثار بڑی خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں یہ میچ عمران الیون اور پاکستان بچاؤ سیاست الیون کے درمیان ہو رہا ہے۔ اِس ٹورنامنٹ میں تین ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ عمران الیون سرکار کی ٹیم ہے اور کھلاڑی سب ایک ہی کلب کے ہیں۔ دوسری طرف نئے نام کے ساتھ پی ڈی ایم ہے جس کے اہم کھلاڑی اور کپتان مولانا فضل الرحمٰن ہیں اور وائس کپتان کے لئے دو نام نظر آتے ہیں خاقان عباسی اور مریم نواز۔ اہم کھلاڑیوں میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف نمایاں ہیں مگر وہ آج کل پریکٹس میچ میں بھی نظر نہیں آ رہے۔ ہمارے ہاں اتنے سیاسی کرکٹ کلب ہیں اور کھلاڑی بھی بہت ہیں اور کچھ نامور کھلاڑی جیسے چوہدری نثار ہیں وہ اس وقت کسی کلب کے ساتھ نہیں مگر اب لگ رہا ہے کہ وہ جلد ہی میچ کھیلتے نظر آ سکتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کی تیسری اہم ٹیم پیپلز پارٹی ہے اور اب تک ان کی پریکٹس بھی بری نہیں رہی۔ ان کے ہاں نمایاں کھلاڑی بلاول زرداری ہیں، وہ کھیلنے میں برے نہیں ہیں مگر کم تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل وہ میاں شریف کلب کے کھلاڑی سابق خادم اعلیٰ سے مشاورت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سارے سیاسی کلب اس وقت عسکری انتظامیہ کے ساتھ مربوط ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی کرکٹ کلب کے ٹورنامنٹ میں عوام کو بہترین کھیل اور سیاست کے جوہر دکھا سکیں۔ خطہ کی صورتحال ایسی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ بھی ہماری سیاسی کرکٹ سے مستفید ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی کرکٹ کی دھوم، بھارت اور ایران میں محسوس ہو رہی ہے۔ اگرچہ ان کے ہاں کی سیاسی کرکٹ اس وقت خراب انتظامیہ کی وجہ سے ٹورنامنٹس بھی نہیں کروا رہی، پھر علاقائی صورتحال میں افغانستان میں بظاہر امریکی پسپائی نے بھی ان کو پریشان کر رکھا ہے اور امریکی دوستی اب بھارت کے لئے بھی امتحان ہے مگر ہمارا بہت مہربان دوست امریکہ افغانستان سے خاص نقصان کروا کر نہیں نکلا بلکہ اندر کی خبر ہے کہ قطر میں طالبان کے ساتھ سودے بازی کر کے اس نے افغانستان ان کے حوالے کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ سودے بازی میں اصول کے قانون کو اہمیت دی جائے گی مگر امریکہ پاکستان سے عمران خان کی وجہ سے ناراض سا لگتا ہے۔ عمران خان جس طرح امریکہ کے سلوک پر تبصرہ کرتے ہیں وہ امریکہ کو پسند نہیں ہے مگر جلد ہی وہ عمران خان سے رابطہ کرنے والا ہے، اپنے مفاد میں۔

عمران خان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ عوام کو کم وقت میں تبدیلی کے لئے تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے اور اچھی ٹیم بھی نہیں بنا سکے۔ ہماری سیاسی گرائونڈ کی انتظامیہ اور خاص حلقے پاکستان میں جمہوریت کی تربیت سے پریشان ہیں۔ خیر یہ وقت عمران خان کا ہے اور ان کو کچھ روحانی دانشور بھرپور مدد بھی دے رہے ہیں مگر عمران خان صرف عوام کے لئے لڑنا چاہتے ہیں۔ انصاف کا یقین دلانا چاہتے ہیں مگر وہ تنہا ہیں۔ ہماری قومی سیاست اور جمہوریت نے پاکستان کا مستقبل مشکوک بنا رکھا ہے۔ چین اس خطہ کی سیاست میں اہم کھلاڑی ہے۔ وہ اب عمران خان سے مایوس نہیں ہے۔ نئے نظام کی نسبت میں چین عمران خان کو ٹپس بھی دے رہا ہے۔ ایسے میں صرف اور صرف احساس ہی ایسا رویہ ہے جو پاکستان اور عمران خان کو کامیاب کروا سکتا ہے اور کیا یہ بھی بیماری ہے مگر اس کا علاج بھی احساس ہی ہے۔