افغانستان اور سیاسی تلاطم

September 23, 2021

15اگست کو طالبان نے ایک گولی تک چلائے بغیر افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ مشن افغانستان پر امریکی، نیٹو اور یورپی فوجیں گزشتہ 20برس سے کام کر رہی تھیں۔ یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ تھی جس کے نتائج بھی باقی جنگوں سے کچھ مختلف برآمد نہیں ہوئے۔ افغان فوج مزاحمت نہ کر پائی حتیٰ کہ فضائیہ کو بھی بروئے کار نہیں لایا گیا۔ اربوں روپے مالیت کا فوجی ساز و سامان، جو افغان فوج کو فراہم کیا گیا تھا، طالبان کے ہتھے چڑھ گیا۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ بھارت کی جانب سے طالبان کا مقابلہ کرنے کے لئے فراہم کردہ ہتھیار اور گن شپ، کابل کی حتمی فتح کے لئے طالبان ہی کے کام آئے۔ اگرچہ طالبان نے کنٹرول سنبھالنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا لیکن افغانستان میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ کابل ایئر پورٹ انخلاء کے خواہاں غیر ملکیوں اور افغانیوں سے بھر گیا۔ اسی افراتفری میں شدت پسند تنظیم داعش نے حملہ کرکے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا جس میں 13امریکی فوجی اور سینکڑوں افغان شہری ہلاک ہوئے۔ جواباً امریکہ نے ڈرون حملہ کیا، جس میں 10افغان شہری ہلاک ہوئے۔ امریکی حکومت نے بعد میں معذرت کی اور تسلیم کیا کہ یہ حملہ غلط معلومات کی بنا پر ہوا۔ امریکی پالیسی ہر حوالے سے ناکام ہوئی۔ امریکی حکومت اب اندرونی اور بیرونی خلفشار سے دوچار ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔

امریکی اعلیٰ عہدیداروں نے متعدد پریس کانفرنسیں کیں۔ ایک انتہائی اہم بریفنگ میں بلنکن نے افغانستان میں ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی تھی۔ اس عمل میں پاکستان نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ ٹرمپ حکومت کی تبدیلی نے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا۔ افغانستان کی تباہی 20سالہ جانی اور مالی نقصانات کے بعد، امریکی بین الاقوامی سفارتکاری میں بری طرح ناکام قرار پائے۔ عالمی سطح پر ان کا ناقابلِ بھروسہ اتحادی کا تاثر ابھر کر سامنے آیا۔ افغانستان میں امریکیوں نے اپنے اتحادیوں اور حامیوں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اشرف غنی کو افغان حکومت کے امریکی ماسٹر مائنڈز کی مدد کے بغیر کابل سے بھاگنا پڑا۔ پنج شیر وادی کے باشندے، جو 11/9اور افغانستان پر حملے کے بعد امریکی افواج اور نیٹو کے پہلے اتحادی تھے، انہیں بھی بےیارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ طالبان نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی بہت رد و قدح کے بعد پنج شیر پر بھی قبضہ کر لیا۔ ان حالات نے ثابت کیا کہ امریکی قابلِ اعتماد حلیف نہیں ہیں۔ بھارت بھی تاحال صدمے میں ہے اور پاکستان پر الزام تراشیاں کرکے غم غلط کر رہا ہے۔ افغانستان میں بھارتی اربوں روپے کی سرمایہ کاری اور فنڈنگ اکارت گئی۔ کابل میں بھارتی سفارت خانہ بند کرنا پڑا۔ امریکہ، بھارت کی خارجہ پالیسی اور انٹیلی جنس افغانستان میں بدترین ناکامی سے دوچار ہوئیں۔

دوسری طرف، پاکستان اور چین نئے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان انٹیلی جنس سروسز کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کابل کا تاریخی دورہ کیا۔ انہوں نے سینئر طالبان قیادت کے ساتھ خوشگوار ماحول میں ملاقاتیں کیں۔ میڈیا کی جانب سے مختلف سوالات کے جواب میں ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ ’’فکر مت کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ یہ پہلے انٹیلی جنس سربراہ تھے جنہوں نے ان حالات میں افغانستان کا دورہ کیا۔ پاکستان بلاشبہ علاقائی طاقت بن کر ابھرا ہے۔ طالبان کے ساتھ پاکستان کی شراکت کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ چمن بارڈر اور سپن بولدک کے ذریعے تجارت شروع ہو چکی ہے۔ طالبان نے تعاون اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ایک بیان میں، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت امریکی ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ افغانستان میں امداد بھیجی اور پناہ گزینوں کے لئے اصول وضع کیے جا رہے ہیں۔ اسی تسلسل میں، انٹیلی جنس چیف نے اسلام آباد میں روس، چین، ایران، تاجکستان اور ترکمانستان کے انٹیلی جنس سربراہوں کا اجلاس منعقد کیا تاکہ آنے والے بحرانوں پر قابو پانے کی حکمت عملی طے کی جا سکے۔ یہاں تک کہ 20سال کی تباہی کے ذمہ دار امریکی بھی، افغانستان کے لئے منعقدہ اس میٹنگ کا حصہ تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آئندہ یہ فیصلے کہیں اور ہوا کریں گے۔

چینی حکومت پاکستان کی مدد سے افغانستان کو ایشیائی اقتصادی اور علاقائی رابطے کے عظیم الشان منصوبے میں شامل کرنے کے لئے تیار ہے۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور میں افغانستان کی وسیع اور معدنی وسائل سے مالا مال زمین آسانی سے شامل ہو سکتی ہے۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد، دنیا کی ایک نئی معاشی سپر پاور نے افغانستان کوفتح کرنے کے لئے جنگ کی بجائے، خوشحالی اور معاشی ترقی کے لئے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغانستان مضبوط جغرافیائی مزاج رکھتا ہے جو خطے میں چین کے اثرات اور وسطی ایشیا سے اس کے روابط مضبوط بنانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں۔ کابل کا معاشی، سماجی اور بنیادی ڈھانچہ اگرچہ سست روی سے ایک طویل سفر کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ہزار میل کا سفر بھی پہلے قدم سے ہی شروع ہوتا ہے۔

امریکی دوسری جنگ عظیم کے فاتح بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے آزاد دنیا کے لیڈر ہونے کا دعویٰ کیا۔ انصاف، آزادی اور جمہوریت ابراہیم لنکن اور واشنگٹن کی طرزِ حکمرانی کے اساسی نقاط تھے لیکن صرف چند دہائیوں میں صورتحال برعکس ثابت ہوئی۔ 1980میں، سوویت یونین کے زوال کے بعد سے، امریکی تکبر، کم نظری اور تقسیم جیسے پرانے مسائل کا شکار ہوئے۔ خارجہ پالیسی میں، امریکی مسلسل ناکام رہے یہاں تک کہ نیٹو کی ساکھ مٹی میں ملانے کا باعث بنے۔ ویت نام میں ہارے، بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے حوالے سے عراق کے بارے میں دنیا سے جھوٹ بولا، بیسیوں مرتبہ بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے اپنے اتحادیوں کو غیرضروری ہنگامہ آرائیوں میں جھونکا۔ شام اور لیبیا میں باغیوں کا ساتھ دے کر تباہی پھیلائی، ہزاروں نہتے بےقصور لوگوں کا قتل کیا۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزیوں کے باوجود اسرائیل کی پشت پناہی کی۔ سیاہ فام، حقوق نسواں، تارکین وطن مخالف اور اسلاموفوبک پالیسیوں کی بدترین شکل اپنائی اور پہلے سے کہیں زیادہ تقسیم ہوئے۔ یہ سب چین کی اس دلیل کی تائید ہے کہ امریکہ اب دنیا کا لیڈر نہیں ہے اور نہ ہی وہ دنیا کے لئے قابل اعتماد ہے۔

افغانستان شدید تلاطم اور جہدِ مسلسل کا نتیجہ بن کر سامنے آیا ہے۔ چین صحیح راہ پر ہے، وہ فتوحات حاصل کر رہا ہے جبکہ امریکی اور اس کے اتحادی چاہے وہ برطانیہ ہو نیٹو یا ہندوستان، یکے بعد دیگرے حزیمت کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان اور چین، روس، ایران اور ترکی کی شکل میں نئے اتحادیوں کے ساتھ اس تباہی کا ممکنہ جواب ہیں جو آج تک افغانستان اور خطے کو دیکھنا پڑی۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)