امریکا طالبان امن کیلئے پارٹنر بنیں،افغانستان میں دہشت گرد گروپس کو غیر موثر کرنے کیلئے واشنگٹن اور اسلام آباد کو مل کر کام کرنا ہوگا، عمران خان

September 25, 2021

نخلاءسے امریکا کی ساکھ متاثر نہیں ہوئی،وزیر اعظم عمران خان

اسلام آباد(اے پی پی)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انخلاءسے امریکا کی ساکھ متاثر نہیں ہوئی ‘افغانستان میں دہشتگرد گروپس کو غیر موثر کرنے کیلئے واشنگٹن اور اسلام آباد کو ملکر کام کرنا ہوگا ‘ طالبان امن کیلئے امریکا کے شراکت دار ہو سکتے ہیں‘افغانستان کوانسانی بحران کا سامنا ہے۔

امریکا افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے‘افغانستان کو تنازعات اور سابقہ حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے انسانی بحران کا سامنا ہے‘امریکا ، چین اور روس سب کو مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالنا ہوگا۔

پاکستان افغانستان کے دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مل کر نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کریگا،بھارت امریکی اسٹریٹجک مفادات کی تکمیل کیلئے کبھی بھی چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

امریکا اور چین کی موجودہ دشمنی غیر ضروری ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کو امریکی فوجی مدد اور نام نہاد ”کواڈ“ کا مقصد چین کا راستہ روکنا ہے ‘پاکستان افغانستان میں حکام کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردگروپوں کو افغانستان سے کارروائیاں کرنے سے روکنے کے لیے کام کرے گا۔

جمعہ کو معروف امریکی میگزین’’نیوز ویک‘‘کو انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے گزشتہ 40 سالوں میں پہلی بار پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس سے پورے افغانستان میں سکیورٹی قائم ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔

ہمیں افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں بالخصوص ٹی ٹی پی کو بے اثر کرنے کیلئے کابل میں حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے‘پاکستان اور امریکا دونوں کو افغانستان میں دہشت گردی کو روکنے کی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے ہمیں انسانی بحران سے نمٹنے اور معاشی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان کے استحکام میں مدد کے لیے تعاون کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے افغانستان سے رضاکارانہ طور پر اپنی فوجیں واپس بلالی ہیں، اس لئے مجھے نہیں لگتاکہ اس سے امریکی ساکھ متاثر ہوئی ہے‘اگر چین نے افغانستان کو اقتصادی امداد کی پیشکش کی تو یقینا ًافغان عوام اسے قبول کرینگے۔

طالبان نے سی پیک منصوبے اور چین کیساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا خیر مقدم کیا ہےتاہم امریکا بھی افغانستان میں انسانی امداد فراہم کر کے افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو میں حصہ ڈال کر اور دہشت گردی پر قابو پانے میں تعاون کر کے افغانستان میں اہم اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

دوحہ امن عمل کے دوران امریکا نے طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کی جبکہ انخلا ء کے عمل کے دوران امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست تعاون تھا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔

افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے ایک " عبوری حکومت" قائم کر رکھی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں مستقل حکومتی ڈھانچے کا اعلان کریں گے۔

پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ افغانستان میں اصل(ڈی فیکٹیو) حکام کے ساتھ رابطے رکھے ، تاکہ اس ہمسایہ ملک میں معاشی اور انسانی تباہی اور دہشت گردی کو پنپنے سے روکا جا سکے۔

پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردی بالخصوص ٹی ٹی پی سے خطرے کے بارے میں انتہائی تشویش لاحق ہے ، جس نے افغانستان کی سرزمین سے بعض دشمن خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی اور مدد سے پاکستان کے خلاف ہزاروں حملے کیے ہیں۔

ٹی ٹی پی پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں پر زیادہ تر حملوں کی ذمہ دار ر ہی ہے ، شاید انہیں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کا تعاون بھی حاصل ہو۔ پاکستان افغانستان میں حکام کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردی کو افغانستان سے کارروائیاں کرنے سے روکنے کے لیے کام کرے گا۔اس سلسلے میں ہم امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کیساتھ تعاون کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کو امریکی فوجی مدد اور نام نہاد ”کواڈ“ کا مقصد چین کا راستہ روکنا ہے ۔ بھارت کی جانب سے بے تحا شا اسلحہ خریداری کا مقصد جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط قائم کرنا اوربالخصوص پاکستان کو دھمکانا ہے۔

تمام بھارتی فوجی صلاحیتوں میں سے ستر فیصد چین نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف تعینات کی ہیں ، اس لیے پاکستان کو بھارت کو جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے بارے میں جائز تحفظات ہیں۔