تحریک ختم نبوت کے درخشاں ستارے

September 26, 2021

تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی۔۔۔بریڈ فورڈ
7 ستمبر 1974ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو تاقیام قیامت اسلام کی سچائی اور خاتم الانبیاءﷺ کی صداقت وعظمت کی دلیل بنا رہے گا۔ایسا کارنامہ جس پر یقیناً پاکستانی قوم فخر کرسکتی ہے ،تحریک ختم نبوت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں نے بڑامعرکہ سر کیا ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جنہیں عملی طور پردین کےساتھ کوئی خاص لگاؤاور تعلق نہیں تھا لیکن اللہ تعالی ان سے خوش تھااس لیے وہ کام لیا جو باذن اللہ ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کاذریعہ بنے گاان لوگوں میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اور اٹارنی جنرل یحیٰ بختیار کانام بہت نمایاں ہے ۔ اللہ کریم سے ہمیشہ دعا کرنی چاہیئے کہ وہ ان کے اس عمل کوقبول فرماتے ہوئے ان کی مغفرت فرمائے ۔ طویل مشاورت، مباحثے ، مکالمے، وضاحتوں ، سوالات ، جوابات اور تنقیح و تجزیے کے بعد بالآخر قومی اسمبلی نے متفقہ فیصلہ سنا دیا کہ منکرین ختم نبوت کے دونوں گروہ غیر مسلم ہیں، اس نتیجے تک پہنچنے سے پہلے جو قانونی اقدامات کیے گئے ، ان میں ایک یہ تھا کہ پوری اسمبلی کو ’’اسپیشل کمیٹی‘‘ کی حیثیت دی گئی اور ساتھ ہی اسے باقاعدہ عدالتی اختیارات دئیے گئے ، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ منکرین ختم نبوت کے دونوں گروہوں کے نمائندوں کو بلاکر ان کا موقف سنا جائے ، ان پر جرح کی جائے اور اس کے بعد فیصلہ سنایا جائے ۔ اسی بنا پر یہ ذمہ داری اس وقت کے اٹارنی جنرل یحیٰ بختیار کے کاندھوں پر ڈالی گئی کہ دونوں گروہوں کے نمائندگان سے سوالات وہی کریں گے ، یہ پوری کارروائی اب شائع بھی ہوچکی ہے اور قانون کے ہر طالب علم کو میں یہ مشورہ دوں گا کہ ایک بار ضرور یہ پوری کارروائی پڑھیں ،اس میں نہ صرف آپ کو چند نہایت اہم سوالات کے جواب مل جائیں گے بلکہ وہ بہت ساری الجھنیں بھی دور ہوجائیں گی جو اس مسئلے پر لوگ خواہ مخواہ ہی پیدا کررہے ہیں، مزید یہ کہ آپ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ جرح کیسے کی جاتی ہے ، یحیٰ بختیار نے جس طرح سوال کے بعد سوال ، مختلف اطراف سے سوال اور استدراج کے ذریعے بالآخر ان کے منہ سے ہی وہ بات کہلوائی جس سے وہ گریزاں تھے ، یہ سب کچھ نہایت قابلِ تحسین ہے اور قانون کے طالب علموں کے لیے اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ، یہ بھی دیکھئے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کسی بھی عبارت سے استدلال کرنے سے قبل کیسے وہ پہلے اس عبارت کا مسلمہ ہونا ثابت کرتا تھا ۔ یہ کارروائی پڑھنے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دوسرے فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ، یا ان کا موقف توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، اہم بات یہ ہے کہ کارروائی میں آپ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ یحیٰ بختیار وقفے میں بار بار اسمبلی کے اراکین ، باالخصوص علمائے کرام سے مخاطب ہوکر یہ استدعا کرتے کہ جلدی نہ کریں اور ان کو پورا وقت دیں، وہ بار بار یہ بھی کہتے نظر آتے کہ جو کچھ آپ ان سے سننا چاہتے ہیں میں اسی کی طرف ان کو لارہا ہوں لیکن یہ سب کچھ آہستہ آہستہ ہوگا اور اس میں وقت لگتا ہے تو لگنے دیں ۔ یقیناً سوالات جن ارکانِ اسمبلی ،باالخصوص علمائے کرام، نے بناکر دئیے تھے وہ بھی داد کے مستحق ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے لیکن یہ بھی دیکھیے کہ ان سوالات کی ترتیب کس نے قائم کی اور پھر ان سوالات کے ذریعے بات اگلوائی کس نے ، آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ یحیٰ بختیار علمائے کرام سے اور دیگر ارکانِ اسمبلی سے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جو فلاں سوالات آپ نے دئیے تھے وہ ٹھیک نہیں تھے اور براہ کرم مجھے کمزور قسم کے دلائل یا غیرثابت شدہ امور نہ دیں، مزید یہ کہ جگہ جگہ آپ کو یہ بھی مل جائے گا کہ خود اٹارنی جنرل نے اس موضوع پر کتنا تفصیلی مطالعہ کیا تھا اور باوجود بے انتہا مصروف ہونے کےکس طرح انھوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ یہ مقدمہ لڑا ۔ ایک جگہ وہ اسمبلی کو میٹنگز کی تفصیل بتاتے ہیں جن کو نمٹا کر وہ اسمبلی میں آئے ہوتے ہیں اور اسمبلی کے بعد پھر چند اہم میٹنگز میں جارہے ہوتے ہیں، یقین کیجیے کہ اس موقع پر تو بے ساختہ ہی دل سے ان کے لیے دعا نکلی۔ جگہ جگہ آپ کو یحیٰ بختیار کے ادبی ذوق کی داد دینے پر بھی خود کو مجبور پائیں گے ، بالخصوص جب وہ غالبؔ کا کوئی شعر پڑھیں ۔ جن امور پر اس کارروائی میں تفصیلی سوالات اور جوابات کا سلسلہ چلا ہے ان میں چند ایک یہ ہیں ، کیا ریاست کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے ؟ کیا قانون میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے سے کسی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ؟ کیا جو خود کو احمدی کہتے ہیں وہ عام مسلمانوں کی جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے ، تکفیر کرتے ہیں ؟ سر ظفر اللہ خان نے قائد ِ اعظم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کیوں نہیں کی ؟ تقسیمِ ہند کے موقع پر احمدیوں کا طرزِ عمل کیا رہا اور انھوں نے عام مسلمانوں سے خود کو الگ کیوں شمار کروایا؟ کشمیر کے تنازع میں احمدیوں کا کیا کردار رہا اور انھوں نے کس طرح کشمیری مسلمانوں کے خلاف کارروائی میں دوسرے فریق کا ساتھ دیا؟ احمدیوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے ؟ احمدیوں کا وہ گروہ جو بظاہر مرزا غلام قادیانی کو محض مجدد مانتا ہے کیوں عام احمدیوں سے جو کھلے عام مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں ، زیادہ خطرناک ہے؟ احمدیوں کے دونوں گروہوں کا اصل تنازع مذہبی ہے یا سیاسی و مالیاتی امور پر اختلاف کا شاخسانہ ہے ؟ یہ اور اس طرح کے دیگر نہایت اہم امور پر اس کارروائی میں پوری تفصیل ملتی ہے جس کے بعد ہی قومی اسمبلی نے یہ فیصلہ سنایا جس طرح کا موقع احمدیوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے دیا ایسا موقع کسی کو شاید ہی کبھی دیا گیا ہو ۔ اس کے بعد ہی پوری اسمبلی نے علی الوجہ البصیرت یہ اعلان کیا کہ یہ دونوں گروہ غیر مسلم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس اسمبلی کے تمام ارکان اور باالخصوص ذوالفقار علی بھٹو،عبدالحفیظ پیرزادہ ، یحیٰ بختیار اور ان تمام شرکاء پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور انھیں بہترین اجر سے نوازے ! آمین۔