پاکستان ہندوستان سے پیچھے کیوں ہے

July 31, 2013

ایک امریکی ہندوستانی خاتون نیشا ڈیسائی بسوال کو پہلی مرتبہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے لئے نائب وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ (ایڈ) میں ایک اور ہندوستانی امریکی راجیو شاہ کی نائب تھیں۔ اب پاک امریکہ معاشی اور سیاسی تعلقات کے اہم پہلو ہندوستانی امریکیوں کے ہاتھ میں ہوں گے۔ اسی طرح امریکہ کے دوسرے محکموں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ہندوستانی امریکی نمایاں حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا میں ہندوستانی کینیڈین پارلیمینٹ اور حکومت کا بہت بڑا حصہ بن چکے ہیں۔ ہندوستانی معیشت خود دنیا کی دوسری بڑی تیز تر ترقی پر گامزن ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی نہ تو شمالی امریکہ میں کوئی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ پاکستان کی معیشت ہندوستان سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ پاکستانی اپنی آبادی کے تناسب سے بھی ہندوستانیوں سے بہت پیچھے ہیں، غالباً اس کی کئی تاریخی وجوہات ہیں۔
دو امریکی ریاستوں کے گورنر ہونے کے علاوہ اس وقت ہندوستانی امریکی کئی درجن محکموں میں ڈپٹی سیکرٹری اور اہم حکومتی اداروں کے سربراہ ہیں۔ استعارے کے طور پر اس وقت چوبیس ہندوستانی اوباما کے ایڈوائزری پینلوں کے سربراہ ہیں یا ان کے ممبر ہیں۔ خود وائٹ ہاوٴس کے عملے میں بہت سے ہندوستانی شامل ہیں۔ اسی طرح کینیڈا کی قومی پارلیمینٹ میں نو ہندوستانی کینیڈین ہیں اور تین وزرائے مملکت ہیں۔ کینیڈا کے اونٹاریو اور برٹش کولمبیا کے صوبوں میں ہندوستانیوں کا اثر و رسوخ اس حد تک ہے کہ کینیڈین میڈیا الزام تراشی کرتا ہے کہ کینیڈا کی اہم پالیسیاں ہندوستانی کینیڈین طے کرتے ہیں۔ برٹش کولمبیا میں تو ایک ہندوستانی کینیڈین سکھ، اجل دوسانجھ وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔
یہ امر واضح رہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہندوستان پاکستان سے بہت آگے ہے۔ اس کی سادہ سی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے یا وہ اپنی افغان پالیسی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے حصے پر ماوٴسٹ گوریلوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے دہشت گردی سے متاثرہ علاقے فاٹا اور پاٹا سے کہیں زیادہ ہے۔ ہندوستان بھی بہت حد تک افغانستان میں الجھا ہوا ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ ہندوستان کی حکومت شفاف اور بدعنوانیوں سے پاک ہے کیونکہ وہاں بھی ہر روز اربوں روپوں کے اسکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی رشوت ستانی اور اقربا پروری عروج پر ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان پاکستان سے ہر میدان میں کئی سو گنا آگے ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی گوناگوں وجوہات میں سے مندرجہ ذیل نہایت اہم ہیں۔
اول: آزادی سے پیشتر انگریز راج تک ہندو اور کسی حد تک سکھ آج کے پاکستان کے نظام پر اجارہ داری رکھتے تھے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تمامتر شہری کاروبار اور سرکاری و نجی شعبوں پر ہندو غالب تھے۔ دلچسپ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور میں شہروں کے درمیانے اور اعلیٰ طبقے نے تبدیلی مذہب نہیں کی اور حسب سابق حکومتی اور کاروباری نظام انہی کے ہاتھ میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دیہاتوں میں کسانوں اور شہروں میں دستکار اور مزدورں پر مشتمل تھی مثلاً لاہور کے مشہور بازاروں انارکلی اور مال روڈ پر فقط دو تین مسلمانوں کی دکانیں تھیں باقی سب ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھ میں تھا۔ مسلمان جاگیردار تھے لیکن ان کا مسلمان عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان کا مفاد مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے میں تھا۔ تقسیم ہندوستان کی وجہ سے ہر طرح کی مہارت رکھنے والے ہندو اور سکھ ہجرت کر کے بھارت سدھار گئے۔ پسماندہ مسلمانوں کے لئے ایک نیا ملک چلانا کار دارد تھا۔ اس لئے ایک تو تاریخی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں تعلیم، کاروباری صلاحیتوں اور مہارتوں کی سطح پاکستان کے مقابلے میں شروع سے ہی بلند تر تھی۔ہندوؤں نے یہ صلاحیتیں کئی ہزار سالوں میں حاصل کی تھیں اور پاکستان کو ہندوؤں کی سطح پر پہنچنے کے لئے کئی نسلوں کا تجربہ درکار تھا۔ پاکستانیوں نے یہ فاصلہ تیزی سے طے کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ تاریخی جبر ہے کہ اس میں مزید وقت درکار ہے۔
دوم: ہندوستان نے آزادی کے چند برسوں کے اندر ہی زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا۔ اس وجہ سے امور سلطنت و کاروبار میں درمیانے طبقے کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ اسی سے اندازہ لگائیے کہ ہندوستان میں زیادہ تر وزرائے اعظم درمیانے طبقوں سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پاکستان میں جاگیردار یا پھر متمول سرمایہ کار طبقوں کے افراد اس گدی پر بیٹھتے رہے ہیں۔ ہندوستان میں جاگیرداری کے خاتمے سے تعلیمی اور صنعتی شعبوں میں بھی تیز تر ترقی ہوئی۔ پاکستان میں بھی وسطی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں ترقی کی شرح بلند تر رہی ہے جہاں جاگیرداری کا غلبہ نہیں تھا جبکہ جنوبی پنجاب اور سندھ جاگیرداری تسلط کی وجہ سے کم ترقی کر پائے ہیں۔
سوم: جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے تقسیم ہندوستان سے پیشتر صنعتی اور کاروباری صلاحیتیں زیادہ تر ہندوؤں تک محدود تھیں۔ آزادی سے پیشتر برلا اور ٹاٹا جیسے صنعت کار انگریز سرمایہ کاروں کے ہم پلہ تھے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے حصے میں کوئی بڑا صنعت کار گروپ نہیں آیا تھا۔ پاکستان میں تاجر طبقہ ہی سرمایہ دار بنا۔ تاجر طبقے کی نفسیات صنعت کاروں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ تاجر فوری منافع کمانا چاہتے ہیں جبکہ صنعت کار طویل المیعاد سرمایہ کاری سے منافع کا خواہاں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کا سرمایہ دار طبقہ دنیا بھر کے صنعت کاروں سے مقابلہ کر رہا ہے جبکہ پاکستانی سرمایہ دار آج بھی اپنی ریاست کی مدد کا طلب گار رہتا ہے۔ پاکستان کا سرمایہ دار عالمی سطح پر مسابقت کی قوت نہیں رکھتا بلکہ ریاست سے ہر طرح کی مراعات لے کر اپنی منافع خوری کی روش پررواں دواں ہے۔
چہارم:جب تک ہندوستان اور پاکستان کی معیشتوں میں زرعی شعبہ غالب تھا دونوں ملکوں کی ترقی کی رفتار میں بہت بڑا فرق نہیں تھا کیونکہ پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینیں اجناس کی پیداوار میں بہت پیچھے نہیں تھیں لیکن اب جب زرعی شعبہ کل معیشت کا ایک چوتھائی تک محدود ہو گیا ہے اور صنعت اور ٹیکنالوجی بڑے سیکٹر بن گئے ہیں تو ہندوستان کی ترقی کی رفتار پاکستان سے کہیں تیز تر ہو گئی ہے۔ ٹیکنالوجی اور صنعت کاری میں جن صلاحیتوں اور مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تاریخی طور پر ہندوستان کے پاس زیادہ تھیں جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ مزید برآں ہندوستان تارکین وطن نے بھی اپنی مادر وطن میں بہت سی ٹیکنالوجی اور دوسری کلیدی صلاحیتیں منتقل کی ہیں۔ جس طرح سے ہندوستانی تارکین وطن شمالی امریکہ اور یورپ میں عروج پذیر ہو رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آبائی ملک کے لئے پہلے سے بڑھ کر مختلف علوم و فنون منتقل کریں گے۔
پنجم: ہندوستان کا سیاسی نظام کافی مضبوط تھا لہٰذا جب زرعی معاشرہ تیزی سے صنعتی دور میں ڈھلا تو وہ اس کے لئے تیار تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا نظام کافی ناتواں تھا اور وہ تیز تر تبدیلی کا متحمل نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے تیس سالوں میں بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے طوائف الملوکی میں اضافہ ہوا ہے جس کے دوررس نتائج ہیں۔ پاکستان کو اپنی تاریخی کمزوریوں کو سمجھتے ہوئے ہمہ جہت ترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ ہر مشکل صورتحال کا کوئی حل ہوتا ہے اور پاکستان کو اسے تلاش کرنا چاہئے۔