اسمگلنگ کی روک تھام میں ادارے ناکام

October 10, 2021

ملک میں اسمگلنگ عروج پر ہے اور اسمگلروں کو مبینہ طور پر بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ملک کی زیادہ تر اجناس بیرون ملک اسمگل ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ملک کو آٹا اور چینی کے بحران کا سامنا رہتا ہے۔ بیرونی ممالک سے الیکٹرونک سامان اسمگل ہوکر آتا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت پر اثرات بد مرتب ہورہے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے متعدد مرتبہ متعلقہ محکموں کو واضح طور پر احکامات جاری کیے ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں پہنچنے والے نقصان اور ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لئے اسمگلنگ کے کاروبار کو روکا جائےاور اس کے لیے کسٹم سمیت متعلقہ محکمے سخت سے سخت اقدامات کریں۔، تاہم اس کے باوجود محکمہ ایف بی آر ، کسٹم و دیگر متعلقہ محکموں کی عدم توجہی کے باعث اسمگل شدہ مصنوعات کی ملک میں آمد اور ان کی خرید و فروخت کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے،جس کی وجہ سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں خطیر رقم کا نقصان پہنچ رہا ہے۔

اس غیرقانونی کاروبار سے قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان سے بچانے اور اس گھناؤنے کاروبار کو روکنے کے لئے ایف بی آر، کسٹم اور دیگر محکمے قائم ہیں لیکن سکھر سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں غیر ملکی اشیاء کی خرید و فروخت کا کاروبار عروج پر ہے ۔ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہ ہونے کے باعث ملک کی تمام مارکیٹیں نان کسٹم پیڈ اشیاء سے بھری ہوئی ہیں۔

اسمگلنگ کی انسداد کے محکموں کی جانب سے جو کارروائی کی جاتی ہے اس کی مثال اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔محکمہ کسٹم سکھر کی جانب سے چند ماہ کے دوران دو کارروائیوں میں بھاری مقدار میں چرس پکڑنے کا دعوی کیا گیا لیکن روایتی طور پر ان کارروائیوں میں ملزمان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، شاید وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھاپوں کے دوران آخر ملزمان گرفتاری سے بچ نکلنے میں کیوں کامیاب ہوتے ہیں ؟ اس کی وجہ کسٹم حکام نے ایسی بتائی کہ جسے سن کر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزمان کی گرفتاری تو دور کی بات اسمگلنگ کی روک تھام انتہائی مشکل کام ہے۔

گزشتہ دنوں محکمہ کسٹم نے سندھ بلوچستان کے بارڈر پر کباڑ سے بھرے ٹرک سے کئی کروڑ روپے کی مالیت کی 650 کلو گرام چرس پکڑنے کا دعویٰ کیا، لیکن اس کاروائی میں وہ کسی بھی شخص کی گرفتاری میں ناکام رہی۔ اس کی وجہ کسٹم حکام کی جانب سے مال بردارٹرک اور ٹرالر وں کی تیز رفتاری بتائی جاتی ہے۔اسسٹنٹ کلکٹر کسٹم سکھر، عرفان منگی نے میڈیا کو بتایا کہ ہمارے پاس ڈبل کیبن گاڑیوں کا مسئلہ ہے۔

صرف 3 گاڑیاں فعال حالت میں ہیں جب کہ جو گاڑیاں موجود ہیں ان کی مرمت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیکب آباد سے جو گاڑیاں آتی ہیں ان کی رفتارکم سے کم 160 سے 170کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہےکسٹم اہل کار ، سڑک کے درمیان کھڑے ہوکر ان کو روکنے کے لئے لائٹس دیتے ہیں لیکن وہ تیزرفتاری کے ساتھ ناکے سے نکل جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم اسمگلروں کو گرفتار نہیں کرتے ۔

چند روز قبل کسٹم حکام نے سکھر سبزی منڈی میں کھڑے ایک ٹرک پر چھاپہ مار کر 138 کلو گرام چرس برآمد کرنے کا دعوی ٰکیا تھا، لیکن اس کارروائی میں بھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اے سی کسٹم نے جیکب آباد کی جانب سے آنے والی مال بردار گاڑیوں کی جو رفتار بتائی ہے ، وہ حیران کن ہے۔ نمائندہ جنگ نے سکھر کےایک گڈز ٹرانسپورٹر سے اس حوالے سےرابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی ٹرک یا ٹرالر جو لوڈ ہوگا اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 35 سے 45 کلو میٹر کے درمیان ہوتی ہے جب کہ خالی گاڑیوں کی بھی حد رفتار 50 سے 60 کلو میٹر ہوتی ہے۔

حیران کن اور قابل غور بات یہ ہے کسٹم حکام کےبیان کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اگر مال بردار گاڑی کی رفتار کم سے کم160 سے 170کلومیٹر ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ رفتار کیا ہوگی؟جب اس طرح کی صورتحال درپیش ہو تو وفاقی حکومت اور ایف بی آر کو اتنی تیز رفتار گاڑیوں کو روکنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ سڑک کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کا کام مسافر ٹرینوں کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔ ریلوے کی مسافر ٹرینوں ، خاص طور پر کوئٹہ سے راولپنڈی کے درمیان چلنے والی جعفر ایکسپریس ، لاہورسے کراچی کے درمیان چلنے والی مسافر ٹرینوں کے ذریعے ماہانہ کروڑوں روپے کا اسمگل شدہ سامان مختلف شہروں میں پہنچایا جاتا ہے۔

اس کام میں ریلوے پولیس اور ریلوے کے بعض افسران و اہل کار، بالخصوص بکنگ کا عملہ مبینہ طور سے اسمگلنگ کے سامان کی ترسیل میں ملوث ہے، جس کے باعث قومی خزانے کوبھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ ٹرینوں کے ذریعےسامان کی ایک شہر سے دوسرے شہر یا مقام پر منتقلی کے لئے ریلوے پولیس کی جانب سے چیکنگ، سامان کی بکنگ کرانے والے کے کوائف اور سامان پر کلیئرنس کا اسٹیکر لگایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن بکنگ کا عملہ سامان بکنگ کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اسمگل شدہ سامان کی بکنگ کرکے ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے میں مبینہ طور پر معاونت کررہا ہے۔

متعدد مرتبہ سکھر کسٹم یا کسٹم انٹیلی جینس کی جانب سے جعفر ایکسپریس سمیت دیگر مسافر ٹرینوں میں کارروائی کرکے بھاری مالیت کا اسمگل شدہ سامان پکڑا گیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ محکمہ ریلوے کے ذریعے بھی اسمگلنگ کا کام جاری ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ٹرینوں کے ذریعے اسمگلنگ کی تمام تر صورتحال سے محکمہ ایف بی آر اور کسٹم سمیت متعلقہ محکموں کے حکام بہ خوبی واقف ہیں لیکن اس کی روک تھام کے لئے وفاقی حکومت، وزارت ریلوے، وزرات خزانہ نے کوئی اقدامات نہیں کئے ۔

سکھر غیرقانونی طور پر لائی جانے والی غیر ملکی مصنوعات کی بڑی منڈی بن گیا ہے۔سکھر ڈویژن تین صوبوں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔اسمگل شدہ مصنوعات جن میں الیکٹرونکس آئٹم، گریس، گاڑیوں کے پرزہ جات، ایرانی پٹرول و ڈیزل ،ٹائرز، منشیات، پان پراگ، گٹکے و دیگر اشیاء غیر قانونی طور سے سکھر لائی جاتی ہیں ۔ یہاں یہ تمام مارکیٹوں میں فروخت ہوتی ہیں۔ملک کے تمام شہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد ان اشیاء کی خریداری کے لئے سکھر آتی ہے۔ محکمہ کسٹم کے افسران نے اس کاروبار کی جانب سے چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔

بلوچستان و پنجاب سےاسمگل شدہ سامان ، ٹرک اور ٹرالروں کے ذریعے سکھر کی مارکیٹوں میں پہنچتا ہےجہاں سے یہ خیرپور، گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، اوباڑو، ڈہرکی، نوشہرو فیروز، نواب شاہ، سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بھیجا جاتا ہے۔ سکھر کے اہم تجارتی مراکز ،نشتر روڈ، ریشم گلی، چمٹا گلی، لیاقت چوک، بیراج روڈ، گھنٹہ گھر چوک، الیکٹرونک مارکیٹ، ڈھک روڈ، پان منڈی، بیراج روڈ سمیت دیگر علاقوں میں غیر ملکی مصنوعات کی بھرمار ہے۔یہ مصنوعات بلوچستان و دیگر علاقوں سےٹرکوں اور ٹرالرز میں لاد کر سکھر کی منڈیوں تک لائی جاتی ہیں۔

غیر ممالک سے لائی جانے والی مصنوعات اور منشیات کی بکنگ دیگر اشیاء کے نام سے کرائی جاتی ہے لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ بکنگ کرانے والے کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹرز کوبھی اس کا علم ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام میں کسٹم اور دیگرادارے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، اس کی وجہ شاید سیاسی دباؤ بھی ہے۔ شہری و عوامی حلقوں نے وزیر اعظم، چیئرمین ایف بی آر، کلکٹر کسٹم ودیگر بالا حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سکھر میں کسٹم افسران کی ناقص کارکردگی کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے اور نااہل کسٹم افسران و اہل کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔