• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعہ 23جون کو برطانیہ میں ہونیوالے ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین کو چھوڑنے کا جو فیصلہ دیا ہے ، وہ اگرچہ ایک ملک کے عوام کا جمہوری فیصلہ ہے لیکن یہ ایک ایسا فیصلہ ہے ، جس کے بارے میں تاریخ طویل عرصے تک برطانوی عوام سے یہ سوال کرتی رہے گی کہ اس نے ایسا فیصلہ کیوں کیا ۔ اس غیر معمولی فیصلے سے نہ صرف برطانیہ کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ یورپ سمیت پوری دنیا کی سیاست تبدیل ہو جائے گی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ عالمی سیاست کا موجودہ دھارا اپنا رخ تبدیل کر لے گا تو غلط نہ ہو گا ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد یہ یورپ کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔ پورا یورپ اس وقت سکتے کے عالم میں ہے کیونکہ متحدہ یورپ کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ خود برطانیہ میں بھی بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے ۔ براعظم یورپ میں برطانیہ بحیثیت ریاست اور برطانوی قوم کی مستقبل کی پالیسیاں کیا ہوں گی ، اس بارے میں کسی کے پاس بھی واضح روڈ میپ نہیں ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکمراں کنزرویٹو پارٹی کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ برطانیہ کو اب آگے لے جانے کیلئے کسی اور کپتان کی ضرورت ہے ۔
یورپی اتحاد کے خیال نے دوسری جنگ عظیم کے بعد انتہا پسندانہ قوم پرستی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے جنم لیا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم میں تنگ نظر قوم پرستی اپنے عروج پر تھی اور یورپی اقوام کے درمیان مضبوط ترین رشتہ صرف نفرت کا تھا ۔ جنگ عظیم کا اصل میدان یورپ ہی تھا ۔ یورپی اقوام ایک دوسرے لڑ رہی تھیں ۔ سرحدیں محفوظ نہیں تھیں ۔ جرمن ، فرانسیسی اور روسی سب اپنے آپ کو بالادست قومیں قرار دے رہے تھے ۔ قوم پرستی فسطائیت ( فاشزم ) کی شکل اختیار کر چکی تھی ۔ یورپ قتل عام اور عالمگیر بربادی کی سرزمین بن گیا تھا ۔ اس عظیم بربادی کے بعد یورپی اقوام کو یہ احساس ہوا کہ نفرتیں ختم کرکے محبت کا رشتہ قائم کیا جائے اور لاکھوں افراد کا خون ایک دوسرے کو معاف کر دیں ۔ انہوں نے بہت پرانی لڑائیوں کو فراموش کیا ۔ شہروں اور ملکوں کی تباہی کی درد ناک یاد داشتوں سے نجات حاصل کی اور جنگ عظیم دوئم کے بعد براعظم یورپ کو ایک متحدہ اور قومی حدود سے ماورا ( Supranational ) خطہ بنانے کیلئے کام شروع کر دیا ۔ یورپی اتحاد کا آئیڈیا دینے والوں نے یورپی اقوام کو بتایا کہ وہ اپنی اپنی قومی شناخت قائم رکھتے ہوئے اپنی معیشت کو بہتر بنائیں ۔ عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لائیں اور تسخیر کائنات کے حوالے سے مل کر جدوجہد کریں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں جنگوں پر خرچ کرنے کی بجائے امن ، ترقی اور خوش حالی کیلئے استعمال کریں ۔ یورپی اتحاد کا عمل 1945 ءسے شروع ہو گیا تھا اور بالآخر 1992 میں ماسٹرش معاہدے ( Maastricht Treaty ) کے نتیجے میں یورپی یونین وجود میں آئی ۔ یہ اگرچہ دنیا کے ایک امیر خطے کی قوموں کا علاقائی معاہدہ تھا لیکن یہ تیسری دنیا کیلئے ایک امید افزاء بات تھی ۔ ایشیا ، افریقہ ، لاطینی امریکہ میں اس علاقائی اتحاد کی مثالیں دی جاتی تھیں کیونکہ تیسری دنیا میں علاقائی اتحادوں یا بلاکس کی تشکیل پر کام بھی جنگ عظیم دوئم کے بعد شروع ہو گیا تھالیکن بہت سارے ایشیائی، جنوبی ایشیائی، لاطینی امریکہ، افریقہ اور مشرقی وسطی میں اس طرف پیش قدمی ہو رہی تھی اور ان علاقائی تنظیموں یا بلاکس کو عالمی سامراج سے نجات کیلئے مشترکہ فورمز تسلیم کیا جاتا تھا ۔ تیسری دنیا میں اگرچہ یورپی یونین کی طرز پر کوئی سپرانیشنل ( Supranational ) یونین نہیں بن سکی لیکن یورپی یونین کی کامیاب مثال سے تیسری دنیا کے لوگ پرامید تھے ۔ وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ جن خطوں کی اقوام تہذیبی اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں ، وہ قومیں بھی آپس کی لڑائیوں اور جنگوں میں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی بجائے مل کر ایک دوسرے کی ترقی اور خوش حالی کیلئے کام کریں لیکن برطانوی عوام کے فیصلے نے تیسری دنیا کے لوگوں کی امیدوں کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ یہاں علاقائی اتحادوں کی تشکیل کی کوششوں کو نہ صرف نقصان پہنچے گا بلکہ یہ خطے مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہونگے ۔
برطانوی عوام کے اس فیصلے سے تیسری دنیا سمیت ترقی یافتہ دنیا پر بھی دورس اثرات مرتب ہوں گے ۔ ہم 21 ویں صدی کو امن ، محبت اور تسخیر کائنات کی صدی سمجھتے تھے اور ہمارا خیال یہ تھا کہ پچھلی صدی میں جنگوں اور تضادات سے جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں ، ہماری نسلیں اس صدی میں ان تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ اس صدی کے آغاز میں پر امن خطے تھے اور جنگ و جدل سے دور نظر آتے تھے لیکن گزشتہ ایک دو عشروں سے یہ خطے بدامنی ، خونریزی اور تقسیم در تقسیم کے عمل سے دوچار ہیں ۔ اب یورپ بھی اسی راستے پر چل پڑا ہے ۔ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے کے فوری نقصان دہ اثرات برطانیہ پر ہی مرتب ہوں گے ۔ بعض حلقے تو یہ بھی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ برطانیہ ٹوٹ جائے گا ۔ برطانیہ چار ریاستوں انگلینڈ ، ویلز ، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ پر مشتمل ہے ۔ اسکاٹ لینڈ کے زیادہ تر لوگوں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے ۔ وہ برطانیہ کے مجموعی فیصلے کے برعکس ہے ۔ اس سے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے علیحدگی پسند مضبوط ہوں گے اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی آزادی کیلئے ریفرنڈم کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ آئر لینڈ میں بھی اسی طرح کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔ آئرلینڈ دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ ایک شمالی آئرلینڈ ہے ، جہاں پروٹسٹنٹ رہتے ہیں اور وہ برطانیہ کا حصہ ہے جبکہ شمال میں آئرش ری پبلک ہے ۔ شمالی آئرلینڈ نے بھی یورپی یونین کے ساتھ رہنے کا فیصلہ دیا ہے ۔ شمالی آئرلینڈ اور آئرش ری پبلک کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی یورپی یونین کے قوانین اور آزادانہ نقل و حرکت کی وجہ سے کم ہو گئی تھی ۔ اب یہ کشیدگی دوبارہ بڑھ سکتی ہے ۔ یہ تو برطانیہ کے داخلی چیلنج ہیں۔ یورپی یونین کو بطور یونین برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ فرانس اور یونین کے دیگر رکن ممالک بھی اس یونین سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ یورپی یونین کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ برطانیہ کا یہ فیصلہ انتہاپسندی کا اظہار کرتا ہے انتہا پسندی کسی قسم کی بھی ہوقومی، مذہبی، ثقافتی ترقی سب سے زیادہ امن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہو تی ہے۔ پچھلے دو عشروں سے دنیا میں ہر جگہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور تشدد کی جو لہر آئی ہوئی ہے،برطانیہ کے اس فیصلے سے اس میں اضافہ ہوگا۔
برطانیہ برصغیر پر 200سال تک حکمرانی کرتا رہا ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کا برطانیہ سے بہت پرانا رشتہ ہے ۔ برطانوی تہذیب و ثقافت کے یہاں گہرے اثرات ہیں ۔ ہمارا عدالتی ، سیاسی اور حکومتی نظام برطانیہ سے بہت قریب ہے ۔ ہم لندن کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ بے شمار پاکستانی برطانیہ میں رہتے ہیں ۔ 23 جون کے ریفرنڈم سے برطانیہ میں موجود پاکستانیوں سمیت تمام تارکین وطن کیلئے غیر یقینی صورت حال پیدا ہو جائے گی ۔ ہمارے لوگوں کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، جو وہاں تعلیم ، روزگار اور تجارت کی غرض سے موجود ہیں کیونکہ تارکین وطن پر پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں ۔
سب سے اہم بات ، جس پر کوئی غور نہیں کر رہا ، وہ یہ ہے کہ یورپی یونین کی وجہ سے رکن ممالک کی معیشت مضبوط ہو رہی تھی اور ان ممالک کو امریکہ اس طرح اپنے سامراجی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا ، جس طرح یونین بننے سے پہلے انہیں استعمال کرتا تھا ۔یورپی یونین کی مشترکہ معیشت کے ساتھ ساتھ مشترکہ خارجہ پالیسی کے خدو خال بھی واضح ہو رہے تھے۔ یورپی یونین کی وجہ سے دنیا کے ’’ یونی پولر ‘‘ ہونے کا تصور آہستہ آہستہ زائل ہو رہا تھا لیکن اب یہ تصور دوبارہ مضبوط ہو گا ۔یورپی یونین کے ایک طاقتور بلاک کی وجہ سے عالمی سیاست جس دھارے پر چل رہی تھی ، وہ دھارا تبدیل ہو سکتا ہے ۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ نفرتوں کی چنگاریوں کو دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحاد کی جس مٹی تلے دبا دیا گیا تھا ، وہ مٹی اب اڑنے لگی ہے اور ان چنگاریوں کے دوبارہ بھڑکانے کےحالات پیدا ہو سکتے ہیں ۔ دنیا کروٹ لے رہی ہے ۔ اگر یورپ میں کوئی آگ بھڑکتی ہے تو اسکی تپش پوری دنیامحسوس کرے گی ۔
تازہ ترین