• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی سٹی پارلیمنٹ کے نومنتخب اراکین میں سب سے کم عمر رکن حسن نواز کا بنیادی تعلق پاکستان کے ضلع گجرات سے ہے، ناروے کی مقامی حکومت اور بلدیاتی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران جو گزشتہ ہفتے مکمل ہوئے، متعدد پاکستانیوں نے بھی نبرد آزمائی کی۔

اوسلو سٹی کی59 رکنی اسمبلی کے لیے مختلف پارٹیوں کی طرف سے 22 پاکستانی نژاد امیدوار میدان میں اترے جن میں سے کچھ پرانے چہرے اور کچھ نوخیز تھے، موصولہ نتائج کے مطابق کئی پرانے چہرے منتخب نہیں ہوسکے، البتہ بہت سے نوجوان نئی امیدوں کے ساتھ کہنہ مشق سیاست دانوں پر سبقت لے گئے ہیں۔

اوسلو کی سٹی پارلیمنٹ کے نومنتخب 21 سالہ رکن حسن نواز جن کے دادا چوہدری محمد نواز اپنے گاؤں گلیانہ تحصیل کھاریاں سے بہتر معاش کی تلاش میں 70ء کی دہائی میں ناروے آئے تھے، ناروے میں پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری جہانگیر نواز گلیانہ کے فرزند ہیں، حسن نواز نے پارٹی ووٹ کے علاوہ بہت سے ذاتی ووٹ بھی حاصل کیے ہیں اور ان کی کل ووٹوں کی تعداد 1539 ہے۔

حسن نواز جو اس وقت اوسلو کی ایک مقامی یونیورسٹی میں بیچلر فنانس کے طالبعلم ہیں، اسکول ہی کے زمانے سے دائیں بازو کی جماعت ھورے پارٹی سے منسلک ہیں، وہ 4 سال اسی پارٹی کے اوسلو میں یوتھ ونگ کے نائب صدر رہے اور اب ڈیڑھ سال سے سینئر نائب صدر ہیں۔

اوسلو سٹی پارلیمنٹ کے نتائج مزید بتاتے ہیں کہ اس بار حسن نواز کے علاوہ کامیاب ہونے والے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر پاکستانی نژاد امیداروں میں چوہدری غضنفر اقبال ڈینی، اویس اسلم، صوفیہ رانا اورسائیدہ روشنی بیگم بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ کچھ پاکستانی متبادل (قائم مقام) یا معاون رکن اوسلو سٹی پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹر مبشر بنارس، طلعت محمود بٹ، افشاں رفیق، علی ابوبکر، منصور حسین، فرخ قریشی، عثمان آصف، روبینہ سید اور ناصر احمد مشتاق قابلِ ذکر ہیں۔

ان معاون اراکین میں سے بعض کے مستقل رکن بننے کے بھی امکانات ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ غضنفر ڈینی جو تحصیل کھاریاں کے گاؤں کوٹھا سے ہجرت کر کے بچپن میں ہی ناروے آگئے تھے، کافی عرصے سے ناروے کی سیاست میں سرگرم ہیں۔

ٹول ٹیکس مخالف نئی جماعت کے رکن غضنفر ڈینی کا کہنا ہے کہ مقامی حکومتوں میں نئی پارٹیوں کی شمولیت کے ساتھ ناروے کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اس کے اثرات قومی سیاست پر بھی ہوں گے۔

ڈاکٹر مبشر بنارس انتخابی مہم کے دوران علیل ہوگئے تھے، اسی وجہ سے ووٹرز کی توجہ مبذول نہیں کرا سکے جبکہ ہورے پارٹی کی طرف سے سائیدہ روشنی میئر شپ کی امیدوار تھیں لیکن لیبر پارٹی کی حکومت کے امکانات کی وجہ سےان کی یہ خواہش معدوم ہوگئی ہے۔

ادھر اوسلو کے مضافاتی شہر دریمن کی مقامی اسمبلی میں بھی 3 پاکستانی نژاد نارویجن شہری عائشہ احمد اور ولی گیلانی مستقل رکن اور ناصر محمود گوندل بطور معاون رکن منتخب ہوئے، ناصر گوندل جو امیگریشن کے امور کے ماہر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ناروے میں پاکستانیوں کو نئے چیلنج درپیش ہیں اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا ہوگی، ان کے علاوہ فعال سماجی شخصیت شاہد جمیل بھی نوردرے فولو کاؤنٹی سے معاون رکن علاقائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ نومنتخب رکن دریمن اسمبلی نوجوان سید ولی گیلانی دریمن شہر کے موجودہ پاکستانی نژاد ڈپٹی میئر سید یوسف گیلانی کے بھتیجے ہیں۔

اوسلو سٹی پارلیمنٹ کے کل 59 منتخب اراکین میں سے 15 کا تعلق دائیں بازو کی حکمران جماعت ’ھورے پارٹی‘ سے ہے جبکہ اپوزیشن لیبر پارٹی کو 12 سیٹیں ملی ہیں، لبرل پارٹی (وینسترے) کو 4 اور سوشلسٹ لفٹ (ایس وے) کو 6 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔

اس بار اوسلو سٹی پارلیمنٹ میں پرانی جماعتوں کے مقابلے میں کچھ نئی پارٹیوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے، مثال طور پر قدرتی ماحول کے تحفظ کے نعرے کے ساتھ انتخاب لڑنے والی پارٹی نے 9 سیٹیں حاصل کیں جبکہ ٹول ٹیکس کے خلاف ابھرنے والی پارٹی 4 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی ہے، اسی طرح ریڈ پارٹی نے بھی 4 نشستیں حاصل کی ہیں۔

کسانوں اور زمینداروں کی جماعت سینٹر پارٹی کی کارکردگی پورے ملک میں اچھی رہی ہے لیکن اوسلو سٹی پارلیمنٹ کے انتخابات میں اس پارٹی کو پذیرائی نہیں مل سکی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ لیبرپارٹی دیگر ہم خیال جماعتوں سے مل کر اوسلو شہر کی مقامی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

تازہ ترین