• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’جندرانی‘ ملیر اور قائد آباد کے درمیان واقع ہندوؤں کی ایک بستی

حمزہ جاوید

روشنیوں کے شہر کراچی میں، جہاں ہرطرف بلند وبالا پلازہ، فلک بوس عمارتیں اور وسیع و عریض محل نما بنگلے ، کوٹھیاں دکھائی دیتے ہیں ، وہیں اسی شہر میں کئی بستیاں ایسی بھی ہیں، جن کے گھرں میں صرف ایک وقت کا کھانا پکتا ہے، معصوم بچے بھوک سے بلبلاتے پھرتے ہیں یا کچرا کنڈیوں سے اپنا پیٹ بھرنے کے لیےرزق تلاش کرتے نظر آتے ہیں، ان کے گھاس پھوس کے جھونپڑیوں میں قدیم دور کی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ 

ان ہی میں ایک ’’جندرانی جھونپڑ پٹی‘‘ بھی ہے، جس کے تنگ و تاریک اور خستہ حال جھونپڑوں میں ہندوؤں کی ’’باگڑا‘‘ برادری کے چالیس خاندان آباد ہیں، جن کی مجموعی آبادی 350نفوس پر مشتمل ہے، ان میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ 

مذکورہ بستی ملیر اور قائد آباد کے درمیان واقع ہے۔ ملیر سٹی سے جب قومی شاہراہ پر سفر کیا جائے تو مندر کے اسٹاپ کے بعد کئی مسافر اور ڈرائیور ہوٹل بنے ہوئے ہیں، ملیر ندی کے پل کے نیچے کھیت اور کیکر و ببول کا جنگل ہے۔ 

ندی سے ذرا پہلے کھیتوں کے سامنے کیکر کی جھاڑیوں اور ببول کے درختوں جھنڈ میں لکڑی ، کپڑے، ببول اور کیکر کے کانٹوں سے احاطہ بنا ہوا ہے جس کے درمیان یہ بستی آباد ہے، اس میں ہر طرف میلے کچیلے بچے،، بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے خواتین او مردر غربت کی داستان اپنے چہروں پر ثبت کیے نظر آتے ہیں۔ بستی کے ساتھ پل کا پشتہ بنا ہوا ہے۔

پل کے نیچے ملیر ہومز کے مکانات ہیں، جن کے بعد کھیتوں اور جنگل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اس کے بالکل سامنے کانٹوں سے بنائے ہوئے لکڑی کے ڈنڈوں سے بنا ہوا ایک گیٹ ہے، لیکن پٹ ندارد ہیں، صرف خواتین کی پردہ داری کے لیے پھٹے پرانے کپڑوں کا ایک پردہ ڈالا گیا ہے۔ 

گیٹ کے سامنے ہی پانی کا نلکا لگا ہوا ہے، جس سے پوری جھونپڑ پٹی کے مکین ٹین کےڈبوں اورپلاسٹک کے کین میں پانی بھر کر اپنی جھونپڑیوں میں لے جاتے ہیں، سامنے ہی ان کی عبادت گاہ بنی ہوئی ہے ،جس کے باہر چارپائی پر لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ 

جھونپڑیوں کے باہر خواتین اپنے روزمرہ کے کام کرتی ہیں، جب کہ بچے جن کے بدن پر ناکافی لباس ہوتا ہے ، ان کے قریب ہی کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں۔ نلکے کے دائیں اور بائیں جانب پتلی سی گزرگاہ بنی ہوئی ہے، جس کے ساتھ یہاں کے مکینوں کی جھونپڑیاں ہیں۔ گرچہ انہیں بانس اور لکڑی کے سرکنڈوں کی مدد سے ایک دوسرے سے علیحدہ کیا گیا ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی دروازہ نہیں ہے۔ 

 کچی زمین ہونے کے باوجود یہاں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، جب کہ نلکے سے بہنے والے پانی کی نکاسی کے لیے مکینوں نے پختہ نالی بنائی ہوئی ہے۔ گھروں کے اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر مکین احاطے کے اندر بچھی چارپائیوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ 

ہر جھونپڑی میں مٹی اور اینٹوں سے بنائےگئے چولہے ہیں، جن میں خواتین لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتی ہیں۔ بستی کا ماحول کسی پس ماندہ دیہات کی عکاسی کرتا ہے۔

اس جگہ کے رہنے والوں کو،جہاں بے شمار مسائل درپیش ہیں، وہیں ایک سہولت یہ ہے کہ یہاں میٹھے پانی کی فراہمی چوبیس گھنٹے رہتی ہے، بجلی بھی ہے، صرف گیس نہیں ہے لیکن جلانے کے لیے لکڑیاں یہاں کے جنگلات میں وافر مقدار میں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی کوئی دقت نہیں ہے، صرف شہر کے لیے ہی نہیں بلکہ اندرون سندھ جانے کے لیے بھی بسیں اور دوسری گاڑیاں مل جاتی ہیں۔ 

بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے ۔ بچے دیہی زندگی کے عادی ہیں، انہیں پڑھائی لکھائی سے کوئی شغف نہیں ۔ زیاد تر لوگ چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں ، جو پلاسٹک کے برتنوں کا ہے۔ یہاں کے لوگ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد، غم خوشی میں کام آتے ہیں، یہاں ایک خاندان جیسا ماحول ہے۔

بجلی کی فراہمی کے لیے تمام بستی کے لوگ ایک مخصوص رقم اکٹھا کرکے، کے الیکٹرک کے اہل کاروں کو کنڈے کے بل کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ علاقے کے ایک خدا ترس شخص نے اس جھونپڑ پٹی میں نلکا لگوا دیا تھا۔

اس بستی کے لوگوں کا تعلق گھوٹکی ضلع میں قادر پور کے کچے کے علاقے سے ہے، وہاں یہ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ بیس برس قبل سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی وجہ سےیہ بے سروسامانی کی حالت میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگے۔ 

سندھ کے جس علاقے میں بھی جاتے، وہاں انہیں روزگار کا مسئلہ درپیش ہوتا، مجبوراََ یہ لوگ کراچی آگئے۔ یہاں رہائش کا مسئلہ تھا، ملیر کے ایک وڈیرے نے اس معاملے میں ان کی مدد کی اور پل کے ساتھ ایک فرلانگ طویل یہ جگہ فراہم کی۔ 

اس زمانے میں یہاں کیکر اور ببول کا جنگل تھا، پورا علاقہ کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ درختوں کے تنوں اور جھاڑیوں کو جھونپڑیاں بنانے کے لیے کام میں لایا گیا۔ لکڑیوں کی دیواریں کھڑی کی گئیں، جن بر بڑے بڑے ڈنڈے رکھ کر جھاڑیوں اور پرانے کپڑوں سے سائبان ڈالے گئے۔ جنگلاتی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر موذی جانوروں اور سانپ بچھوؤں کا بھی خوف رہتا تھا۔ 

رات کی تاریکی میں یہ علاقہ ویسے بھی خوف ناک منظر پیش کرتا تھا۔ اس کے لیے بستی کے سرکردہ افراد نے کے الیکٹرک کے دفتر سے رابطہ کیا ، پہلے تو انہوں نے جھونپڑ پٹی میں بجلی کی فراہمی سے معذوری ظاہر کی لیکن جب یہاں کے لوگوں نےانہیں بتایا کہ کچی بستوں کو قانونی طور پر منظور شدہ کنڈا سسٹم کے تحت بجلی فراہم کی جاسکتی تو انہوں نے اس مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے پول پر کنڈے لگا کر بجلی فراہم کردی۔ 

انتہائی صفائی و ستھرائی کے باوجود یہاں اب بھی سانپ اور دیگر حشرات الارض نکلتے رہتے ہیں، لیکن کبھی سانپ کے ڈسنے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ پہلے ندی تک پختہ سڑک بنی ہوئی تھی، لیکن ٹرک اور بھاری گاڑیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہوتے ناپید ہوگئی۔ بستی کے لوگوں کو گرمی اور سردیوں کے موسم میں بے انتہا مشکلات پیش آتی ہیں۔ آج تک وہ بے سروسامانی کے عالم میں رہ رہے ہیں۔ 

کھلا علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں سردیوں میں یخ بستہ ہواؤں کے جھکڑ چلتے ہیں، کھڑکی، دروازے نہ ہونے کی وجہ سے ان سے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔اپنے بچوں کو یہ گدڑیوں میں لپیٹ کر لٹا دیتے ہیں اور خود ساری رات آگ جلا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں تو بہت زیادہ برا حال ہوتا ہے۔ پکے مکانوں کے چھجوں کے نیچے اپنے بچوں کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور بارش رکنے کا انتظار کرتے ہیں۔ 

اس دوران ان کاا سارا مال و اسباب بارش کی نذر ہوجاتا ہے۔ بارش کے دوران جب سیلابی کیفیت ہوتی ہے تو ملیر ندی میں طغیانی کی وجہ سے بھی خطرات لاحق رہتے ہیں۔ یہاں کے قدیم رہائشیوں سے معلوم ہوا تھا کہ جولائی 1977ء میں اس ندی میں جو طغیانی آئی تھی اس کی وجہ سے ملیراور قائد آباد کو ملانے والا پل درمیان میں سے ٹوٹ گیا تھا۔ ملیرسٹی سے ندی تک برساتی اورسیوریج کا نالہ تعمیر کیا جارہا ہے اور پل کے ساتھ اسے اس جگہ سے گزارا جائے گا ،جہاں یہ بستی ہے۔

یہاں کے رہائشیوں نے بتایا کہ ہم اس جگہ کا باقاعدہ کرایہ ادا کرتے ہیں اور ایک بارسوخ شخصیت کا کارندہ ہر ماہ فی جھونپڑی ہم سے چار سو روپے لے کر جاتا ہے۔ ہمیں بے دخلی کے زبانی نوٹسز مل چکے ہیں، جس کےخلاف ہم نے ہر سطح پر اپیلیں کی ہوئی ہیں لیکن اب تک کسی جانب سے بھی کو ئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ 

ہمارے پاس رہنے کے لیے اور کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے، حکومت اگر ہمیں یہاں سے بے دخل کرنا چاہتی ہے تو اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیں اس کے متبادل جگہ فراہم کرے۔ ہم پر الزام لگائے جاتے ہیں کہ بستی کے نوجوان غیر اخلاقی سرگرمیوں یا منشیات کے استعمال و خرید و فروخت مں ملوث ہیں۔ اس نوع کے الزامات ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہیں۔ 

ہم محنت کش لوگ ہیں، داؤد چورنگی کےپل کے نیچے پٹھانوں کی دکانوں سے پلاسٹک کے برتن ادھار خریدتے ہیں، انہیں سائیکلوں پر گلی گلی پرانے کپڑوں کے عوض فروخت کرتے ہیں۔ ان کپڑوں کو دھونے اور استری کرنے کے بعد بازاروں میں پتھارے لگا کر فروخت کرتے ہیں۔ 

پٹھان دکانداروں کو برتنوں کی قیمت ادا کرنے کے بعد صرف اتنی رقم باقی بچتی ہے، جس سے ہمارے گھروں میں ایک وقت کھانا پکتا ہے، یعنی ہمارے بچے دن میںایک وقت روٹی کھاتے ہیں۔ 

اس بستی میں سب سے بڑا مسئلہ مرنے والے کی آخری رسومات کا ہے، جو سالہا سال سے درپیش ہے۔ ملیر کے علاقے میں ہندوؤں کا کوئی مرگھٹ نہیں ہے، اس کے لیے ہمیں مردے کو پرانا گولیمار میں امرپوری کے علاقےمیں واقع مرگھٹ لے جانا پڑتا ہے۔ ہم بھی انسان ہیں، اسی ملک کے شہری ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے کبھی بھی ہمارے مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ 

اس بستی میں جھاڑ جھنکاڑ کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہے، بستی کی آبادی خاص طور پر بچوں کوملیریا اور اسی نوعیت کی دیگر امراض کا سامنا رہتا ہے۔لیکن علاج معالجے کےلیے قریب میں کوئی سرکاری شفاخانہ یا ڈسپنسری نہیں ہے۔

 حکام سے درخواست ہے کہ ترقیاتی کام اور نالے کی تعمیر کے نام پر ہمیں بے دخلی سے بچایا جائے، نالہ بنانا اتنا ہی ضروری ہے تو پختہ مکانات اور کھیتوں کے ساتھ اتنی گنجائش ہے کہ وہاں سے اس کی گزر گاہ بنائی جاسکتی ہے۔ یہاں مرگھٹ کی سہولت کے لیے بھی ملیر ندی کے اطراف میں جگہ فراہم کی جائے۔

تازہ ترین