• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

خطوط میں نام اوپر

بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے پرائمری کے نصاب میں ایک کتاب تھی ’’خطوط اور درخواستیں لکھنے کے آداب‘‘ اُس میں لکھا تھا خطوط میں نام اوپر اور درخواست میں نیچے لکھنا چاہیے، تو ہم اسی پر عمل پیرا تھے، مگر اب آپ کے حُکم کے مطابق خط کے آخر میں لکھا کریں گے۔ رہی بات ہینڈرائٹنگ کی، تو ہمیں لیٹ کر لکھنے پڑھنے کی عادت ہے، اِسی وجہ سے بدخطی ہو جاتی ہے۔ مگر آج بیٹھ کر لکھ رہے ہیں اور حاشیہ، سطر بھی چھوڑی ہے۔ امید ہے، اب آپ کو زحمت نہیں ہوگی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں راجا حبیب اللہ خان نے زلزلے سے ہونے والی تباہی و بربادی کی داستان پُرسوز سنائی۔ جاپانیوں نے زلزلے کی سرزمین پر رہنے کے باوجود بہترین حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں،مگر ہم شاید اُن کی نقّالی میں خفّت محسوس کرتے ہیں۔ منور مرزا نے جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس کا احوال رقم کیا۔ مگر بھئی، یہ نشستن، گفتن، برخاستن تو ستّر سال سے ہو رہی ہے، لیکن ہنوز دلّی دور است۔ چند دن تقریر کا سحر طاری رہا، اب پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع تعلیمی زبوں حالی کا المیہ بیان کررہی تھیں کہ تعلیم تجارت بن کر رہ گئی ہے اور کسی کو کوئی فکر نہیں، سو فی صد برحق۔ ’’گفتگو‘‘ میں رئوف ظفر نے کالم نگار، بلال غوری سے پُرمغز، فکرانگیز بات چیت کی۔ بلال نے تیکھے سوالوں کےبھی خاصے اطمینان بخش جوابات دیئے، زبردست۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ پرایڈیٹرصاحبہ نے معصوم، بھولے بھالے بچّوں کو شان دار شاعری کے ذریعے بہترین ٹریبیوٹ پیش کیا۔ واقعی، بچّوں کی دنیا الگ ہی ہوتی ہے۔ چھوٹی سی خوشی کو بے بہا نعمت سمجھتے ہیں۔ تتلی پکڑنے کی کوشش میں پسینے میں شرابور، تھکن سے چُور ہوجائیں، مگر گوہرِ مقصود ہاتھ آئے تو ایسے خوش ہوں، جیسے ہمالیہ کی چوٹی سر کرلی ہو۔ ناول عبداللہ کا تو بس دَم سادھے مطالعہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اردگرد سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ’’زرد پتّے‘‘ میں زہیرہ جمشید نے معاشرتی رویّوں کی شان دار عکّاسی کی۔ کوئی مضمون لکھنے کو ہمارا بھی جی چاہتا ہے، مگر ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی لمبی فہرست دیکھ کرحوصلہ نہیں پڑتا۔ عالیہ کاشف نے ڈاکٹر نرگس سے نفسیاتی امراض سے متعلق سیرحاصل بات چیت کی، تو ڈاکٹر عمران نے بھی ذہنی دبائو کم کرنے سے متعلق مفید مشورے دیئے۔ سیّد ثقلین علی نقوی نے متاثرین زلزلہ کی حالتِ زار کا صحیح احوال رقم کیا۔ اور اپنے صفحے میں میری ناقص تحریر کو اعزاز بخشنے کا شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: ہمیں آپ کے اوپر نام لکھنے پر اعتراض نہیں تھا۔ ہر صفحے کے آگے، پیچھے لکھنے پر تھا۔ اور پھر اصل کمال کا انکشاف تو آپ نے آج کیا، بھئی، لیٹ کے خط لکھیں گے، تو پھر ہینڈ رائٹنگ تو ایسا ہی ہوگا کہ جس سے آنکھیں پھوڑ پھوڑ کے ہمارا دماغ پولاہوگیا۔ ذرا سچ کہیے گا، کیا اپنی یہ تحریر خود آپ کو بھی دیکھنے میں بھلی نہیں لگی۔

کب عدل صاحبِ اولاد ہوگا؟

کشمیر کا بہت رُلا دینے والا ٹائٹل دیکھ کر دل غم و اندوہ سے بھر گیا۔ پتا نہیں، کب ظلم بچّے دینا بند کرے گا، کب عدل صاحبِ اولاد ہوگا۔ پتا نہیں خونِ مسلم اتنا ارزاں کیوں ہے۔ بہرحال، آپ نے ایک شان دار شمارہ مرتّب کرکے ظلم کی بیخ کنی میں اپنا حصّہ بہ خوبی ڈالا۔ جزاک اللہ۔ آپ اس دورِ پُرفتن میں بھی اپنی ٹیم کے ساتھ میگزین کا معیار بہتر سے بہتر بنانے میں سرگرداں ہیں، اس کا ثبوت سطرسطرسےملتا ہے۔ ’’عبداللہ‘‘ اپنی تلاطم خیزیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے، سلمیٰ اعوان کا چین کا سفرنامہ اور پھر رضوان الحق رضی کا ویت نام کا سفر نامہ پڑھ کر بہت ہی لُطف آیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میرا پسندیدہ ترین سلسلہ ہے۔ ’’قصص الانبیا ؑ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانی متاثر کُن تھی، خاصی حد تک اپنی شخصیت کے مماثل معلوم ہوئی اور ’’آپ کاصفحہ‘‘ کےسب ہی خطوط لاجواب تھے۔ (مصباح طیّب،سرگودھا)

تبصرہ طویل کرلیتا ہوں

اس بار مکمل شمارے میں لفظ کی تقدیس، تحریرکی حُرمت اور اپنے ماضی کو فراموش کرنے، اقدار سےمحرومی کا کرب سایہ فگن تھا۔ سرِورق اور اُس کی للچا، چونکا دینے والی سُرخیاں ٹیم کی بیدارئ مغز کے دلائل ہیں۔ ’’نئی کتابوں‘‘ پر تبصرہ بالکل جداگانہ اسلوب کاحامل لگا کہ مدیرہ کے ناقدانہ قلم نے نہ صرف، ہر کتاب کے نظرنامے میں ’’گوشِ تعارف‘‘ کا بھرپور نفس پھونکا، بلکہ کتابوں کے مصنّفین میں بھی ایسے جیّد، مستند نام پڑھنے کو ملے، جن کی تحریر پڑھتے، سمجھتےزمانہ بِیتا۔ بلاشبہ احفاظ الرحمٰن، پروفیسر عفّت گل اعزاز و دیگر کی کتب پر تبصرہ سہل نہ تھا اور بے شک اُسی اعلیٰ معیار کا بھرپور تعارف کروایا بھی گیا۔ منور مرزا ’’ملکی معیشت‘‘ کی بدحالی پر الفاظ و اصطلاحات کا سحر قائم کرتے نظر آئے، لیکن تجزیے کی ایک تصویر سر اُٹھا اُٹھا کر بین کررہی تھی کہ ’’آرمی چیف کاروباری برادری کے مسائل سُن رہے ہیں!‘‘ ڈاکٹر سیّد غفران سعید نے عالمی یومِ خوراک سےمتعلق جامع لکھا۔ ’’قصص الانبیاؑء‘‘ میں اس ہفتے ’’جامع مسجد امیّہ‘‘ (دمشق) میں واقع مزارِ یحییٰ ؑ کے نقش سے مزیّن، حضرت یحییٰ علیہ السلام کا تذکرہ تھا۔ طلعت عمران نےبھارت کی ایک اور گھنائونی سازش بے نقاب کی،تو منور راج پوت نے گوادر کے ماہرِ تعمیرات سے ملوایا۔ ناول کی تازہ قسط میں ہاشم ندیم بڑے پتے کی بات کہہ گئے کہ ’’زندگی، بچھڑنے والوں کی طویل فہرست کا نام ہے۔‘‘ پیارا پیارا ’’پیارا گھر‘‘ اس ہفتے عروسہ رفیع، شاہین انجم اور فرحت عباس کے رشحاتِ قلم سے آراستہ تھا اور’’آپ کا صفحہ‘‘ وہ گہرا پُرسکون سانس ہے، جو یقیناً پورا شمارہ سجا دینےکےبعد، ٹیم کے ذہنوں، دِلوں اور قلموں کا احساسِ تشکّر ثابت ہوتا ہوگا۔ اگلا شمارہ ’’جہانِ اطفال‘‘ کے سرورق سے سجا ملا۔ صد شُکر کیا کہ مرکزی صفحات میں ’’بچّہ پارٹی‘‘ پر رائٹ اپ مدیرہ کا تھا۔ اس ہفتے محمود میاں اور خادم ملک دونوں کو ڈراپ کردیا گیااور مَیں ہر بار نہ چاہتے ہوئے بھی منور مرزا کے شہ پارے پر خاصا لکھ کر، تبصرہ طویل کرلیتا ہوں، اب نہیں کروں گا۔ محمّد بلال غوری کاانٹرویو عصرِ حاضر کی ضرورت تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں زہیرہ جمشید کی کہانی ’’زرد پتّے‘‘ میں غضب کی منظر نگاری کی گئی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دو بھرے پُرے صفحات تحقیق اور طبّی تشخیص کے لحاظ سے بہت پسند آئے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شاہ زادہ بشیر گدی نشین ہوئے۔ سلیم راجا، خادم ملک، چاچا چھکّن، محمد حسین ناز، پرنس افضل وغیرہ کو ’’مِس‘‘ کیا، خیر جو جہاں رہے، جیسا رہے، خوش رہے۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج:آپ صرف منور مرزا کی تحریر کا تجزیہ فرما کر تبصرہ طویل نہیں کرلیتے، ہمیں سو فی صد یقین ہے کہ آپ کسی موضوع کے بغیر بھی گھنٹوں بے تکان بول اور لکھ سکتے ہیں، خواتین توناحق ہی بدنام ہیں۔ بخدا آپ کی تحریر ایڈٹ کرتے تو شدّت سے جی چاہتا ہے کہ اے کاش! کوئی ایسا ریموٹ کنٹرول بھی ہوتا، جو آپ کے قلم کو اسٹاپ کرپاتا۔

جوابات کا جواب نہ تھا

شمارے کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں راجہ حبیب اللہ خان نے بہت محنت سے مضمون لکھا۔ جب کہ ہر دل عزیز منور مرزا پاکستان کے بیانیے کے ساتھ موجود تھے۔ زبردست ’’گفتگو‘‘ میں محمّد بلال غوری کی باتیں بہت پسند آئیں۔ رئوف ظفر کے سوالات کمال تھے، تو جوابات کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ سرِورق پر پیارے پیارے بچّے موجود تھے، دیکھ کے دل خوش ہوگیا اور ساتھ آپ کا رائٹ اپ، گویا سونے پر سہاگا۔ ’’ناول عبداللہIII‘‘ تو بس اپنی مثال آپ ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں زہیرہ جمشید کی کہانی ’’زرد پتّے‘‘ بھی پسند آئی اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ڈاکٹر اطہر رانا، پروفیسر مجیب اور پروفیسر سیّد منصور علی خان کے خطوط بہترین تھے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

دیوارِ چین کی بلندیاں

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ منور مرزا نے پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال کی مشکلات اور کام یابیوں کی زبردست تصویر کشی کی۔ قوم کے گیارہ عظیم فرزندوں کی لازوال داستانیں پڑھ کر اچھا لگا۔ فاروق اقدس کا مضمون شان دار تھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی دخترِ نیک اختر، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا ہر مضمون رونگٹے کھڑے کردیتا ہے، جیسا کہ ’’کشمیر کی بیٹیاں چادر کو ترس رہی ہیں‘‘ لکھا گیا۔ ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے صفحات کی ماڈلز بہت ہی معصوم اور پاکیزہ سی لگیں۔ اے کاش! پاکستان کی تمام خواتین حجاب لینا شروع کردیں۔ سلمیٰ اعوان نے بھی چین کی خوب سیر کروائی، ایسا محسوس ہوا، جیسے ہم اُن کے ساتھ ساتھ دیوار چین کی بلندیاں طے کرتے رہے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں یوٹیوبر، گنجی سویگ، جنید اکرم سے کافی کُھلی ڈُلی گفتگو ہوئی۔ پڑھ کر بڑا لُطف آیا۔ منور راجپوت نے کراچی کے کچرے پر کچرا گردی کے عنوان سےجو رپورٹ تیار کی، پُرمغز تھی اورڈاکٹرقمرعباس نےبھی ’’لازم و ملزوم‘‘ میں اردو غزل کے میرِ کارواں، میرتقی میر پر بہت اچھا مضمون لکھا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:سلمیٰ اعوان تو دیوارِ چین پر کچھ زیادہ بلندی تک نہیں جا پائی تھیں، آپ ساتھ ساتھ مسافتیں طے کرتے خیر سے کہاں تک پہنچے۔

سُکڑتا کیوں جارہا ہے؟

مَیں گزشتہ تیس سال سے جنگ اخبار کا قاری ہوں، پوچھنا یہ ہے کہ یہ آپ کا اخبار وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتا کیوں جارہا ہے۔ میگزین کا بھی بہت بُرا حال ہے۔ براہِ مہربانی اس جانب کچھ دھیان دیں۔ صفحات کم ہونے سے اچھا لکھنے والے بھی غائب ہوتے جارہےہیں۔ ویسے میگزین میں مزید بہتری کی کافی گنجایش ہے۔ (عبداللہ حسن، ملیر، کراچی)

ج:یہ جو ہم نےپچھلے ایک، ڈیڑھ سال سے مسلسل ’’رونا پِٹنا‘‘ ڈالا ہواہےکہ اخباری صنعت سخت بحران کا شکار ہے۔ کہیں ورکرز کو 3 ،3 اور کہیں 6,6 ماہ سے تن خواہیں نہیں ملیں، تو آپ کو کیا لگتا ہے، ہم کوئی جھلّے، سودائی ہیں۔ بلاوجہ دیواروں سے سر پٹخ رہے ہیں۔ ارے بھئی، یہاں تو مسئلہ بقائے حیات کا ہے اور آپ کو صفحات سکڑنے کی پڑی ہے۔ جو مِل رہا ہے، اسے غنیمت جانیں۔ سچ تو یہ ہے، جو عمومی مُلکی معیشت کاحال ہے، اداروں، خصوصاً صحافتی اداروں کا اُس سے بھی بدتر حال ہے، تو ہمارے اس طرف دھیان دینے سے بھی ہرگز کچھ نہیں ہوگا۔

ڈرامائی موڑ پر اختتام

ٹائٹل اچھا تھا، اس لحاظ سے کہ آپ کو اپنے اخبار کی پالیسی، موقع محل اور عصری تقاضوں کے پیشِ نظر شایع کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا صفحہ بھی خُوب صُورت لگا کہ منور مرزا کے جامع تبصرے، تجزیے کے ساتھ آرمی چیف کی کاروباری برادری کے مسائل سُننے کی تصویر نے تو بس چار چاند لگا دیئے۔ ڈاکٹر غفران کی’’عالمی یومِ خوراک‘‘سے متعلق کاوش زبردست رہی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی زندگی کے حالات و واقعات عُمدگی سے بیان کیے گئے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ’’ہندوتوا‘‘ نے جو متعصبانہ رویّہ اپنا رکھا ہے، طلعت عمران نے اس سے بہ خوبی آگاہ کیا۔ انٹرویو میں منور راجپوت کے بہت سے سوالات کے جواب میں معروف بلڈر، سماجی کارکن، محمود احمد خان نے ’’گوادر‘‘ کے حدودِ اربع اور تاریخ سے آگاہ کیا، گفتگو پڑھنے لائق تھی اور دیکھنے کے لائق تو اس سے اگلے دو صفحات بھی تھے کہ ’’تمام رنگ ادھورے لگے ترے آگے…‘‘ ماڈل، رائٹ اپ دونوں اچھے تھے۔ ناول ’’عبداللہ III‘‘ کا اندازخاصاپُرتجسس اور دلچسپ ہے، خاص طورپر ہر قسط کا ڈرامائی موڑ پر اختتام اگلے اتوار کے شدید انتظار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ایڈیٹر صاحبہ نے ’’نئی کتابیں‘‘ میں کیا بہترین ری ویو پیش کیا اور رہا، آپ کا صفحہ تو پہلے بہت شکریہ کہ میرے خط کو نمایاں شایع کرکے توقیر بخشی۔ دوم سارے ہی کھٹ مِٹھےجوابات طبیعت بشاش کردیتے ہیں۔ خوب صورت شاعری، شان دار محاوروں کا تڑکا لگانے کا بھی بے حد شکریہ۔ (صدیق فن کار، کلمہ چوک، دھمیال روڈ ،جھاورہ کینٹ)

ج:ہمارے خیال میں تو سب ہی قسط وار ناولز، ڈراموں وغیرہ کا یہی فارمیٹ ہوتا ہے۔ تب ہی قاری اگلی قسط پڑھنے، دیکھنے پر مجبور ہوتا ہے اور یہ کوئی ایسی اَن ہونی بات نہیں۔

نہیں بدلا، تو انداز

دو سال سے زائد عرصے کےبعد حاضرِ خدمت ہوں۔ شاید آپ کو اوراق پر اسٹیپلز کی کثیر تعداد دیکھ کر یاد آجائے۔ ایک زمانہ تھا کہ آپ مجھے محمّد حسین ناز، ڈگری کی جانشین قرار دیتی تھیں، پھر وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ ہر اتوارغیر حاضری لگنے لگی اور اب تو دو سال کا عرصہ ہی بیت گیا، مگر اس عرصے میں بھی ہمارا میگزین سے رشتہ برقرار رہا۔ ہر اتوار باقاعدگی سے سارا میگزین کھنگالتی ہوں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پسندیدہ ترین ہے۔ انبیائے کرامؑ کے واقعات کافی سبق آموز لگے۔ تازہ جریدے میں ’’عالمی یومِ خوراک‘‘ پر مضمون بہت پسند آیا۔ دینِ اسلام بھی ہمیں ہر معاملے میں اعتدال کے ساتھ، غذا کے بھی متوازن استعمال کی تعلیم دیتاہے۔ ناول کاسلسلہ اچھاہے۔ مَیں ’’عبداللہI اور II بھی پڑھ چکی ہوں۔ ’’عبداللہ III‘‘پڑھ کر بھی بہت مزہ آرہا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘میں پُرخلوص رشتوں سے متعلق پڑھ کے لگا کہ یہ تو بس سب گئے دَور کی باتیں ہیں۔ اب تو خلوص، چاہت، محبتیں بھی ٹیکنالوجی کی محتاج ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میرا اور میری بیٹی دونوں کا پسندیدہ سلسلہ ہے۔ میں اُسے واقعات پڑھ کر سناتی ہوں اور پھر پوچھتی ہوں کہ کیا سیکھا اِس واقعے سے؟؟ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تو کیا ہی بات ہے۔ اتنے برسوں میں کئی لوگ آئے اور گئے، نہیں بدلا تو آپ کا جواب دینے کا انداز، جو آج بھی لبوں پر بے اختیار ہنسی بکھیر دیتا ہے۔ جب میری اُمّ ہانی تین برس کی تھی، تب مَیں بھی مسندِ اعلیٰ پر براجمان ہوئی تھی۔ آج ماشاءاللہ وہ چھٹی بہار دیکھ رہی ہے اور ہاں، ملک صاحب کو جس طرح آپ برداشت کررہی ہیں، سلام ہے آپ کی ہمّت کو، باقی میگزین سے کوئی شکایت نہیں۔ (مدیحہ کرامت، ہجیرہ پونچھ، آزاد کشمیر)

ج:مدیحہ! یہ انداز ہی تو ہر ہفتے نئے، پرانے لوگوں کو اس صفحے پر کشاں کشاں لیے چلا آتا ہے کہ وہ کیا ہے ناں ؎ سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے…ورنہ دنیا میں کوئی بات، نئی بات نہیں۔ تو نہ تو اخبارات و جرائد میں خط لکھنے کی روایت نئی ہے اور نہ ہی ایڈیٹرز کا قارئین کو جواب دینا۔ بس، اندازِ بیاں کی تبدیلی ہی نے اس صفحے کو اس قدر قبولیت اور دوام بخش دیا ہے۔

                                                                                          فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

مِثل مشہور ہے کہ ’’ہرکام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘ اور بجا کہے جسے عالم، اُسے بجا سمجھو۔ صنف ِ نازک، ادب ِ انسانی کا سافٹ امیج اور سن ڈے میگزین کا پیج آف دی ٹاپ ہے، خیر، سرورقی ماڈل کو سویا چھوڑ کر سرچشمۂ ہدایت، صفحہ پُرانوار پر پہنچے کہ ’’ہم ہیں طالب ہدایت کے‘‘۔ منور مرزا اس بار عالمی اُفق (فکر ِ زماں) کی بجائے صفحہ ٔحالات و واقعات (غم ِ جاناں)پر براجمان تھے۔ اور اشاعتِ خصوصی (وی آئی پی پیج) میں ڈاکٹر غفران نے غذائی قلت کی داستان کچھ ایسی تاثیر و تادیب سے سُنائی کہ ’’دُنیا میں کتنا غم ہے، میرا غم پھر بھی کم ہے‘‘ کے مصداق معلوم ہوئی۔ سنڈےاسپیشل (آفتاب ِ خاص) میں طلعت عمران نے مودی کے اُن موذی اقدامات کی تفصیل دی، جو بھارت میں مسلم شناخت مٹانے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ پتا نہیں یہ کیسا نشہ ٔ اقتدار، کرسی کاخمار ہے کہ بیش تر حکمران فرعون کے مامے بن جاتے ہیں۔ بھئی، یہ انٹرویو اور گفتگو کا فرق ہم نہ جان سکے۔ ہمارا خیال ہے کہ ’’انٹرویو‘‘ سرکاری افسر کا ہوتا ہے اور ’’گفتگو‘‘ غیر سرکاری شخص کی بات چیت، مگر ہاں ہمیں عبداللہ IIIپڑھ کر ناول کی شناخت ہوگئی ہے کہ جو قلمِ ہاشم ندیم سے لکھا جائے، وہ ’’ناول‘‘ ہے۔ نئی کتابیں میں اس بار تبصرہ نگار بھی نئے تھے۔ یہ تو اب ایک دو ہفتوں میں عُقدہ کھلے گا کہ مدیرہ صاحبہ کی خوش قدمی ذائقہ بدلنے کے لیے ہے یا ذائقہ دینے کے لیے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس (پرہیز نامہ) میں گٹھیا سے متعلق چشم کُشا و ہوش رُبا حقائق پڑھ کرکبھی ہم اپنےدائیں گوڈےکو سہلاتے رہے، تو کبھی بائیں کو۔ ’’پیارا گھر‘‘ (نرجس وِلاز) کے خوش نُما دسترخوان میں بگھارے بینگن کی ترکیب معدے کو ٹھاہ کر کے لگی۔ وگرنہ قبل ازیں ڈش میں بینگن کی مجروح سلطان پوری ٹائپ قاشیں پڑی دیکھ کر ہمیں پانی پت کی تیسری لڑائی کے بعد کے منظر کا گماں ہوتا تھا۔ جنگ پزل (اشاراتی غزل) کی بھول بھلّیوں میں ہم ’’دھگانے‘‘ (زبردستی) تب مٹر گشت کرتے ہیں کہ جب کسی ہرجائی محبوب کی طرح نیند ہم سے روٹھی ہو۔ ناقابلِ فراموش (مگر قابل ِ یقیں) میں رعنا فاروقی کے ’’آپ ہی سے کچھ کہنا ہے‘‘ سے متعلق ماڑا جیہا اختلافی نوٹ ہے کہ اس جملےسےلفظ ’’ہی‘‘ اگر حذف کر دیا جائے تو اچھا ہو؟ ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں(آپ کےدل میں ہمارا اکائونٹ)پروفیسر حمیدی کومیراتھن ریس (اعزازی چٹھی) جیتنے پر مبارک باد اور رانا شاہد، ناز کھوکر اور حِرا اقبال جیسے احباب کے داغِ فراق دےجانے پر ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ سوائے اس کے ؎ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے… ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے۔ اور جاتے جاتے اِک فرمایش کہ ممکن ہو تو عُمر چیمہ کا انٹرویو بھی پڑھوادیں۔ ( محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: ’’انٹرویو‘‘ اور ’’گفتگو‘‘ کا فرق یہ ہے کہ ’’گفتگو‘‘ ہمیشہ کسی ایسی مشہور و معروف، خاص الخاص شخصیت سے کی جاتی ہے کہ جس کی خدمات کا ایک عالم معترف ہو۔ جس سے طویل نشست بھی بہت لُطف دے۔ جب کہ ’’انٹرویو‘‘ ہر خاص و عام سےلیاجاسکتا ہے۔ اُس سے بھی، جسے کوئی جانتا نہ ہو اور اُس سے بھی، جسے چند ایک لوگ جانتے ہوں اور یہ ہماری اپنی ہی تخلیق کردہ تخصیص ہے، کوئی باقاعدہ ادبی کُلیہ نہیں۔

گوشہ برقی خُطوط
  • ناول ’’عبداللہ‘‘ کے پہلے دونوں حصّے بھی پڑھے تھے۔ یہ بھی پڑھ رہی ہوں۔ زبردست جارہا ہے۔ میری اور آپی کی پہلے پڑھنے پر کھینچا تانی چلتی رہتی ہے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس اور آپ کا صفحہ پسندیدہ سلسلے ہیں، مگر ای میلز کو جگہ بہت کم دی جاتی ہے۔ (شہربانوخان)
  • ناول کا جواب نہیں۔ ویسے تو پورے میگزین ہی کا کوئی جواب نہیں، صفحات کم ہوگئے ہیں، مگر آپ کا حُسنِ ترتیب اس کمی کو محسوس نہیں ہونے دیتا۔ بس پلیز، ناقابلِ فراموش ڈراپ نہ کیا کریں۔ (فہیم مقصود، والٹن روڈ، لاہور)

ج:ناقابلِ فراموش کا صفحہ بھی رعنا فاروقی کی علالت کےسبب ڈراپ ہوتارہا ہے۔ اب ہم عارضی طور پر اسے محمد ہمایوں ظفر سے مرتّب کروارہے ہیں، تو اُمید ہے کہ شیڈول ہوتا رہے گا۔

  • ہر اتوار، میگزین پڑھنے کو نہ ملے تو اتوار، اتوار نہیں لگتا۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ اس جریدے نے میری معلومات میں گوناگوں اضافہ کیا ہے۔ ایک طویل عرصے سے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میگزین کی زینت بن رہا ہے،مگر اس کی مقبولیت اور معیار میں ہرگز کوئی کمی نہیں آئی۔ اس اعتبار سے غالباً یہ کسی بھی جریدے کا منفرد ترین سلسلہ ہے۔ اب تو اس صفحے کے لکھاری، فیملی ممبرز کی طرح لگتے ہیں۔ (عمران خالد خان، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: جی، ہمیں خود بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

  • کبھی کبھی ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر ماڈل کےچہرے کو زیادہ فوکس کیا جاتا ہے، ملبوسات کو نہیں، تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اور معاف کیجیے گا، مجھے تو یہ ’’عبداللہ III‘‘ بالکل پسند نہیں آیا۔ ہاں، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ایک لاجواب سلسلہ ہے۔ (رمشہ الیاس راجپوت، مرغزار کالونی، لاہور)

ج: ماڈل کی ایک آدھ تصویر میں چہرے کو محض اس لیے فوکس کیا جاتا ہے کہ ملبوسات کے ساتھ، میک اوور دکھانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہمارے ہر شوٹ میں صرف ڈریس ڈیزائنر ہی کی نہیں، میک اپ آرٹسٹ، ہیئر اسٹائلسٹ وغیرہ کی کاوشیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اور ناول ناپسند کرنے پر، ہم تو تمہیں ہرگز معاف نہیں کریں گے۔ جائو جو کرنا ہے، کرلو۔

قارئین کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین