• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کالم وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے اپنے شہر وزیر آباد کے لئے ایک چیز مانگنے کے لئے ہے اور یہ تمہید صرف یہ بتانے کے لئے کہ یہ شہر اور اس کے مکین مجھے کتنے عزیز ہیں۔
وزیر آباد! میرے بچپن کا ساتھی، چھٹی جماعت تک میں نے اپنی تعلیم یہیں مکمل کی۔ مجھے اعلیٰ تعلیم کے لئے ایم بی پرائمری اسکول نمبر 2 عرف ”کھوتی اسکول“ میں داخل کرایا گیا تھا۔ یہ اسکول غلہ منڈی کے قریب تھا جہاں قریبی دیہات کی عورتیں دھوتیوں میں ملبوس سودا سلف خریدنے آتی تھیں اور میرا اسکول؟ بڑے سے دروازے سے اندر داخل ہوتے تھے، نکڑ پر محمد حسین بلّے کی ریڑھی تھی جہاں سے ہم ”آدھی چھٹی“ کے وقت چھولے کھایا کرتے تھے۔ اس کے آگے کھلا صحن اور صحن کے چاروں طرف کلاس رومز ، ایک طرف باتھ روم بھی تھا، جس کی ”خوشبو“ سے سارا اسکول مہکتا تھا۔ کلاسوں میں ٹاٹ پڑے ہوتے تھے جن پر ہم چوکڑی مار کر بیٹھتے تھے۔ پڑھائی کی طرف کس کم بخت کا دھیان ہوتا تھا، بس ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے رہے تھے۔ ”آدھی چھٹی“ دراصل ”اسپورٹس“ کے لئے ہوتی تھی اور ہماری پسندیدہ ”سپورٹ“ ایک دوسرے پر تختیوں سے حملہ آور ہونا تھا، اسے آپ گتکا کھیلنا بھی قرار دے سکتے ہیں۔ مجھے اپنا سارا ماضی اور سارا حال بہت خوبصورت لگتا ہے۔ ماضی کی خوبصورتیاں تو میں بیان کر رہا ہوں اور حال کا بھی یہ حال ہے کہ 1990ء تک میں موٹر سائیکل خریدنے اور ایک دس مرلے کا گھر بنانے میں کامیاب ہو سکا تھا، لیکن دو پاجاموں میں بسر ہونے والا بچپن ہی میری حسین یادوں کا حصہ ہے اور پورے گھر کے لئے ڈیڑھ پاؤ گوشت والی ”خوشحالی“ کو بھی میں خوشی کے لمحات میں شمار کرتا ہوں۔ میرا گھر ؟ گلہ بکریاں والا میں سے گزرتے ہوئے بائیں ہاتھ کی گلی کوچہ لیر چونیاں کہلاتی تھی، اس کے شروع ہی میں ہمارا مکان تھا جو پوری گلی میں سے ”گزرتا“ ہوا دائیں جانب ”مڑ“ جاتا تھا۔ یہ خاصا بڑا مکان تھا اور 47 میں ہجرت کے بعد ہمارا سارا خاندان یہیں مقیم تھا۔ بعد میں دوسرے رشتے دار الگ الگ گھروں میں منتقل ہو گئے اور ہم یہاں اپنی فیملی کے ساتھ اکیلے رہ گئے ۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ میں بھٹک رہا ہوں۔ مجیدے پہلوان کا اکھاڑہ، ریلوے اسٹیشن اور ریل بازار کی رونقیں، ملک عطاء اللہ عرف ملک پاوا کی دکان، ملک صاحب گوالوں کے ولٹویوں میں ایک مشین سی ڈال کر دودھ کا خالص ہونا چیک کیا کرتے تھے۔ یہاں منظور الحق عرف میاں للی جو شہر میں ہونے والے خاص واقعات کا اعلان گھنٹی اور ڈھول کی ”تھاپ“ پر کیا کرتے تھے۔ میرا دوست رفیع عرف پلہو ، میرے ساتھ والے گھر میں رہنے والا کانپور سے ہجرت کر کے آنے والا خاندان، جس کا سربراہ صابو یک چشم تھا اور عینک والا جن لگتا تھا۔ یہ لوگ اکثر آپس میں لڑتے اور پھر چٹنی بنانے والی سلوں سے ایک دوسرے پر پل پڑتے۔ خوش مزاج اور خوش وضع ملک عبدالرحیم، بشریٰ باجی، گوگی ، ملک صاحب کے بیٹے سمیع اور صلاح الدین عرف چھاؤ جن سے میری بہت دوستی تھی۔ جموں سے ہجرت کر کے آنے والا منور جو غربت کی وجہ سے اپنی والدہ کی طرح ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا۔ اس کا بھائی سرور بٹ عرف چھبّا پی پی پی کا لیڈر بنا اور مصطفی کھر کے ساتھ اس کی بہت ہی دوستی تھی۔ وہ کروڑ پتی بنا مگر فوت ہو گیا۔ شہر سے باہر شریف طوسی اورراجہ عبداللہ کی کوٹھیاں، جنگ کے بانی خلیل الرحمن کے سسرالی، یہ سب وزیر آباد کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ سجاد نبی کے بیٹے جواد خواجہ آج کل سپریم کورٹ کے جج ہیں۔
ابھی مجھے بہت کچھ کہنا تھا مگر داڑھی سے مونچھیں لمبی ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں جس کا تعلق وزیر آباد کارڈیالوجی کے ہسپتال سے ہے۔ میرا ایک پھوپھی زاد بھائی ہے جسے ہم میاں بھائی جان کہتے تھے ہارٹ کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے لاہور کے رستے ہی میں فوت ہو گیا تھا۔ میں ذیل میں وزیر آباد کے معززین کا خط درج کر رہا ہوں اور میاں صاحب سے اپنے خاندانی روابط کا واسطہ دیتے ہوئے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دیں۔ وزیر آباد اور اس کے گرد و نواح کے علاقے کے لوگوں کے علاوہ میں ذاتی طور پر بھی آپ کا ممنون ہوں گا تاکہ میں اپنے کسی اور ”میاں بھائی جان“ سے محروم نہ ہو جاؤں۔ خط درج ذیل ہے:
برادر محترم جناب عطاء الحق قاسمی صاحب ،السلام علیکم
وزیر آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا منصوبہ جسے 2010ء میں مکمل ہونا چاہئے تھا، ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ دو سو بستروں پر مشتمل امراض قلب کے اس ہسپتال کی تعمیر کا کام 2007 ء میں شروع ہوا ۔ اس کے لئے وزیر آباد کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ یہ تاریخی شہر کئی اضلاع کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ شہر گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور حافظ آباد کے اضلاع کے درمیان واقع ایک مرکزی اور موزوں مقام ہی نہیں بلکہ جہلم اور منڈی بہاؤ الدین تک کے امراض قلب کے مریضوں کے لئے بھی وزیر آباد پہنچنا، لاہور یا راولپنڈی پہنچنے کی نسبت کہیں آسان ہے۔ 2008ء کے انتخابات تک تقریباً 50کروڑ روپے کی لاگت سے اس ہسپتال کی مین بلڈنگ کا بڑا حصہ مکمل ہو چکا تھا۔ 2008 ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور میاں شہبازشریف کی حکومت قائم ہوئی تو خیال یہ تھا کہ چونکہ عوامی مفاد کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے حوالے سے میاں شہباز شریف کا ریکارڈ انتہائی شاندار ہے اس لئے اب وزیر آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بھی ریکارڈ مدت میں پایہٴ تکمیل تک پہنچے گا مگر بدقسمتی سے بیورو کریسی کے کچھ کج فہم افسروں کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ کچھ ایسے افسروں نے ہی وزیر اعلیٰ کو یہ تجویز دی کہ کارڈیالوجی کے اس منصوبے کو ایک جنرل ہسپتال میں تبدیل کر دیا جائے۔
اس پر وزیر آباد سے منتخب ہونے والے نیک نام اور باکردار ایم این اے جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار احمد چیمہ نے وزیر اعلیٰ سے مل کر پر زور گزارش کی کہ بیورو کریسی کی تجویز پر ایسا غلط فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ اس منصوبے کو کارڈیالوجی کے ہسپتال کے طور پر ہی جو کہ اس علاقے کے 6اضلاع کے عوام کی حقیقی ضرورت ہے ، جلد از جلد مکمل کروایا جائے۔ اس حوالے سے کئی میٹنگز ہوئیں جس میں جسٹس صاحب اور ان کے بھائی ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر نثار احمد چیمہ بھی شریک ہوتے رہے اور کوشش کرتے رہے جس کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس منصوبے کو انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے طور پر مکمل کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے لیکن پھر چند ناعاقبت اندیش افسروں نے پہلے ہی تاخیر کے شکار منصوبے کو مجموعی طور پر جلد از جلد مکمل کرنے کی بجائے اس منصوبے کے حصے بخرے کر کے 50،50 بستروں پر مشتمل حصوں کی مرحلہ وار تکمیل کرنے کا اچھوتا خیال پیش کیا ہے جس کے تحت یہ منصوبہ مزید کئی سال تک لٹکتا رہے گا۔ علاوہ ازیں نرسوں کی رہائش گاہیں یا ہوسٹل مکمل کرنے کی بجائے ہسپتال کی بلڈنگ کے ایک حصے میں توڑ پھوڑ اور تبدیلیاں کر کے اسے ڈاکٹروں اور نرسوں کا ہوسٹل بنانے کی بھی عجیب و غریب اور غیر منطقی تجویز دے دی گئی ہے۔ اب پہلے مرحلے میں 50 بستروں کے ہسپتال کو فنکشنل کرنے کے لئے تقریباً 69 کروڑ روپے رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 32 کروڑ روپے طبی آلات کی خریداری اور 37 کروڑ روپے بلڈنگ کے لئے ہیں۔ یہ منصوبہ جب 2008ء میں شروع ہوا تھا تو اس وقت اس کی کل لاگت کا تخمینہ تقریباً ڈیڑھ ارب روپے تھا۔ 2009ء میں یہ تخمینہ ہوا تو یہ دو ارب تک جا پہنچا۔ اب اس کا کل تخمینہ تقریباً ڈھائی ارب روپے کے قریب ہے جس میں سے 50 کروڑ روپے بلڈنگ پر خرچ ہو چکے ہیں۔ اس کی تکمیل میں جتنی تاخیر ہو گی تعمیری و دیگر اخراجات میں اسی نسبت سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا بالخصوص درآمد کئے جانے والے طبی آلات کی خریداری کی مد میں پہلے ہی بہت اضافہ ہو چکا ہے اور مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ کیونکہ طبی آلات کی ادائیگی ڈالرز میں کی جانی تھی جب یہ منصوبہ شروع ہوا تھا تو اس وقت ڈالر کی قیمت 60سے 70 روپے کے درمیان تھی جو کہ اب 100 روپے تک جا پہنچی ہے اس لئے دانشمندی اور دور اندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ اس منصوبے کے حصے بخرے کرنے، 50،50 بستروں کے مختلف مراحل میں تقسیم کرنے اور اسے مزید کئی سال تک لٹکائے رکھنے اور نتیجتاً اخراجات میں اضافے کروانے کی بجائے اس منصوبے کو اس کے اصل پلان کے مطابق ایک ہی جامع اکائی کے طور پر پایہٴ تکمیل تک پہنچایا جائے اور 50 بستروں کے پہلے مرحلے کی تکمیل کیلئے 69کروڑ روپے مختص کرنے کی بجائے اس منصوبے کیلئے ساری رقم ریلیز کر کے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ کام وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ہی کر سکتے ہیں اور وہ ہی متعلقہ حکام کو اس کی جلد از جلد تکمیل کیلئے کوئی ٹائم فریم بھی دے سکتے ہیں۔ والسلام
کرنل (ر) وقار احمد صدر مسلم لیگ (ن) ، چوہدری حسن نواز جوندہ ریٹائرڈ سیشن جج ،محمد ادریس ،چوہدری امتیاز احمد باگڑی ،ڈاکٹر محمد یوسف، خواجہ جمیل احمد ایڈووکیٹ،سپال ایڈووکیٹ،چوہدری محمد ارشد سلیمی،ناصر اللہ والا، ملک محمد شفیق
تازہ ترین