آج اتوار ہے۔ اپنے پیاروں، لاڈلوں سے ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن۔ وہ بھی یقیناً مہنگائی سے پریشان ہوں گے۔ جب وہ اپنے دادا دادی، نانا نانی، امی ابو کو آپس میں چیزیں مہنگی ہونے کی باتیں کرتے دیکھتے سنتے ہوں گے ۔ انہیں بھی خطرہ محسوس ہوتا ہوگا کہ اب چاکلیٹ، ٹافی، آئس کریم کی کمی شروع ہوجائے گی۔
مہنگائی اس وقت کورونا وبا سے بھی خطرناک ہورہی ہے۔ 22کروڑ میں سے بمشکل ایک کروڑ ہوں گے جن کے پاس بے حساب دولت ہے۔ وسائل ہیں۔ ان کو چیزیں مہنگی نہیں لگتی ہیں۔
باقی 21کروڑ اور ان میں سے 5کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ ان کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام بہت کٹھن ہوگیا ہے۔ سرکار، اپوزیشن سب اپنی اپنی ہانک رہے ہیں۔ ہر دَور میں یہی عالم رہا ہے۔
پچاس، ساٹھ، ستر، اسی، نوے، نئی صدی کی دونوں دہائیوں میں ہمیشہ مہنگائی کا شور مچا ہے۔ آدھے پاکستان کی پہلی حکومت کے خلاف جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو اپوزیشن یہ نعرہ بلند کرتی تھی۔ 70کے بھائو واپس لائو۔ بھائو کبھی واپس نہیں آئے۔
آدھے پاکستان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کا تجربہ کیا گیا جو کبھی کامیاب نہیں رہ سکا۔ بنیادی سبب کہ حکومت اور کارندوں دونوں کی نیت تھی ہی نہیں کہ اشیائے ضروریہ غریب اکثریت کو اس کی قوتِ خرید کے مطابق مل سکیں۔
مجھے جھنگ کی جامع مسجد کے سامنے والی گلی یاد آرہی ہے جہاں ہمارے والد بزرگوار حکیم صوفی شیر محمد کا ارسطو دواخانہ تھا۔ کالج سے آکر میں بھی کچھ دیر مطب میں بیٹھتا تھا۔ ساتھ ہی راشن شاپ تھی۔
جہاں لوگ راشن کارڈ لاکر آٹا اور چینی متعین نرخوں پر اور اپنے کوٹے کے مطابق خرید سکتے تھے۔ کبھی راشن شاپ کا مالک نہ ہوتا تو میں بعض بزرگوں کو آٹا، چینی تول کر دیتا۔ راشن کارڈ پر اس مہینے کا اندراج کرتا۔
یہ ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو آٹا، چینی، چاول، چائے، نمک کی فراہمی یقینی اور ان کی قوتِ خرید کے مطابق بنائے۔ پاکستان میں یہ سسٹم 1987 تک کسی نہ کسی صورت میں چلتا رہا ہے۔ جب یہ یقین ہوگیا کہ اب فراہمی اور قیمتوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اسے فروری 1987 میں لپیٹ دیا گیا۔
ہمارے ایک درد مند پاکستانی کرم فرما سید ارتقا احمد زیدی کا اب فوری مشورہ یہی ہے کہ راشن کارڈ دوبارہ شروع کیا جائے کیونکہ غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کا درد اسی سے دور ہوسکتا ہے۔ لکیر سے اوپر بھی کروڑوں کے لئے یہی نظام کچھ معقول قیمتوں پر اشیائے ضروریہ مہیا کرسکتا ہے۔
یوٹیلیٹی اسٹورز کو مزید سہولتیں اور زیادہ اختیارات دینے سے بھی اکثریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ وزارت تجارت میں جوائنٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ اس لئے یوٹیلیٹی اسٹورز کے اندرونی حالات سے با خبر ہیں۔
اب تو کارڈز کا زمانہ ہے۔ صحت کارڈ، انصاف کارڈ، سندھ کارڈ، مضبوط مرکز کارڈ، گولڈ کارڈ، کریڈٹ کارڈ، ڈیبیٹ کارڈ، آج کل ویکسی نیشن کارڈ، جدید ٹیکنالوجی، مواصلاتی رابطے، شناخت کی تصدیق کے جدید ترین ذرائع۔ ان کے ہوتے ہوئے تو راشن کارڈ اور بھی زیادہ مصدقہ اور سہولت رساں بن سکتا ہے۔ اب بھی دنیا کے بہت سے ملکوں میں راشن کارڈ سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے۔
عام طور پر حالت جنگ میں ہر چیز کی راشننگ کی جاتی رہی ہے۔ پیٹرول کا راشن ہوتا ہے۔ آٹا، چاول، چینی، چائے کا۔ جہاں مے نوشی جائز ہے وہاں مے کی راشننگ بھی کردی جاتی ہے۔ آج کل پینے کے پانی کی قلت ہے تو جنوبی افریقہ کے کیپ ٹائون میں پانی کی راشننگ ہوچکی ہے۔
پاکستان کے علاوہ اکثر قومیں ایسی قلت کا پہلے سے ادراک کرلیتی ہیں۔ اس لئے کچھ نہ کچھ سسٹم بنالیتی ہیں۔ تاکہ وقت آنے پر افراتفری پیدا نہ ہو۔ ہمارے ہاں عوام کی اہمیت صرف انتخابی مہم کے دوران ہوتی ہے۔ بعد میں ان کی ضروریات کی فکر سرکار کو ہوتی ہے نہ اپوزیشن کو۔ یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے ہاں ہر چیز کی فراوانی رہی ہے۔لیکن تقسیم کا نظام ہم نے قائم نہیں کیا ۔
پیداواری وسائل پر چند لاکھ قابض ہیں۔کہیں افراد کا تسلط ہے، کہیں اداروں کا اور محروم رہتے ہیں کئی کروڑ جیتے جاگتے انسان۔ دکاندار، آڑھتی سب من مانی کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اکثریت کی اس حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے اگست 2019 سے ’ایک قوم، ایک راشن کارڈ‘ کا نظام قائم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
راشن میں گندم، چاول، دالیں شامل ہیں۔ پہلے اس کارڈ کااستعمال صرف متعلقہ ریاست تک محدود تھا۔ بعد میں اسے دوسری ریاستوں میں استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ اب روزگار کے لئے کسی دوسری ریاست میں آیا ہوا نوجوان اپنے کارڈ پر راشن لے سکتا ہے۔
پیچھے اس کے گھرانوں کو ان کے حصّے کا راشن ملتا رہے گا۔ اس کے لئے ریاستوں کو اضافی بجٹ بھی دیا جاتا ہے۔ کسی بھی فیئر پرائس شاپ سے یہ چیزیں اپنے کوٹے کے مطابق حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اعداد و شُمار کہتے ہیں کہ اس نظام سے 81کروڑ انسان مستفید ہورہے ہیں۔23کروڑ راشن کارڈ اگست 2019 میں بنے۔
5کروڑ فیئر پرائس شاپس کھلیں۔پاکستان میں جنوری 2008 میں مشرف دَور میں غربت ختم کرنے کے لئے راشن کارڈ کا سوچا گیا تھا کیونکہ آٹے کی قیمت بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ آٹا اور گندم افغانستان اسمگل بھی ہورہےتھے۔ اگلے ماہ الیکشن تھے۔ پھر جمہوری حکومتیں آگئیں۔ انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
اپوزیشن مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے پاکستانیوں کو سڑکوں پر نکالنا چاہتی ہے۔ اس طرح کوئی نظام قائم نہیں ہوگا نہ ہی چیزیں سستی ہوں گی۔ میری آپ سے واہگہ سے لے کر گوادر تک سب بھائیوں سے یہ التجا ہے کہ آپ اپنے حلقے میں اپنے ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر پر زور ڈالیں کہ وہ راشن کارڈ سسٹم رائج کروائیں۔
اب جدید ٹیکنالوجی۔ نادرا اور دوسرے اداروں کی موجودگی میں راشن کارڈ پہلے سے زیادہ موثر ہوگا۔ راشن شاپ کی مانیٹرنگ آسانی سے ہوسکے گی۔ انڈیا والے 81 کروڑ کو راشن دے رہے ہیں۔ ہم 21کروڑ کو بھی نہیں دے سکتے۔