• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

والٹن ائیر پورٹ لاہور کے حوالے سے کئی ایسی پرانی یادیں ہیں اگر ہم انہیں بیان کریں تو ایک پوری کتاب بن سکتی ہے۔ وہ نسل جس نے لاہور کو قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد کے چند برس تک دیکھا وہ بڑی تیزی کے ساتھ اب اس دنیا سے جا رہی ہے بلکہ جا چکی ہے۔ آج سے دس برس بعد کوئی اور ہی لاہور ہوگا جس کی کوئی پہچان اور شناخت نہیں ہوگی ایسا لاہور جہاںصرف دس سے پچاس منزلوں کے پلازے، بڑ ی بڑی عمارتیں اور فارم ہائوسز ہوں گے۔ اس لاہور کو سب سے زیادہ برباد زمینوں کا کاروبار کرنے والے دلالوں نے کیا ہے، انہوں نے صرف اپنے ذاتی فائدے کی خاطر اصل لاہور کی شناخت ختم کردی ۔لاہور کے تاریخی والٹن ایئر پورٹ کی نیلامی امریکہ میں مقیم ایک انجینئر جیت چکا ہے جبکہ اس ملک کا روایتی قبضہ مافیا جو بظاہر چیریٹی کرتا ہے وہ نیلامی میں ہار چکاہے۔ اس والٹن ایئر پورٹ کی زمین محکمہ جنگلات کی تھی جو صرف اور صرف یہ ایئرپورٹ بنانے کے لئے دی گئی تھی اور اب یہاں پلازے بنانے کی تیاری ہو چکی ہے۔ اس وقت بھی لاہور میں گلبرگ اور ایم ایم عالم روڈ پر کئی بلند و بالا پلازے خالی پڑے ہیں ۔ ان حالات میں والٹن ایئرپورٹ پر مزید بلند و بالا پلازے اور عمارتیں بنانا سمجھ سے باہر ہے۔ اس پر کبھی تفصیلی بات کریں گے۔

والٹن کے تاریخی ایئر پورٹ پر گوروں اور ایک سکھ نے جو رن وے بنایا تھا اس میں چھ فٹ گہرائی تک سیمنٹ، بجری اور لوہے کی بھرائی کی گئی تھی۔ والٹن ایئر پورٹ کی زمین کبھی نیشنل اسٹیڈیم، لاہور اسٹیڈیم(موجودہ نام قذافی اسٹیڈیم) تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پانچ سو ایکڑ پر محیط تھا، اب صرف 158ایکڑ رہ گیا ہے۔ باقی کی زمین پر کون لوگ قابض ہوگئے اس پر بات کریں گے تو بات بہت دور تک جائے گی۔ لاہور والٹن ایئرپورٹ پر 1965 کی جنگ میں بھارت کے ہوائی جہاز نے بم بھی پھینکا تھا جس سے کافی نقصان ہوا تھا۔ یہ بم والٹن ریلوے اسٹیشن کی لائنوں کے قریب گرا تھا۔ والٹن ایئرپورٹ کے پچھلی طرف والٹن ریلوے اسٹیشن کی لائنیںہیں ہم نے پچھلے کالم میں ذکر کیاتھا کہ لاہور میں کئی ایسے مقامات اور مکانات بھی ہیں جہاں قائد اعظمؒ تشریف لائے تھے، قیامِ پاکستان کے سلسلے میں لاہور میں مسلم لیگ (اصل مسلم لیگ، ن، ق، اور ض نہیں) کے مختلف اجلاسوں کے لئے قائداعظمؒ والٹن ائیرپورٹ اور لاہو ر کے تاریخی (مرکزی ریلوے اسٹیشن پر) ریلوے اسٹیشن پر آتےتھے۔ یہ علیحدہ بات کہ آج لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے کسی پلیٹ فارم پر یہ درج نہیں کہ قائد اعظمؒ کس پلیٹ فارم اور کس ریل کے ڈبے سے آیا کرتے تھے؟ لاہور کویہ اعزاز حاصل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ لاہور میں بے شمار جگہوں پر ٹھہرے اور کبھی ڈاکٹر منیر الدین چغتائی مرحوم(سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) نے ممدوٹ ولا میں ان کی حفاظت کے لئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رات بھر پہرا دیا تھا۔ اب کون جانے کہ ڈاکٹر رفیق احمد (سابق وائس چانسلرپنجاب یونیورسٹی) نے اپنے اسکول کارڈ پر محمد رفیق احمد پاکستانی لکھوایا ہوا تھا جبکہ ابھی پاکستان نہیںبنا تھا۔ 19 ٹمپل روڈ پر ملک برکت علی (ڈاکٹر محمود شوکت کے دادا) کے گھر بھی قائد اعظمؒ کئی مرتبہ گئے۔ بلکہ پاکستان کی پہلی سالگرہ کا کیک بھی یہاں کاٹا گیا تھا۔ قائد اعظمؒ موچی دروازے کی گرائونڈ کے جلسے میں کئی مرتبہ آئے، مگر آج موچی دروازے کا جو حال کردیا گیا ہے وہ افسوسناک ہے۔ دھنی رام روڈ پر عظیم منزل جہاں قائداعظمؒ آئے اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ العزیز حویلی بیرون یکی گیٹ جہاں قائداعظمؒ آئے اور مسلم لیگ کے ورکرز سے ملاقاتیں کیں۔ اب وہاں دکانیں بن چکی ہیں۔ اس طرح شیرانوالہ گیٹ میں بھی ایک مکان میں قائداعظمؒ آئے تھے۔ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے دولتانہ ہائوس کو اس کی اصل شکل میں دیکھا ہے۔ دولتانہ ہائوس ڈیورنڈ روڈ پر کانوینٹ آف جیسیز اینڈ میری اسکول اور کوئین میری کالج کے نزدیک واقع تھا۔ اس جگہ قائد اعظمؒ کئی مرتبہ تشریف لائے تھے۔ ہم نے وہ کمرہ اور فرنیچر بھی دیکھا ہے اور اس فرنیچر پر بیٹھے جہاں قائداعظمؒ بیٹھا کرتے تھے۔ آج دولتانہ ہائوس (میاں ممتاز دولتانہ) کا نام و نشان نہیں رہا۔ وہاں دکانیں اور مکان بن چکے ہیں۔ سوچیں کہ وہ دولتانہ ہائوس اس قدر بڑا تھا کہ آج وہاں جو مکان اور دکانیں بن چکی ہیں اس کی ایک سڑک گڑھی شاہو اوردوسری ڈیورنڈ روڈ کو لگتی ہے۔ 1985ء تک تو ہم بھی اس دولتانہ ہائوس میں جاتے رہے۔ آہستہ آہستہ ہر تاریخی اور یادگار جگہ کو ہم ختم اور تباہ کر دیں گے۔ آج اس دولتانہ ہائوس میں قائداعظمؒ کے زیر استعمال فرنیچر نہیںمعلوم کہاں گیا؟ وہ تاریخی گھر جہاں قائدؒ نے کئی اجلاس اور میٹنگیں کیں، آج اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، کیا زبردست لائبریری اس گھر میں تھی۔ جہاں میاں ممتاز دولتانہ نے ہمیں کئی تاریخی کتابیں خود دکھائی تھیں، اب پتہ نہیں کہ اس لائبریری کی کتب کہاں گئیں۔ ار ے اللہ کے نیک بندو! وہ کتابیں اس گھر سے منسلک کوئین میری کالج کو ہی دے دیتے۔

روزنامہ جنگ لاہور کے بالکل ہی قریب حبیب اللہ روڈ پر ممدوٹ ولا جو آج بھی موجود ہے مگر پتہ نہیں یہ بھیکب ختم ہو جائے۔ ممدوٹ ولا میں داخل ہوتے ہی برآمدے کے دائیں کنارے میں آج بھی وہ یادگار کمرہ موجود ہے جہاں قائداعظمؒ قیام کیا کرتے تھے، اس کمرے میںدو سنگل بیڈ بھی تھے جب ہم نے دیکھے تھے۔ اب پتہ نہیں کیا حالات ہیں۔

(جاری ہے)

تازہ ترین