• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہم ترین خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن اعلان کر چکے ہیں کہ 2030کے بعد برطانیہ میں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کوئی گاڑی سڑکوں پر نظر نہیں آئے گی اس منصوبے کو ’’انٹرسٹریل ریوولوشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے اس منصوبے سے فضائی آلودگی کے خاتمے، انسانی جانیں بچانے میں مدد ملے گی اور گاڑیوں کی وجہ سے ہونے والے شور کا بھی خاتمہ ہو گا۔ 

منصوبے کے مطابق آنے والے پانچ سال میں زیادہ سے زیادہ سولر پاور اور ونڈ پاور پلانٹس سے انرجی کی ضروریات پوری کی جائیں گے جس سے ماحولیاتی صفائی میں مزید بہتری اور صحتِ عامہ کی صورتحال بھی اطمینان بخش ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ 

المیہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی خبریں ہمارے لئے اہم نہیں ہوتیں جن میں مفادِ عامہ کی بہتری کی کوئی صورت نکلتی ہو یا ملک و قوم کی معیشت و معاشرت کی ترقی کا کوئی پہلو نظر آتا ہو بلکہ ہمارے لئے اہم اور اہم ترین خبر وہ ہے جو Gossipپر مبنی ہو یا اِس میں تڑکہ ہو ! لہٰذا اس قسم کی بے پر کی افواہ نما خبروں کو ہم بڑے چسکے لے لے کر سنتے ہیں۔

بیان بھی کرتے ہیں اور افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ ایسی کہانیوں پر یقین بھی کرتے ہیں طرہ یہ کہ اصل خبر کو سننا یا جاننا بھی نہیں چاہتے لہٰذا ہمارے عوام کے اسی ’چسکے‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شتربے مہار سوشل میڈیا کے صارف اپنی دکانداری چمکا رہے ہیں۔

’’آئندہ 48گھنٹے انتہائی اہم ہیں، لندن سے بڑی خبر آئیگی ‘‘اس قسم کے ٹویٹ آئے روز کسی قسم کے ایڈیٹر یا ایڈیٹوریل پالیسی سے مبرا لوگ سوشل میڈیا پر پھیلا کر سستی شہرت کا حصول چاہتے ہیں۔ کاؤبوائے رپورٹر قسم کے یہ لوگ معاشرے میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ 

یہ بات درست ہے کہ لندن دنیا کا مرکز ہے خصوصاً پاکستان کی سیاست کے زیادہ تر پلان اسی شہر میں بنتے اور بگڑتے ہیں پاکستان کے سیاسی جلا وطنوں کا ملجاو ماویٰ بھی لندن ہی ہے چنانچہ ہمہ وقت یہ شہر پاکستانیوں کیلئے سیاسی موشگافیوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔ 

یعنی ہمیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں ہے کہ پاکستان ان دنوں کس معاشی دلدل میں دھنس چکا ہے امریکی ڈالر 173کا اور ایک برطانوی پاؤنڈ 238روپے کا ہو چکا ہے، ہو شربا مہنگائی نے پاکستان کی تاریخ کے تمام تر ریکارڈ توڑ دیے ہیں، غربت میں اضافے نے بھی سب ریکارڈ برابر کر دیے، بےروز گاری اور لاقانونیت بھی عروج پر ہے۔ وزیروں و مشیروں کی کرپشن بھی چھپائے نہیں چھپتی لیکن حکومت کی بےحسی اور ہٹ دھرمی بھی ’’لاجواب‘‘ ہے۔ 

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی آمد کا حجم بلند ترین سطح پر پہنچنے کے باوجود معیشت کی گراوٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں شدید ترین مندی کے باعث سرمایہ کاروں کے 50ارب روپے سے زیادہ ڈوب چکے ہیں۔

پاکستان کے ادارۂ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں میں 25اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہو ا ہے غرضیکہ آج جب موجودہ حکومت نے پاکستان میں معاشی و سیاسی عدم استحکام کی ہر حد عبور کر لی ہے ایسے میں عوام کو تو چھوڑیں پوری حکومت کی نظریں اور دماغ فقط اس ایک سوچ پر مرتکز ہیں کہ لندن سے کون سی اہم ترین خبر آتی ہے اور یہ اہم ترین خبر ان کیلئے صرف یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں کیا مصروفیات ہیں۔ 

مثال کے طورپر وہ ہائیڈ پارک میں سیر کر رہے ہیں یا نہیں، وہ کافی پی رہے ہیں یا نہیں، ان کا علاج ہو رہا ہے یا نہیں، ان کے امیگریشن کے کیا معاملات ہیں اور ہاں! یہ کس قسم کے بیمار ہیں کہ پیدل چل رہے ہیں، انہیں واپس لایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ 

یوں لگتا ہے حکومت کے پاس سوائے اس ایک فیملی کی کردار کشی کے دوسرا کوئی کام ہی نہیں رہا۔ ابھی گزرے ہفتے ہی کسی ’سقراط‘ نے ٹویٹ چلائی کہ ’’ اگلے 24گھنٹے انتہائی اہم ہیں، لندن سے بڑی خبر آنے والی ہے‘‘۔ 

یہ صاحب لندن سے نہیں تھے اس لئے لندن کے ’’ گھس بیٹھئے صحافی‘‘ فوری حرکت میں آئے اور نواز شریف سے متعلق اپنی خواہشوں، سوچوں اور خیالوں کو خبر بنا کر اپنا اپنا لچ تلتے دکھائی دیے۔ (تادم تحریر مذکورہ ٹویٹ کو 72 گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن لندن سے کوئی دھماکا خیز بریکنگ نہیں آئی) یعنی، اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ !

ویسے یقین کریں جب لندن سے کو ئی اہم ترین خبر ہو گی تو وہ یقیناً نواز شریف سے متعلق ہی ہو گی لیکن وہ خبر بریک بھی لندن سے ہی ہو گی اور اسے بریک نواز شریف خود کریں گے۔ (اس لائن کی باریکی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ) میاں نواز شریف سے لندن میں کون مل رہا ہے۔ 

بین الاقوامی سیاسی رہنما براہ راست ان سے کب کب کہاں اور کیوں ملاقاتیں کر رہے، نواز شریف کبھی اچانک خاموش کیوں ہو جاتے ہیں، سوشل میڈیا کے پلٹ فارم پر تو ان کیلئے کوئی بندش نہیں ہے ملک میں شدید ترین مہنگائی، ڈالر کی اونچی اُڑان اور ’’آئی ایس آئی‘‘ کے چیف کی تعیناتی کے حالیہ بحران پر وہ کیوں خاموش ہیں؟ 

ان کی صحت و علاج اور امیگریشن کے کیا معاملات ہیں یا ویزہ ایکسٹینشن کے سلسلہ میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ سب صرف انہیں، ان کی فیملی یا انتہائی قریبی افراد کے علم میں ہے چنانچہ یقین کریں لندن سے اگر کوئی اہم خبر آئیگی تو اسے کوئی صحافی بظاہر تو بریک کر ے گا لیکن یہ خبر بریک کروانے والے میاں نواز شریف خود ہوں گے! 

میری اہم خبر تو یہ ہے 24 تو کیا اگلے سو گھنٹوں میں بھی لندن سے کوئی اہم خبر نہیں آنے والی کیونکہ ایسے کوئی آثار نہیں ہیں ابھی تو خبریں یہی ہیں کہ کبھی شہباز شریف اور کبھی اسحاق ڈار لندن کی عدالتوں سے باعزت الزامات سے بری ہونے کی سند پا رہے ہیں۔ 

لہٰذا لگتا تو یوں ہے کہ در پردہ بعض معاملات پر خاموش مفاہمت ہو چکی ہے چنانچہ تسلی رکھیں بڑے سے بڑا ’ٹوئٹر‘ کا نانگا پربت دیکھتا ہی رہ جائے گا اور لندن سے کوئی اہم خبر بریک ہو جائے گی اور ’بریکر‘ میاں صاحب خود ہی ہوں گے لیکن ذریعہ کوئی دوسرا ہو سکتا ہے!

تازہ ترین