گزشتہ شب ایک دوست کے ہاں بیٹھک تھی،انہوں نے پرانے گیتوں کو جمع کر رکھا ہے،کبھی کبھاراُن کے پاس جا کر دو چار گیت سننے کی فرمائش کرتے ہیں، پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتاہے، گزشتہ سے پیوستہ شب جب میںوہاں پہنچا تو وہ فلم ناگ منی کا مشہور گیت سن رہے تھے، علیک سلیک کےبعد میں خاموشی سے بیٹھ گیا اور پھر نثار بزمی کی موسیقی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز اپنے حصار میں لینے لگی...تن تو پہ واروں من تو پہ واروں، بگڑی بنادے توہے رو رو پکاروں ... اس گیت میں ساز و آواز کا جمال پورے جلال کے ساتھ نمایاں ہے، پھراگر وسعتِ نظر ہو اور خیال کی رعنائیاں جواں ہوں تو اداکارہ رانی کا رقص مسحور کئے بنا کیسے چھوڑ سکتا ہے ! پھر دوسرا گیت بھی کیا لاجواب تھا،وہی آواز وہی موسیقی، وہی فلم ناگ منی … من میں اُٹھی نئی ترنگ،ناچے مورا انگ انگ...جیسے ہی گیت ختم ہوا، میں نے کہا یار یاد آیا ان گیتوں کے خالق تو حبیب جالب ہیں، کہنے لگے جبھی تو تم بےخود سے ہوگئے تھے ! حقیقت بھی یہ ہے کہ ماضی کے گیت آج بھی تازگی بخشتے ہیں،پھر جہاں حبیب جالب کی انقلابی شاعری ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے وہاں ان کے کلام کا وہ حصہ جو فلمی گیتوں پر مشتمل ہے اگرچہ اُن میں رومانس کا احساسِ حسیں بھی ملتا ہے لیکن ان میں بھی زیادہ تر نغمے انقلابی و عوامی احساسات کی عکاسی کرتے نظرآتے ہیں ۔ فلم زرقا اور یہ امن کے یادگار گیت حبیب جالب ہی کے قلم کا ورثہ ہیں، یادوں کو تازہ کیجئے، جب فلم زرقا میں خوبرو نیلو زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہوتی ہے اور شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز درو دیوار کو ٹٹولے جاتی ہے۔
تُو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
اس گیت کی دُھن رشید عطر ےصاحب کی تھی اور اس نغمے میں لفظ ’’اللہ‘کی ادائیگی اداکارہ رضیہ نے کی تھی،اس نظم کا پس منظر بھی تاریخی ہے،جناب سعید پرویز نے اسے اپنی کتاب ’حبیب جالب فن و شخصیت،میں جالب صاحب ہی کی زبانی بیان کیا ہے، جالب صاحب کہتے ہیں’’ریاض شاہد ہمارے بڑے عزیز دوست تھے، وہ کافی ہائوس میں ہمارے ساتھ بیٹھا کرتے تھے،بڑے افسانہ نگار اور ناول نگار تھے اور اچھے شاعر بھی تھے، اداکارہ نیلو اپنے دور کی ایک اچھی رقاصہ تھیں اور ان کو اسی خوبی کی بنا پر اکثر فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا اس زمانے میں شہنشاہ ایران کے اعزاز میں جنرل ایوب خان نےکوئی تقریب رکھی تھی، اس کیلئے نیلو کو تیار رہنے کا کہا گیا ، نیلو کے ریاض شاہد سے تعلقات بن رہے تھے(شادی نہیں ہوئی تھی) تو ریاض شاہد نیلو کو منہ پھاڑ کے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ نہ جائو، لیکن نیلو نے محسوس کر لیا کہ ریاض شاہد نہیں چاہتے کہ اس تقریب میں جایا جائے،چنانچہ نیلو بیگم نے حکومت کےاہلکاروں سے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس انکار پرنواب آف کالا باغ کے حکومتی غنڈوں نے نیلو بیگم کو برا بھلا کہا اور طمانچہ بھی مارا، غنڈہ گردی کی انتہا کردی جس پر نیلو نے جواب میں خواب آور گولیاں کھا لیں، میں اور ریاض شاہد اسے دیکھنے یو سی ایچ (یونائیٹڈ کرسچن اسپتال) گئے جب اسے دیکھ کر واپس آرہے تھے تو میں نے ریاض شاہد سے کہا نیلو بیگم نے بڑا ہی ’’اینٹی امپریلسٹ‘‘ کردار ادا کیا ہے اس نے شہنشاہ ایران کے سامنے جو امریکی سامراج کا اس علاقے میں سب سے بڑا ایس ایچ او ہے، ناچنے سے انکار کر دیا ہے اس پر ایک نظم ہو گئی ہے۔ ریاض شاہد نے کہا سنائو، میں نے نظم سنائی
آج قاتل کی یہ مرضی ہے کہ سرکش لڑکی
سرِ مقتل تجھے کوڑوں سے نچایا جائے
موت کا رقص زمانے کو دکھایا جائے
اس طرح ظلم کو نذرانہ دیا جاتا ہے
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
دیکھ فریاد نہ کر، سر نہ جھکا، پائوں اُٹھا
کل کو جو لوگ کریں گے تو ابھی سے کر جا
ناچتے ناچتے آزادی کی خاطر مر جا
منزل ِعشق میں، مر مرکے جیاجاتا ہے
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
یہاں ہم نے وہ نظم نقل کی ہے جو اصل نظم میں موسیقی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے معمولی ردوبدل کے بعد فلم زرقا میں گائی گئی تھی فلم یہ امن کا ایک گیت جو آج بھی معروضی صورتحال کا آئینہ دار ہے، ہمیں حبیب جالب ہی کی یاد دلاتا ہے، ابتدا میں میڈم نور جہاں، اور بعدازاں مہد ی حسن کی آواز نے اسے امر کر دیا …
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
حقیقت یہ ہے کہ جالب جہاں گئے داستاں چھوڑ آئے، فلم سماج کیلئے استاد مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت اس سچ کا اعلان ہے۔
یہ اعجاز ہے، حُسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
کہتے ہیں کہ جالب صاحب کی بطور فلمی نغمہ نگار جو پہلی فلم ریلیز ہوئی تھی اس کا نام ’مس56‘ تھا، جے اے چشتی کی موسیقی میں مہدی حسن اور نذیر بیگم کا گایا ہوا یہ گیت بھی یادوں کو چھیڑتا نظر آتاہے۔
یہ چاندنی، یہ سائے
پہلو میں تم ہو میرے
پھر کیوں نہ پیار آئے
حبیب جالب نے فلمی میدان میں بھی انقلابی نظریات کی آبیاری کیلئے خونِ جگر ارزاں کئے رکھا، فلم ساز و آواز میں مادام نور جہاں کی آواز میں یہ گیت ملاحظہ فرمائیں
کیوں کہیں یہ ستم، آسماں نے کئے
آسماں سے ہمیں کچھ شکایت نہیں
چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی
چھین لیتے ہیں جب چاہتے ہیں خوشی
فلم ’پرائی آگ‘ میں مہدی حسن کا گایاہوا یہ گیت خواجہ خورشید انور کی موسیقی سے مزین ہے۔
اے شامِ غم بتا کہ سحر کتنی دورہے
آنسو نہیں جہاں، وہ نگری کتنی دور ہے
’فلم گھر پیارگھر‘میں مجیب عالم نے جالب صاحب کا جو گیت گایا تھا،اُس کی موسیقی نثار بزمی نےترتیب دی تھی بول تھے۔
بجھے نہ دل، رات کا سفر ہے
یہ نا سمجھ لوگ بے خطا ہیں
ہمارے غم کی کسے خبر ہے
کہا جاتا ہے کہ حبیب جالب نےتین سو فلمی گیت لکھے، مذکورہ گیتوں کے علاوہ یہاں چند مزید وہ گیت پیش خدمت ہیں، جو بہت مقبول ہوئے۔
مل گئی آسماں سے زمیں
آج اس شہر میں کل نئے شہر میں
داغ وہ ہم کو ملا جینے سے نفرت ہو گئی
اس درد کی دنیا سے گزر کیو ں نہیں جاتے
لوگ دیکھیں نہ تماشا میری تنہائی کا
اب اور پریشاں دلِ ناشاد نہ کرنا
میرا ایمان ہے محبت ، محبت کی قسم
خدارا محبت محبت نہ کرنا
فلم یہ امن کا گیت جسے مہدی حسن و ساتھیوں نے گایا تھا،لازوال اور راہ رو ہے
جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرےہیں
اپنی جنگ رہے گی
یہ اوراس طرح کے دوسرے یادگار گیتوں کے خالق حبیب جالب آج ہم میں نہیں ہیں،اسی طرح ان گیتوں کے گائیک ،خاںصاحب مہدی حسن خاں،نور جہاں، نسیم بیگم ،احمد رشدی بھی دنیا سے جاچکے ہیں لیکن ان سدا بہار گیتوں کی صورت میں یہ سب آج بھی زندہ ہیں.. چلتے چلتےحبیب جالب صاحب کا فلم زرقاہی کا ایک گیت پیش خدمت ہے،اسے رشید عطرےصاحب کی موسیقی میںکلاسیکل گلوکارہ نسیم بیگم نے گایا تھا، یہ گیت اُس دور میں جتنا دلکش تھا آج بھی اُتنا ہی فرحت بخش ہے..
میں توڑ کے بلبل کا دل کلیاں بازاروں میں لائی
میں پھول بیچنے آئی، میں پھول بیچنے آئی.....