• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بچپن میں مجھے بہتے پانی اور انسانی مزاج میں بہت یک سانیت نظر آتی تھی۔ پانی اپنی مستی میں مست آہستگی اور روانی سے بہتا چلا جاتا ہے لیکن جیسے ہی اس کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جائے تو یک دَم اُس میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے اور اِسی پرسکون پانی میں شدّت آجاتی ہے۔ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر رکاوٹ توڑ کر آگے بڑھ جائے، یہی انسانی مزاج بھی ہے۔ گہرا ہو تو سمندر کی مانند خاموش اور گہرائی کم ہو تو دریا کی طرح شور کرتا ہوا، رکاوٹ کھڑی کرو تو مشتعل۔ 

وقت گزرا تو محسوس ہوا انسانی احساسات بھی بہتے پانی کی مانند ہیں، بلا روک ٹوک بہنے دیا جائے تو ٹھیک، لیکن اِن پہ بند باندھنے کی کوشش کریں تو اِن میں بھی پانی کی طرح کی شدّت اور ضد پیداہوجاتی ہے۔ ایسی ضد کہ جس کے سامنے انسان بےبس ہو جاتا ہے۔ یہی حال زندگی کا بھی ہے۔ زندگی بادِ مخاف کی طرح ہمیشہ آپ کی مخالف سمت میں رہتی ہے۔ اُسے قابو کرنے اور اپنی سمت میں کرنے کے لیے ہر کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ جتنا اِس سے لڑیں گے، خود اپنا نقصان کریں گے۔ 

زندگی جیسے گزر رہی ہے، اُس کی راہ بدلنے کی کوشش کرنے میں انسان اپنا ہی نقصان کر بیٹھتا ہے۔ اپنا وقت برباد کردیتا ہے۔ زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن کے اُس کی روانی، سُکون برباد کرنے سے بہتر ہے اُس کے نقش قدم پہ چلتے رہیں۔ جو ہو رہا ہے، اُسے قبول کریں، جو نہیں ہو رہا، اُس کے نتائج قبول کرنے کے لیے خود کو تیار رکھیں۔ ہاں البتہ جو ہو رہا ہے، اُسے بہترین طور پہ کریں۔ نتائج نہ سہی، عمل آپ کے اختیار میں ہے۔‘‘

’’لیکن نایاب آپی!! احساسات کو اگر بلا روک ٹوک بہنے دیا جائے، تو کیا وہ ساری عُمر یوں ہی جاری و ساری رہتے ہیں یا پھر ختم ہو جاتے ہیں؟‘‘ ’’دیکھو گڑیا! احساسات و جذبات کی موجودگی کوئی غلط بات نہیں، یہ قدرتی عمل ہے۔ ہر زندہ انسان جذبات و احساسات رکھتا ہے۔ یہ جذبات کسی کےلیے بھی ہو سکتے ہیں۔ اعتراض وہاں اٹھتا ہے، جہاں ماورائے رسائی منزلوں کے لیے احساسات پیدا ہو جائیں۔ 

وہ بھی کچھ غلط نہیں۔ یہ انسانی نفسیات ہے۔ اصل بات شدّت کی ہے۔ یہ شدّت کسی شےمیں بھی ہو، تو صرف غلط نہیں، انتہائی غلط ہے۔ انسانی مزاج میں شدّت زبردستی سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم جب اپنے احساسات کو زبردستی کسی دوسرےرُخ پہ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ مزید شدّت سے اُسی طرف جاتے ہیں، جہاں سے رُخ موڑا ہے۔ بہترین طریقہ یہی ہے کہ جو ہو رہا ہے، ہونے دیا چاہے۔ اعتدال جو ہمارے مذہب کا بھی خاصّہ ہے، اُسے جاری رکھا جائے۔ شدّت مزاجی ہر شے کے لیے زہرِ قاتل ہے‘‘

نایاب کی تحریریں بھی، اُسے نوخیز جوانوں میں خُوب مقبول بنائے رکھتی تھیں۔ وہ کہیں بھی ہوتی، نوجوان اُسے گھیرے رکھتے۔ اُس سے سوالات کرتے۔ نوجوان طبقے کی علم و ادب میں بڑھتی ہوئی دل چسپی پہ وہ بہت خوش تھی، لیکن اس کی نظر میں اچھے ادب کی غیر موجودگی وقت کا اہم بحران تھا۔

………٭٭………

وہ ننّھی چڑیا …موسم کی سختیوں سے… پَروں کو محفوظ رکھنے کے لیے…تنکا تنکا چُن کر آشیانہ سیتی ہے…مگر یہ ہوائیں… خوف بن کر اُسے گھیرے رکھتی ہیں…اور وہ سارا دن ہواؤں کے خوف سے…اپنے آشیانے کو پَروں میں چُھپا رکھتی ہے… موسم کی شدّت…اُس کے پر نوچ ڈالتی ہے… لیکن خوف پھربھی…درد کی شدّت پہ غالب رہتا ہے…خوف بالآخرخوف ہے…ہماری اُمید کے آشیانوں پہ بھی…خوف یونہی پر پھیلائے بیٹھا ہےاور درد کی ہوائیں اُس کے سامنے…کتنی بےبس ہیں۔

جو لوگ خوف، وحشتوں اور خالی پَن کے صحرا میں بھٹکتے رہنے والے ہوں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ درد ایک لطیف احساس ہے۔ خوف، انسان کو درد کی ہر حد پار کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی اُس کا اثر ہر احساس پہ غالب رہتا ہے۔

بارش کے بعد ہر منظر پہلے سے زیادہ نکھرا نکھرا اور حسین لگ رہا تھا۔ کائنات کے مصوّر نے حسین رنگوں کے امتزاج سےجو پینٹنگ کھڑی کر رکھی تھی، وہ کسی بھی ذی شعور کو اپنے سحر میں جکڑنےکی قوت رکھتی تھی۔نیلگوں آسمان، قدرت کے حسین شاہ کار کے طور پہ اپنے حُسن کا جلوہ دِکھا رہا تھا۔ لیکن غادہ ایک اَن جانے خوف میں گِھری ہر منظر سے لاتعلق تھی۔ خوف نے ارد گرد کا ہر شور بےآواز کردیا تھا۔ 

خوف کی شدّت کو کم کرنے کے لیے وہ دُور جا کر خود کو قدرت کے مناظر میں تحلیل کرنا چاہتی تھی، جب اپنے نام کی تکرار پہ اس کے قدم وہیں رُک گئے۔ اُس کے ماں باپ اُس کے بارے میں کچھ گفتگو کر رہے تھے۔ جانے کیوں خوف نے ایک بار پھر اُسے ہلا کر رکھ دیا۔ کسی اَن ہونی کا خوف، جو اُسےمستقل ایک گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔ اُس کی چَھٹی حِس اُسے اُس وقت کی آمد سے خبردار کر رہی تھی۔ اُس نے اُن آوازوں کو سننے کی کوشش کی۔

’’دیکھو، غادہ کی ماں! غادہ کےلیے اس سے بہترین رشتہ ملنا ناممکن ہے۔ وہ وقت کاحاکم ہےاور ہماری بیٹی بھی شہزادی ہے۔ اب وہ حقیقت میں بھی شہزادی بننے جارہی ہے، یہی اس کی قسمت تھی۔ مجھے معلوم تھا اس کے بارے میں… ‘‘ ’’لیکن وہ حاکم ہماری بیٹی سے متعلق آگاہ کیسے ہوا؟‘‘ سوال کرنے والی اُس کی ماں تھی۔ ’’اُس کا فن پارہ دیکھ کر… ہاتھ کی نفاست دیکھ کر۔‘‘ ’’لیکن اُس کے کام میں جتنا سلجھاؤ نظر آتا ہے، وہ خود اُتنی ہی الجھی ہوئی ہے۔‘‘ ’’غادہ کی ماں! تم تو خوامخواہ اس کے بارے میں شکوک و شہبات کا شکار رہتی ہو۔ اتنی ترتیب ہے اُس کی ذات میں، وہ بھی اِس عُمر میں۔‘‘ ’’آپ نہیں جانتے اُسے۔ مَیں ماں ہوں، مَیں سب جانتی ہوں۔ خیر، مَیں اُس سے بات کرتی ہوں اِس بارے میں۔‘‘

غادہ کو تو لگا، جیسے کسی نے پہاڑ اُٹھا کے اُس کے سر پہ دے مارا ہو۔ ’’نہیں… یہ میری منزل نہیں۔ مَیں شہزادی نہیں ہوں۔ مَیں فقیرنی ہوں، طلب گار ہوں۔ مَیں قدرت کا رنگ ہوں، جو کسی آزاد فضا میں اپنے جلوے بکھیرتا رہے۔ مجھےمحلوں کی دیواروں کے پیچھے قید ہونے کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا۔ میری روح تو پہلے ہی کسی اور زمانے میں قید ہے۔ قیدی روح کا جسم بھی قید کر دیا جائے، تو وہ کیوں کر رہائی پاسکے گا۔ 

مَیں پہلے ہی محبوس ہوں، مجھے مزید قید مت کرو۔ یہ ظلم نہ کرو۔‘‘ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹ رہی تھی۔ حواس ساتھ چھوڑ چُکے تھے۔ وہ بُری طرح چلاّ رہی تھی۔ ’’مجھے مزید قید مت کرو۔‘‘ اُس کے والدین سمیت ارد گرد رہنے والے پڑوسی بھی دوڑ کر اُس تک پہنچے تھے۔ وہ مکمل طور پر بےہوش ہو چُکی تھی۔ ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ پڑوس میں رہنے والے عالم، اُس کی حالت کا پتا چلنے پر فوراً اُن کے گھر پہنچے تھے۔ انھوں نے اس پہ دَم کیا۔ ساتھ ہی گھر والوں کو چند ہدایات دیں، لیکن اُن سمیت مرض کی وجوہ سےسب ہی قاصر تھے۔

………٭٭………

روح کے خاموش، پُرسکون سمندر میں دھیرے دھیرے ارتعاش پیدا ہوتا جارہا تھا۔ دل کے قبرستان میں موجود خوابیدہ جذبات آہستہ آہستہ انگڑائی لے رہے تھے۔ ذہن کے زنداں میں قید خیالات، چُپ کے قفل ہٹا کر باہر کی راہیں تلاش کرنےمیں پھر سرگرداں ہو چُکے تھے۔ روح خاموشیوں کے گرداب سے نکل کر غم کی بانسری کی صدا پہ محو رقص تھی۔ خالی پَن کی دُھند ہٹنے لگی تو دل و دماغ کی دنیا میں نئی ہلچل واضح ہونے لگی۔ اندر کی دنیا میں یک دَم آئی اس تبدیلی پہ حیرانی ضروری تھی۔ کئی سالوں بعد مَن کے سمندر میں اٹھتے طوفان کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

رات کی سیاہی بھی آج کچھ نئے احساسات ساتھ لائی تھی۔ فلک پر چند دن کا چاند بادلوں کی اوٹ میں اپنی چاندنی سمیٹ کر پناہ لیے ہوئے تھا۔ رات کے ساڑھے بارہ بج چُکے تھے۔ ہر کوئی نیند کی آغوش میں چُھپ کر دن بھر کی تھکاوٹ، پریشانیاں بھول چُکا تھا۔ مَیں بھی اپنے کمرے میں نرم و ملائم بستر پر سونے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ کمرے میں مکمل تاریکی کا راج تھا۔ کھڑکی سے باہر بارش کی بوندوں کا شور کسی ہلکی موسیقی کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن یہی موسیقی مجھ پر کسی ٹھوکر کی طرح حملہ آور ہو رہی تھی۔ پچھلے تین گھنٹے سے مَیں سونے کی کوشش میں لگا ہوا تھا، مگر نیند ہمیشہ کی طرح آج بھی مجھ سے خفا تھی۔

کئی دن گزرچُکےتھے۔ مَیں اب تک اُسےسوچ رہا تھا۔ فن پارے سے اُس کی ذات تک کا سفر۔ تصوّر میں اُس کی تصویر سجا کر اُسے دیکھنے کی اوکھی حسرت رات کےاس پہرمزیدبڑھ چُکی تھی۔ حسین تصوّرات، حسین احساسات، لیکن بےمنزل راہ کا غم۔ ’’تمہاری روح کی کشمکش کی دوا اکائی ہی ہے۔ تمہاری روح کو ایک نقطہ درکار ہے۔ 

جب تک روح ایک نقطے کے گرد طواف کرنا نہیں سیکھ پاتی، وہ ہمیشہ بھٹکتی رہتی ہے۔‘‘ اُس مَن چلی لڑکی کی زندگی میں کتنا سلجھاؤ آ چکا ہے۔ آخر کیا ہے،جس نے ایک مَن چلی کی ذات کو سنجیدگی سے بدل دیا اور مَیں ایک سینیئر تخلیق کار ہو کے بھی ابھی تک اپنی وحشتوں کی دوا بھی تلاش نہیں کر پایا۔ شاید مجھے بھی اکائی درکار ہے۔ یہی اکائی میری دوا ہے۔ قدرت کی طرف سے ابتدا ہو چُکی ہے اب وہی اسے تکمیل تک پہنچائے گی۔

………٭٭………

’’شخصیت پرستی بھی بُت پرستی جیسی ہی ہے - برسوں آپ شخصیت کا بُت اپنے سامنے سجائے بیٹھے رہیں، اُسےپوجتےرہیں۔ کوئی اُسے گرانے کی کوشش کرے، تو پھر بھی اُسےدوبارہ مسندپربٹھاکر عقیدت جاری رکھیں۔ پھر جب شخصیت کا بُت خود اپنے آپ کو آپ کے قدموں میں گرا دے - سب اعتماد توڑ ڈالے، تو اس لمحے احساس ہوتا ہے، بُت تو بُت ہوتا ہے، مٹّی کا ہو یا شخصیت کا۔‘‘ ثانیہ اُس کی بات پہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

’’اسراء! مجھے ایک بات بتاؤ؟‘‘ ’’ہاں، پوچھو؟‘‘ اسراء نے موبائل سے سَر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’تم آخر چاہتی کیا ہو؟‘‘’’کس کے بارے میں بات کر رہی ہو؟‘‘’’دیکھو اسراء! ہر شخص کے زندگی کے کچھ پلانز ہوتے ہیں۔ تمہیں مَیں نے ہمیشہ بہاؤ کے ساتھ بہتے دیکھا ہے۔ تمہارا اپنا کوئی رُخ نہیں؟‘‘ ’’نہیں۔ مَیں تو اُس کشتی کی طرح ہوں، جو ساحل کے بیچ طوفانوں میں گِھری ہواؤں کے انتظار میں ہے کہ وہ اُسے کسی راہ پہ ڈال دیں۔‘‘ اسراء نے بےبسی سے کہا۔ ’’ایسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کےسمت کے متعیّن ہونے کا خیال بےوقوفانہ ہے۔‘‘ثانیہ اس کی منطق پہ حیران تھی۔ ’’جو طلب میری ہے، اُس راہ میں بےوقوفی ہی عقل مندی ہے۔ 

وہاں اپنی سوچ، اپنے ارادے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس راہ پہ ڈال دیے جاؤ، چلتے چلو۔ خیر ہی خیر ہوگی۔‘‘’’تم غضنفر صاحب کے بارے میں شکوک کا شکار کیوں ہو۔ تمہاری زندگی میں اُن کی آمد بھی تو قدرت کی طرف سے ہے۔ پھر تم اُن کے پُرخلوص جذبات کو بت پرستی کیسے کہہ سکتی ہے۔‘‘ ’’پہلے آپ فیصلہ کرلیں، آپ میری دوست ہیں یا…‘‘ اُس نے مُسکراتے ہوئے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ 

’’ویسے سچّی بات کہوں، تو اِس وقت میری نظر میں آپ سے زیادہ ظالم انسان روئے زمین پہ کوئی نہیں۔‘‘ ’’ثانیہ! اگر آپ حقیقی رُخ دیکھ پاتیں، تو مجھے داد دیتیں۔‘‘ ’’کیا بات ہے آخر۔ مَیں تمہاری دوست ہوں، کُھل کے بتاؤ مجھے۔ معاملہ کیاہے؟‘‘ ’’ثانیہ!شادی سمجھوتے کا نام ہے۔ یہ مکمل ڈیڈیکیشن ہے۔ مَیں جو کئی رُوپ کی تہوں میں دفن اپنی ذات میں اُلجھی ہوئی ہوں۔ مَیں کسی کو کیا دے سکتی ہوں بھلا۔‘‘’’اچھا ٹھیک۔ لیکن یہ بات اُنھیں آپ خود بتائیں۔ ایک مرتبہ ملنے میں کیا حرج ہے؟‘‘

………٭٭………

’’کبھی کبھی محض ایک تصوّر،خیالات کی محدود دنیا کو وسعت عطا کردیتا ہے۔ خیالات کی بےرنگ سی دنیا کو رنگینی بخش دیتا ہے۔ خیالات کی منزلِ مقصود پھر کوئی منزل نہیں رہتی۔ خیالات کے سفر کا کوئی پڑاؤ نہیں رہتا۔ پھر معلوم ہے، کیا ہوتا ہے منزلیں خود بخود خیالات کی قدم بوسی کو چل پڑتی ہیں۔ یہ سب ایسےہی تصوّر سے ممکن ہوتا ہے جو خیالات کا نظریہ بدل دے۔ خیالات کو نئے زاویے عطا کرے۔ جانتی ہو، تم بھی میری ایک ایسی ہی سوچ ہو۔ مگر یاد رکھنا، مَیں تمہاری دنیا کے لوگوں سےبہت مختلف ہوں۔ مَیں تصوّر کو خیالات پہ حاوی نہیں ہونے دیتا۔ 

مَیں تو وقت کو بھی تابع رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، پھر خیالات یا کوئی سوچ کیسے مجھے اپنے گرداب میں جکڑ سکتی ہے۔ مَیں تمہاری دنیا کے لوگوں کی طرح انتہا پسند نہیں ہوں۔ جن کے خیالات، عادات، اطوار سب ہی سے انتہا پسندی جھلکتی ہے۔ ایک بات کبھی مت بھولنا سیدھی سمت میں ہمیشہ درمیانی راستہ ہی جاتا ہے۔ تمہاری قوم کے لوگ یا تو مکمل دائیں جانب جُھک جاتے ہیں یا بائیں جانب۔ اُن کی زندگیاں اپنے انتہا پسند خیالات کا دفاع کرنے میں گزر جاتی ہیں۔ یہ سب اپنی سوچوں کے غلام ہیں اور یہی خیالات پھر عادات بھی بن جاتے ہیں اور اطوار بھی اور پھر جمہور کا قومی مزاج بھی۔

معاف کرنا، میرےخط لکھنے کا مقصد تمہاری دنیا کے لوگوں کی نفسیات بیان کرنا ہرگز نہیں تھا۔ نہ مجھے اُن سب سے غرض ہے۔ میری تو اپنی دنیا ہے، ایک مکمل دنیا، جہاں کے قوانیں، اصول وضوابط سمجھنا تم لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ 

خیر، مجھے تمہاری دنیا سےگلہ سہی، تم سے نہیں۔ ہرگز بھی نہیں۔ تم تو وہ سوچ ہو، جس کی وجہ سے شاعر لفظوں کے فن میں نیاپن لاتے ہیں، تم تو وہ عکس ہو، جسے مصوّر تصویر میں بدل کے اپنے فن کی داد پاتے ہیں۔ تم تو وہ تاثیر ہو، جو داستانوں کو صدیوں کے لیے امر کردیتی ہے۔ خالق نے تمہیں اُتارا ہی اِسی لیے ہے کہ زمین پہ موجود تخلیق کاروں کو فنِ تخلیق میں امر کرکے خود سے رُوشناس کروا سکے۔ جانتی ہو، ان تخلیق کاروں سے بہتر خالق کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

میرا یہ خط بھی تاریخ میں امر ہوگا اور وجہ تم ہو گی۔ تم ایک ذریعہ ہو، مجھے فن کی منزلوں پہ پہنچانےکا یا پھر خالق سے ملوانے کا۔ مگر یاد رکھنا میری سوچیں میرے دائرہ اختیار میں ہیں۔ مَیں تمہاری دنیا کے لوگوں کی طرح سوچ کی قید جھیلنے کا قائل نہیں، نہ ہی میری منزلیں محدود ہیں۔ مَیں اپنے سفر میں پڑاؤ کا بھی قائل نہیں، نہ ہی میرے خیالات کا کہیں پڑاؤ ہو سکتا ہے۔ 

یہ کائنات بھی مسلسل سفر میں ہے۔ اور انسان بھی ایک مکمل کائنات ہے۔ اللہ نے اُسے مکمل کائنات بھی بنایا ہے، کائنات میں ایک ذرّہ بھی اور اپنی بہت سی صفات کے ساتھ اُسے تخلیقی صفت بھی عطا کردی ہے۔ سو، اُس کی منزلیں بھی لامحدود کر دی ہیں۔ وہ کوئی عام تخلیق نہیں، جو ایک سوچ کے تابع اپنی زندگی تیاگ دے۔ اپنی آزادی فروخت کر دے۔ اپنی منزلیں محدود کر دے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین