’’بات کی آپ نے اُن سے…؟‘‘ ایڈوکیٹ غضنفر نے اپنی پوری توجّہ سمیٹتے ہوئے ثانیہ سے دریافت کیا۔ ’’جی، مگر…!‘‘’’مگرکیاثانیہ…؟‘‘ ’’ایڈوکیٹ صاحب! آپ خوامخواہ پتھر سےسرٹکرا رہےہیں۔ محض وقت کا ضیاع ہےیہ۔‘‘ ’’دیکھیں محترمہ! مَیں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے معرکے سَر کیے ہیں۔ ابھی تک جیت کے علاوہ کوئی آپشن قبول نہیں کیا۔ اِس وقت وکالت ہی میں میری پہچان دیکھیں۔ کبھی کوئی کیس ہارا نہیں ہوں۔‘‘ ’’کیس جیتنے اور انسان کو جیتنے میں بہت فرق ہوتاہے۔‘‘
’’آخر کیاکمی ہے مجھ میں۔ کئی لڑکیاں انٹرسٹڈ ہیں شادی کے لیے۔ وہ سب کچھ تو ہے میرے پاس، جو ایک لڑکی چاہ سکتی ہے۔‘‘ ’’آپ اُس کا موازنہ عام لڑکیوں سے مت کیجیےگا۔ مَیں نے ۸ سال گزارے ہیں اسراء کے ساتھ۔ لیکن آج تک اُسے سمجھ نہیں پائی۔ ہاں اتنا ضرور جانا ہے کہ یہ جو مُسکراہٹ اُس کے چہرے پہ سجی رہتی ہے، اُس کے پیچھے ہی اُس کی حقیقت چُھپی ہے۔ نہ اُس نے کبھی مجھے بتانے کی کوشش کی، نہ مَیں نے جاننے کی۔ آپ کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اپنا وقت برباد مت کیجیے۔ اور یہی اسراء کا بھی آپ کے لیے پیغام ہے۔‘‘
’’میری ملاقات کرواسکتی ہیں آپ اُن سے؟‘‘ غضنفر نے بےچارگی سے التجا کی۔ ’’ناممکن بات ہے۔‘‘’’بس ایک مرتبہ آپ کی موجودگی ہی میں مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘’’چلیں، کوشش کرتی ہوں مَیں‘‘ ثانیہ کو اندازہ تھا، یہ ناممکن سی بات ہے، مگر پھر بھی حامی بھر لی۔ ’’اُف! ایڈوکیٹ غضنفر ایک مضبوط، بارعب شخصیت کا حامل شخص، ایک لڑکی کی وجہ سے خود کو کتنا بےبس محسوس کر رہا ہے۔‘‘ اس نے بےبسی سے سوچا۔
………٭٭………
’’کام یابی بہت بہت مبارک ہو نایاب۔‘‘ عنزہ نے خُوشی سے چہکتے ہوئے نایاب کو شاعری میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کی۔ ’’خیر مبارک۔‘‘ نایاب نے بےدلی سے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اِن چند سالوں نے نایاب کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔ اب وہ پہلی سی ہنستی مُسکراتی، اڑتی پھرتی نایاب رہی ہی نہیں تھی۔ عنزہ اس تبدیلی کی سبب سے آگاہ ضرور تھی، مگر معاملے کی نزاکت سمجھنا اُس کے لیے ممکن نہ تھا۔ جب کبھی اس نے نایاب سے کچھ دریافت کیا، وہ ہنس کر ٹال جاتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ نایاب کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ وہ کیوں اس طرح خود پہ ضبط کے پہرے لگائےہوئے ہے۔ مرض کی تشخیص کے باوجود اُسے لادوا کیوں بنا رکھا ہے۔
’’نایاب! یہ جوتم نے اپنے کمرے میں رسیم کی پینٹنگز سجارکھی ہیں، تمہیں کہاں سےاور کیسے ملیں، وہ تو کسی کو اپنی پینٹنگز فروخت ہی نہیں کرتا …‘‘ عنزہ نےکئی روز سے ہونٹوں پر مچلتا سوال بالاخر پوچھ ہی ڈالا۔
’’اُس نے میری پسندیدگی کومدنظررکھتےہوئے مجھے خود عنایت کی ہیں۔‘‘ ’’کیا وہ اپنی تخلیقات سے متعلق تمہارے احساسات و جذبات جانتا ہے، اور جانتا ہے، تو کیا ردعمل کیا ہے؟ ویسے اگر وہ ایک مشہور مصوّر ہے، تو تم بھی اب ادب کی دنیا کی منفرد پہچان ہو، تو پھریہ کیسی کشمکش ہے…؟‘‘
’’عنزہ! وہ قیدی ہے۔ قیدیوں کو سوائے اپنی قید کےکچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اُنھیں باہر کےحسین موسموں سےکوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اُنھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ باہر کی دنیا میں کتنے طوفان بپا ہیں۔ اُن کی کُل کائنات اُن کا زندان ہوتا ہے۔ جانتی ہو، جب کوئی قید ہوتا ہے تو اُس کی سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے کی صلاحیتیں بھی مفلوج ہوجاتی ہیں۔ وہ صرف زندان کی دیواروں اور پاؤں میں پڑی بیڑیوں ہی کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔
وہ صرف قید کی تکالیف ہی کومحسوس کرسکتاہے۔ اُس کی آنکھیں زندان سے باہر لگی آگ کو بھی نہیں دیکھ پاتیں۔ کان باہر قیامت جیسے شور کو سُننے کے بھی قابل نہیں رہتے…تو کسی کے احساسات و جذبات اس کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟ وہ قیدی ہے اور قیدی کا دل و دماغ بھی اُس کے ساتھ ہی قید ہو جاتا ہے۔ ایک قیدی کے خواب و خیال کا محور صرف اور صرف آزادی ہی ہوتی ہے۔ بس…‘‘
………٭٭………
’’کون ہو تم…؟‘‘دنیاجہاں سے بےخبر، میز پہ بکھرے کاغذوں کو سمیٹتے ہوئے اُس کے کانوں میں پڑنے والے الفاظ محض الفاظ نہیں، جیسے کوئی بم تھا جس کی آواز سُنتے ہی اس کے جسم میں خوف وحیرت کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اُس نے سامنے موجود شخص کو دیکھا، جس کی آنکھیں صرف آنکھیں ہی نہیں، روح کو جانچنے والا آلہ تھیں۔ جو ابھی بھی اُسی پہ مرکوز تھیں۔ وہ حسّاس روح اُن آنکھوں کی تاب کہاں تک لا سکتی تھی۔ کچھ کہنے کے لیے زبان کھولی، تو جیسے اُس کی قوّت گویائی سلب ہو چُکی تھی۔
حیرت کا بُت بنے، وہ سامنے والے کو نہ دیکھتے ہوئے بھی دیکھ رہی ہے۔ اُسے نہیں معلوم تھا، اُس کی حقیقت کا راز یوں کسی کے سامنے افشاں ہو جائے گا۔ اُسے معلوم ہو چُکاتھاکہ سامنےوالا اُس سے ظاہری تعارف حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن جو سوال اُس نے پوچھا، اس کا جواب تو اُسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔ البتہ اِس بات کا اندازہ ضرور تھا کہ وہ، وہ نہیں، جو وہ ہے یا پھرجس کا وہ ناٹک کرتی ہے۔ یہ رُوپ تو ایک پردہ تھا، جوکسی حقیقت پر پڑاہوا تھا۔ کسی اور ہی رُوپ پہ، جس سے وہ خود بھی آگاہ نہیں تھی۔
’’کون ہو تم…؟‘‘ انتہائی بارعب، گرج دار آواز میں سوال پھر سے دہرایا گیا۔ اسراء کہنا چاہتی تھی کہ اُسے کچھ معلوم نہیں، لیکن زبان اُس کی شخصیت کے رُعب کے سامنے کچھ بھی کہنے سے قاصر تھی۔ سو، اپنی پوری طاقت مجتمع کرتے ہوئے اس نے دوڑ لگا دی۔ ہاتھ میں سمیٹے ہوئے کاغذ جابجابکھرگئے تھے۔ اور وہ دیوانوں کی طرح سرپٹ دوڑ ے جا رہی تھی۔
روحانیت کے موضوع پہ لکھی گئی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ اسراء ایک نوجوان دانش وَر کے طور پہ مدعو تھی۔ وہاں روحانیت میں دل چسپی رکھنے والی مُلک کی کئی شخصیات مدعو تھیں۔ چوں کہ روحانیت میں دل چسپی رکھنے والا ذات کےاندرذات پہ نظرمرکوزرکھتا ہے، سو اُن شخصیات کی اکثریت اعلیٰ پائے کا علم رکھنے کے باوجور نام وری کی سیڑھی طے نہ کر پائی تھیں۔ نہ ہی یہ اُن کی طلب تھی۔ البتہ جو اُنھیں جان گیا، وہ جھولیاں بھر بھرفیض پا گیا۔ بابا محمّد علی بھی اُن ہی میں سے ایک تھے۔
کئی عقیدت مندوں کے باوجود ہر جگہ تنہا موجود ہوتے۔ البتہ اُن کے گھر ہر ہفتے ایک نشست رکھی جاتی، جس میں وہ روح کے راز یوں کھول کر بیان کرتے کہ جو بھی آتا، سیر ہوئے بغیر نہ جاتا۔ اُنھیں اللہ نے چہرہ شناسی کی قوّت بھی عطا کر رکھی تھی۔ اُنھیں معلوم ہو جاتا کون طالب ہے، کون طلب کے کس مقام پر ہے، کس کی کیا ضرورت ہے۔ اسراء کو وہ دو مرتبہ دیکھ چُکے تھے، اُس کی خاموشی کے پیچھے چُھپے شور کےطوفان سے آگاہ تھے۔ لیکن اسراء جانتی تھی کہ اگر اُس نے اُس راہ پرقدم رکھ دیے تو پھر نہ جانے آگاہی کے کتنے درجے جھیلنے ہوں گے کہ رُوح کی دوا آسانی سے کہاں میسّر آتی ہے۔
………٭٭………
سال 1550 تدمر (پالمیرا) [ملک شام کا ایک شہر]
’’یہ تم کیا ہر وقت گُم صُم سی بیٹھی رہتی ہو، میری بیٹی…کام کےعلاوہ کچھ بات بھی کیا کرو۔‘‘ ’’گونگا شخص کیا بول سکتا ہے ماں؟‘‘ ’’ہائے میری بچّی! کیسی باتیں کر رہی ہے، گونگے ہوں تیرے دشمن۔‘‘ ’’امّاں جان! بددُعا دشمن کو بھی نہیں دیتے۔‘‘ اُس نے اُداسی سے کہا۔ ’’پھر کیوں اپنے بارے میں ایسا کہتی ہو تم؟‘‘ ’’جو اپنے اندر کی دنیا کے حالات کسی سے بیان کرنے کے قابل نہ ہو۔ جو اپنے احساسات و جذبات کو زبان نہ دے پائے، وہ گونگا ہی تو ہے ماں۔‘‘ ’’میری بچّی! جانے کیوں مجھے لگتا ہے، تجھ پہ کسی آسیب کا سایہ ہوگیا ہے، تب ہی تم ایسے گُم صُم رہتی ہو اور باتیں بھی کیسی بہکی بہکی کر رہی ہو…‘‘
’’مَیں وقت کے کسی اور زمانے سے تعلق رکھتی ہوں ماں۔ مَیں غلط جگہ، غلط زمانے میں آچُکی ہوں۔‘‘ وہ صرف سوچ کر رہ گئی۔ اگر اظہار کرتی تو اُس کی ماں کا، اُس پہ کسی آسیب کا سایہ ہونے کا شک یقین میں بدل جاتا۔ ایک مرتبہ پھر ہر سُو خاموشی طاری ہو چُکی تھی۔ مدھم سی دُھن پہ یہ الفاظ اس کی روح میں پھر سے رقص کرنے لگے تھے۔ ؎ کوئی جو میرے کرب کو…نقش بنا کر ثبت کرے…کوئی جو رنگ کو رُوپ دے … جو میری رُوح میں بستا ہے…کوئی جو میری راہ میں …وقف کرے ستاروں کو…ہمراہی میں جن کی مَیں…اُڑتی جاؤں آسمانوں تک…کوئی جو پڑھ کے مجھے…بیان کرے، اظہار کرے…میری خاموش داستاں کو…آ کر لفظوں کی زباں دے۔
سترہ سال کی وہ لڑکی اپنی ہم عُمر لڑکیوں سے ہر لحاظ سے مختلف تھی۔ جہاں حُسن میں اُس کا کوئی ثانی نہیں تھا، وہیں اُس کے کام کی نفاست کا ہر کوئی معترف تھا۔ البتہ اُس کی پُراسرار شخصیت اُس کے گھر والوں کے لیے ایک معمّا بنی ہوئی تھی۔ اُس کی اِسی پُراسرار شخصیت کی بنا پر لوگ اُس سے خوف کھاتے تھے۔ البتہ سب جانتے تھے کہ جس وقت اُس پہ یہ کیفیت طاری ہوتی ہے، وہ بہترین تخلیقات تیار کرتی ہے کہ جن کے منہ مانگے دام اُس کے تاجر خاندان کو مل جاتے ہیں۔
………٭٭………
’’السّلامُ علیکم سر! کیسے ہیں آپ؟‘‘سوال کرنے والا شخص شاید اُسی میوزیم میں کام کرتا تھا۔ ’’مجھے کیسا ہوناہے، جیسا ہوں آپ کے سامنے ہوں۔‘‘
مَیں ہمیشہ بولنےکےبعد اپنے الفاظ تولتا ہوں۔ کوشش تو یہی ہوتی ہے، میرا اندر جو میرے انداز سے تو جھلکنے لگا ہے، کم از کم زبان سے ظاہر نہ ہو۔ لیکن مَیں کہاں اپنے اختیار میں ہوں، پھر بھی یہ مالک کا احسان ہے کہ مجھے خبطی سمجھنے کے باوجود میری مصوّری کی وجہ سے لوگ مجھ سے محبّت رکھتے ہیں۔ اُن کی نظر میں، مَیں مُلک کا بہترین مصوّر ہوں۔
’’سر! آپ سے اس فن پارے کے بارے میں بات کرنی ہے؟‘‘ فن پارے کا سنتے ہی میرا پور پور چوکنّا ہو چُکا تھا۔ ’’ہاں ہاں کہو،کیا بات کرنی ہے؟‘‘ ’’سر! اس فن پارےسے متعلق تاریخ دانوں نے ایک عرصے سے تحقیق شروع کر رکھی تھی، وہ مکمل ہو چُکی ہے۔ اِس میں کچھ نئی باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ میرے پاس تمام معلومات تحریری صُورت میں موجود ہیں۔ آپ کی دل چسپی کو مدّنظر رکھتے ہوئے میں آپ کو وہ تمام معلومات دے سکتا ہوں۔‘‘ ’’اِس سے بڑھ کر اِس وقت شاید ہی مجھ پہ کوئی اور احسان ہوسکتاہے۔ مَیں تادمِ مرگ تمہارا ممنون رہوں گا۔‘‘ ’’یہ لیجیے سر۔ مَیں آپ کے فنِ مصوّری کا بہت بڑا فین ہوں۔ یہ میرے لیے خوشی کا موقع ہے کہ آپ کے کسی کام آ سکوں۔‘‘ مَیں نے کانپتے ہاتھوں سے ان معلومات کو ایسے تھاما، جیسے جہاں بھر کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہوں۔
گھر پہنچ کر جب مَیں نے اُن کاغذات کا مطالعہ کیا، مجھے محسوس ہوا، مَیں خود بھی وقت کے اس پہر میں پہنچ چُکا ہوں، جہاں اس فن پارے کا تخلیق کار رہتا، بلکہ رہتی ہے۔ ہاں… جو پہلا انکشاف مجھ پہ ہوا، وہ یہی تھا کہ یہ فن پارہ جن ہاتھوں کی تخلیق ہے، وہ کسی مرد کے نہیں، عورت کے ہیں۔ ۱۶ ویںصدی کا یہ فن پارہ شام کے شہر تدمر (پالمیرا) کے مشہور کاشی گر خاندان کی ایک لڑکی، غادہ کا ہے، جس کے ہاتھوں کی نفاست کی شہرت دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ قیمتی فن پارہ یہاں کسی بادشاہ کو تحفے میں عطا کیا گیا تھا۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لڑکی نوجوانی ہی میں چل بسی تھی۔
………٭٭………
’’وقت کے عظیم مصوّر! سلامِ مسنون!!
لوگ کہتے ہیں کہ میری تحریر کی روانی دریاؤں کی طغیانی سے بھی زیادہ تیز تر و پُراثر ہے۔ لیکن میرے الفاظ کی روانی تمہاری خاموشی سے ہمیشہ مات کھا جاتی ہے۔ الفاظ کی طاقت کا گرویدہ ایک جہاں ہے، مگرجوطاقت خاموشی میں ہے، وہ الفاظ میں کبھی نہیں ہو سکتی۔ لیکن مَیں جب خاموشیوں کا بار اُٹھا اُٹھا کر تھک جاتی ہوں تو یہی خاموشیاں الفاظ کا روپ دھار کر چنگھاڑنے لگتی ہیں۔ روح کے زخم جب خاموشی کے مرہم سے شفا یاب نہیں ہو پاتے تو وہاں الفاظ مسیحائی کا کام دیتے ہیں۔ تم نے میرے بہار نامے کے جواب میں لکھا تھا کہ مَیں روشنیوں کے گرد منڈلانے والا جگنو ہوں، جو وجد میں آکر اُس روشنی ہی کو اپنی کائنات سمجھتے ہوئے اپنی جان تک لُٹا دیتا ہے۔
معاف کرنا، مَیں ایک سادہ سی انسان ہوں، جو کبھی تمہاری پہچیدہ فلسفیانہ سوچ تک نہیں پہنچ سکتی، البتہ اتنا کہنے کی جسارت کر رہی ہوں کہ تمہاری روح کی کشمکش کی دوا اکائی ہی ہے۔ تمہاری روح کو ایک نقطہ درکار ہے۔ جب تک روح ایک نقطے کے گرد طواف کرنا نہیں سیکھ پاتی، وہ ہمیشہ بھٹکتی رہتی ہے۔ دماغ پیچیدگیوں کے گرداب میں جکڑا رہتا ہے۔ کائنات بھی ایک نقطے کے گرد منڈلارہی ہے۔
اِس نقطے کی کشش اُسے غیر متزلزل رکھتی ہے۔ تمہاری حیثیت بھی میری زندگی میں کچھ ایسی ہی ہے۔ مجھے چوں کہ انسانی نفسیات میں بےحد دل چسپی ہے، سو آج سے چند برس قبل تم سے پہلی ملاقات ہی پر مَیں نے جان لیا تھا کہ تم ایک لادوا مرض کا شکار ہو۔ پھر تمہاری ذات کی گرہیں کھولتے کھولتے مَیں نے خود فراموشی کی اذّیت جھیل کر نہ صرف تمہارے، بلکہ اپنےجہاں کی بھی ہر بےچین روح کی دوا دریافت کی ہے۔ مجھے اس راز کو پانے کے لیے خود کو کھونا پڑا ہے، لیکن کھونے کےبغیر بھلا کب کچھ ملتا ہے۔ اپنی ذات کو جلا کر میں نے روح کی پائیداری کا راز حاصل کیا ہے۔ تمہاری مسیحا ہونے کے ناتے یہ راز آج میں تم پہ فاش کرنے جا رہی ہوں۔‘‘
نایاب
(جاری ہے)