کوچوان ’’تانگے والا‘‘ ہمارے سماج کا وہ محنت کش ہے، جو مسافروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرکے اپنی روزی کا حصول ممکن بناتا ہے۔ رائٹرز اور فلم میکرز نے تانگہ بان طبقے کے اس نمائندہ کردار کوہمیشہ غیرت، جفاکشی اور شرافت کا سمپل ظاہر کیا۔ منٹو کا شاہ کار افسانہ ’’جُھمکے‘‘ میں ایک غیرت مند اور جفاکش ’’تانگہ بان‘‘ کو مرکزیت دی گئی۔ پاکستانی فلم میکرز نے بھی اپنی متعدد فلموں میں ’’کوچوان‘‘ کے کردار کو کہیں جزوی طور پر اور کہیں مرکزی شخصیت کے طور پر پیش کیا۔
فلموں میں ’’کوچوان‘‘ کے کردار سے جڑی ایک خاص بات بھی قابل ذکر رہی ہے کہ جب جب ’’کوچوان‘‘ کا کردار فلم کی وساطت سے سامنے آیا، تو اس پر کوئی نہ کوئی یادگار نغمہ بھی ضرور پکچرائز ہوا۔ جوکہ موسیقی کے شائقین کی سماعتوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رچ بس گیا۔ ہماری یادداشت کے مطابق پاکستانی فلم پہلی بار ’’کوچوان‘‘ کا قابل ذکر کردار پاکستانی فلموں کے ممتازفلم میکر انور کمال پاشا کی اعلیٰ معیار کی حامل منفرد اور یادگار تخلیق ’’گمنام‘‘ 1954ء میں سامنے آیا، جسے پاشا کیمپ کے مستقل آرٹسٹ ابتدائی دور کے معروف کامیڈین ’’آصف جاہ‘‘ نے ادا کیا تھا۔
یہ ایک بگھی چلانے والے کا کردار تھا کہ جس سے کہانی کے ہیرو سدھیر کی ملاقات ایک ’’گمنام‘‘ بستی میں ہوتی ہے۔ سدھیر کو بستی کے مکھیا تک پہنچانے کے لیے آصف جاہ اپنی بگھی میں بٹھا کر سفر کا آغاز کرتے ہیں، تو ان کے لبوں سے یہ گیت ’’چل بھاگ یہاں سے بھاگ رے بھیا دُنیا بڑی سیانی‘‘ رواں ہوتا ہے۔ اس گیت کو ابتدائی دور کے گلوکار فضل حسین نے گایا تھا۔ تنویر نقوی کے تخلیق کردہ اس گیت کی دُھن ماسٹر عنایت حسین نے مرتب کی تھی۔ یہ گیت زبان زدعام تو نہ ہوا، لیکن ایک حد تک ضرور مقبول ہوا۔
1957ء کی ریلیز ہدایت کار ایم جے رانا کی فلم ’’یکے والی‘‘ جوکہ اپنے عنوان سے ہی ظاہر کرتی ہے کہ یہ ’’کوچوان‘‘ کی زندگی کو فوکس کرتی ہے لیکن ’’یکے والی‘‘ کا کوچوان کوئی مرد نہیںتھا بلکہ فلم کی ہیروئن پچاس کی دہائی کی مقبول ترین فن کارہ ’’مسرت نذیر‘‘ نے فلم میں کوچوان بنیں اور ’’یکے والی‘‘ کا روپ دھارا تھا۔
یکہ چلاتے ہوئے مسرت نذیر پر فلم بند ہونے والا گیت ’’کلی سواری بھئی۔ بھاٹی، لوہاری بھئی‘‘ نے فلم کی نمائش کے دنوں میں مقبولیت اور پسندیدگی کے لیے ریکارڈ قائم کیے۔ یہ گیت زبیدہ خانم نے گایا تھا۔ گیت کے شاعر اسماعیل متوالا تھے، جب کہ اس کے موسیقار تھے جی اے چشتی۔ ’’یکے والی‘‘ اپنے وقت کی بلاک بسٹر کام یابی حاصل کرنے والی فلم تھی، جس نے لاہور میں شان دار گولڈن جوبلی منائی اور کراچی میں 30ہفتے چل کر نمایاں بزنس حاصل کیا۔
’’تانگے والا خیر منگدا۔ تانگہ لاہور دا ہووے تے پاویں جھنگ دا۔ تانگے والا خیر منگدا‘‘ مسعود رانا کا گایا ہوا یہ سدا بہار گیت 1964ء میں ریلیز ہونے والی کام یاب پنجابی فلم ’’ڈاچی‘‘ میں فلم کے ہیرو لالہ سدھیر پر تانگہ چلاتے ہوئے فلمایا گیا تھا۔ ظاہرہے کہ فلم میں ان کا کردار ایک ’’کوچوان‘‘ کا تھا۔ اس گیت کی شاعری بے حد معنی خیز اور ایک کوچوان کے مشاہدے اور محسوسات کی بہترین ترجمان تھی۔ پنجابی زبان کے شیکسپیئر حزیں قادری نے یہ گیت تخلیق کیا تھا۔ مصنف ہدایت کار نذیر اجمیری کی بامقصد معاشرتی فلم ’’دل کے ٹکڑے‘‘ کا بنیادی خیال تو بچے اغوا کرنے والے سماج دشمن عناصر کے حوالے سے تھا ، لیکن کہانی میں اکبر تانگے والے کا کردار بھی مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔
یہ کردار گریٹ فن کار محمد علی نے ادا کیا تھا۔ یہ ایک دیانت دار، بہادر، غیور اور محنتی کوچوان کی تمثیل تھی، جسے محمد علی نے عمدگی سے نبھایا۔ تانگہ چلاتے ہوئے ان پر فلم بند احمد رشدی کا گایا ہوا گیت ’’ہم تانگے والے اوبھیا دیکھیں بڑے نظارے۔ اس دُنیا کی رنگینی میں درد چھپا ہے پیارے‘‘ فیاض ہاشمی کا لکھا یہ گیت بھی فلم ’’ڈاچی‘‘ کے گیت کی طرح ایک تانگہ بان کی فکر خیالات اور تجربات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ صفدر حسین کی مرتب کردہ دُھن پر مبنی اس گیت نے بے حد مقبولیت حاصل کی اور آج بھی پُرانے نغمات کے ساتھ اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ’’دل کے ٹکڑے‘‘ کام یاب سلور جوبلی فلم تھی، جیسا کہ ہم نے تمہید میں ذکر کیا تھا کہ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانے ’’جُھمکے‘‘ میں مرکزی کردار ایک تانگے والے کو بنایا۔
اقبال شہزاد نے ’’جھمکے‘‘ کو فلمی اسکرپٹ کے قالب میں عظیم و بے مثل صاحب فلم ریاض شاہد سے منتقل کروایا۔ اور خود اسے ’’بدنام‘‘ کے عنوان سے سلولائیڈ پر عکس بند کیا۔ فلم میں عوامی فن کار علائو الدین نے دینو تانگے والے کا کردار کمال مہارت سے ادا کیا تھا۔ ان کا ادا کردہ مکالمہ ’’حمیدہ کہاں سے آئے ہیں یہ جُھمکے۔ کون لایا ہے یہ جھمکے۔ کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے‘‘ ایک کلاسیک ڈائیلاگ کا درجہ حاصل کر گیا، جب کہ ان پر فلم بند سدا بہار گیت ’’ہم بھی مسافر، تم بھی مسافر کون کسی کا ہوئے، کاہے چپ چپ روئے‘‘ مسعود رانا کی امر گائیگی، اثر انگیز شاعری اور دیبو بھٹہ چاریہ کی عمدہ کمپوزیشن کی بدولت ہر عہد کا مقبول عام گیت ٹھہرا۔
ظفر شباب نے جب پہلی بار بہ طور ڈائریکٹر پنجابی فلم بنانے کا قصد کیا تو فلم کا ٹائٹل ’’کوچوان‘‘ تجویز کیا اور اس وقت کے لحاظ سے پنجابی فلموں کے کام یاب فن کار عنایت حسین بھٹی کو ’’کوچوان‘‘ کے رول کی ادائیگی کے لیے ہیرو چُنا۔ معروف اداکارہ حُسنہ ان کی ہیروئن تھیں۔ عنایت حسین بھٹی پر فلم بند ان کی اپنی گائیکی سے آراستہ گیت ’’میں لبنا واں اس یار نوں جیڑا دغا دے اعتبار نوں‘‘ فلم کوچوان کا سب سے بڑا حوالہ ٹھہرا۔ 1972ء کی ریلیز ہدایت کار اسد بخاری کی فلم ’’میں اکیلا‘‘ میں اسد بخاری نے خود ایک ’’بگھی‘‘ چلانے والے کا کردار ادا کیا۔ اور بگھی چلاتے ہوئے ان پر فلمبند ہونے والا گیت ’’منزل ہے نہ ہمدم ہے۔ کچھ ہے تو اگر۔ غم ہی غم ہے۔ میں اس دُنیا میں اکیلا ہوں‘‘ مسعود رانا کی پُرسوز گائیگی۔، بخشی وزیر کی پراثر موسیقی کے سبب ایک سدا بہار گیت بن گیا۔
ہدایت کار اسلم ایرانی کی فلم ’’لائسنس‘‘ 1976ء کی کہانی ایک ایسی مجبور و بے بس لڑکی کا احاطہ کرتی ہے کہ جو مرد بن کر حصول معاش کے لیے تانگہ چلاتی ہے، تو قانون کی خلاف ورزی قرار دے کر اس پر تانگہ چلانے پر پابندی لگا دی جاتی ہے، اس کے برعکس اسے جسم فروشی کا لائسنس جاری کرنے میں ذرا دیر نہیں کی جاتی۔ مذکورہ فلم میں مجبور تانگے والی کا کردارخُوب صورت اداکارہ نجمہ نے ادا کیا تھا۔ فلم لائسنس بھی سعادت حسن منٹو کے افسانے ’’لائسنس‘‘ ہی سے ماخوذ تھی۔
ہدایت کار پرویز ملک کی سُپرہٹ مووی ’’تلاش‘‘ 1976ء میں پاکستانی سینما کی تاریخ کی سب سے زیادہ مقبول و کام یاب فن کارہ ’’شبنم‘‘ نے جزوی طور پر ایک ’’تانگے والی‘‘ کا روپ اختیار کیا تھا۔ اور ان پر گیت ’’میری چھیل چھبیلی دی ٹور بلے بلے‘‘ تانگہ چلاتے ہوئے پکچرائز ہوا تھا۔ شبنم ہی نے یکے والی کا ری میک’’تانگے والی‘‘ میں مسرت نذیر والا کردار ادا کیا تھا، لیکن تانگے والی کو فلم بینوں نے مسترد کردیا۔ حسن عسکری کی ’’کنارا‘‘ میں محمد علی نے جو تانگہ بان کا کردار ادا کیا، وہ گیٹ اپ اور پرفارمنس کے اعتبار سے بہت ہی جان دار اور مثالی تھا۔
حسن عسکری کے بولڈ اسکرپٹ پر مبنی ’’کنارا‘‘ ایک قابل دید منفرد فلم تھی۔ محمد علی پر تانگہ چلاتے ہوئے پکچرائز ہونے والا گیت ’’چڑیاں دا چنبا‘‘ کمال احمد کی دل کش دُھن اور مہدی حسن کی عمدہ گائیکی سے سجا ناقابل فراموش گیت تھا۔ ہدایت کار شمس چوہدری کی سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم ’’بڑا آدمی‘‘ میں بھی محمد علی نے عظیم نامی ایک غیور اور ذمے دار ’’کوچوان‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔
ان کے پس منظر میں فلمایا ہوا گیت ’’آنے والی خوشیوں کا احساس تو ہے، ہر انسان کے پاس یہی اک آس تو ہے‘‘ مہدی حسن کی عمدہ گائیکی، ریاض الرحمٰن شاعر کی اعلیٰ شاعری اور نذیر علی کی پُراثر دھن سے سجا ایک یادگار گیت تھا۔ اب ’’تانگہ بانی‘‘ کا پیشہ بدلتے وقت کے ساتھ معدوم و مفقود ہوتا جارہا ہے، تو فلموں سے بھی غائب ہوگیا۔