• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم سے لے کر تمام وزراء اور حواریوں کی معاشی امور پر خالص مہارت حاصل ہے۔ مہنگائی کی طرف توجہ دلائی جائے تو ایسی انہونی رائے دیتے ہیں کہ آدمی اپنا سر دھنے کے بجائے سر پیٹنے پہ مجبور ہوجائے۔ ایک "عالم فاضل وزیر" نے کہا کہ اگر گندم مہنگی ہے تو پیٹ بھر کر کھانے کی کیا ضرورت ہے روز کے کھانے سے 9 نوالے کم کردو۔ چینی مہنگی ہے تو چینی کا استعمال کم کردو، تو اب لوگوں نے شروع کردیا ہے کہ ہر چیز کا استعمال کم کردو لیکن وزراء کی فوج کم نہ کرو، وزارتی، صدارتی، محلات، گورنر اور وزیر اعلٰی کے محل نما گھروں کے اخراجات کم نہیں ہوسکتے، ان کے باورچی خانے پر اٹھنے والے اخراجات محدود نہیں کئے جاسکتے اور انہی افراد کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر پانی کی طرح خرچ کئے جانے والا پیسہ کم نہیں ہوسکتا۔ کیوں کیا قربانی صرف عوم کو دینی ہے حکمرانوں کو نہیں۔ کیا وہ آسمان سے اتر کر آتے ہیں کہ ان کی ساری خواہشات پوری ہوجائیں۔ ایک عام رائے یہ ہے کہ ہمارے "خواص" کو جب عیش و عشرت کی زندگی گزارے کا دل چاہتا ہے تو وہ پاکستان میں حکمرانی کرتے ہیں۔ ورنہ وہ اور ان کا خاندان ساری عمر پاکستان سے باہر ہی زندگی گزارتے ہیں۔ یہی تو ان کے "سچے پاکستانی" ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔جب کوئی شخص یہاں رہتا ہی نہ ہو اس کے بچے بھی یہاں نہ رہتے ہوں تو ایسے میں اس شخص کو یہاں کے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل ہی نہیں پتا ہوں گے تو وہ کیسے دعوئ کرسکتا ہے میں آپ۔لوگوں کی قسمت بدل سکتاہوں۔ یقینا یہ دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ذرا مہنگائی کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں یا غلط پالیسیاں ہیں جن کی بدولت قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ سب سے پہلے آپ یہ دیکھئے کہ کس شعبہ (sector) کو اہمیت دی جارہی ہے۔ یقینا روٹی ، کپڑا ، مکان ، تعلیم اور علاج اب بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس تک ان کی رسائی ممکن بنانے کے لئے اقدامات کرئے۔ لیکن اس کیا ہورہا ہے : حکومت کا سارا زور صرف اور صرف "مکان " کی فراہمی پر ہے۔ جیسے سارے پاکستانی کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ روٹی ، کپڑے، علاج اور تعلیم تک تو ان کی سو(100) فیصد رسائی ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ کراچی کے دو بڑے رہائشی منصوبوں کی کامیابی اور ان کے لامحدود منافع کی شرح کو دیکھتے ہوئے اب ہر "محب وطن پاکستانی " کو خیال آتا ہے کہ سب سے "کامیاب بزنس" صرف اور صرف "رئیل اسٹیٹ " کا ہے۔ بس پھر کیا تھا زرداری کی حکومت ہو کہ نواز شریف کی کہ عمران خان کیا سارے رئیل اسٹیٹس ڈیویلپرز( real estate developers ) حکومت کے حواری بن جاتے ہیں۔ پہلے ان پارٹیوں ( PPP, PML-N , PTI) کو پارٹی فنڈز کے نام پر خوب پیسہ دیتے ہیں اور پارٹی لیڈران ان کو پارٹی کے اہم قرار دیتے ہوئے اپنے قریب کرتے ہیں اور پھر یہی حضرات کابینہ میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی میں لگائے گئے پیسوں سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رئیل اسٹیٹس کے لئے زمین کہاں سے آتی ہے۔ پاکستان بظاہر "زرعی ملک" ہے۔ لیکن یہاں جتنی بےدردی سے "زرعی زمینوں" کو "رئیل اسٹیٹس " میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کچھ بھروسہ نہیں کہ پاکستان میں اناج کی پیداوار صفر رہ جائے اور ہم ( خاکم بدہن) اناج کے نام پر ایک ایک خوراک درآمد (import) کرنے لگیں۔ کتنی ہی اور ایسی زرعی اراضیاں ہوں گی جنھیں دولت بنانے کی لالچ میں ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کیا اس تبدیلی سے خوراک کی قلت کا سامنا نہیں ہوگا؟ تو کیا جب زرعی ملک میں خوراک کی قلت ہوگی تو خوراک کی قیمت میں اضافہ بھی ہوگا یا نہیں ؟؟ یقینا ہوگا تو پھر لوگوں کو "نو لقمے "کم کھانے کا مشورہ دینے سے بہتر ہے رئیل اسٹیٹس ڈیویلپرز اپنا "نوفیصد منافع " کم کرلیں اور ساتھ کے ساتھ ہر رئیل اسٹیٹ ڈیویلپر صرف اپنے "نومنصوبے" کم کردئے تاکہ کم سے کم زرعی اراضی ہاوسنگ اسکیم میں تبدیل ہوسکے۔ کیا خیال ہے آپ کا قارئین کہ محب وطن پاکستانیوںکے لئے ایسا کرنا مشکل ہے ؟ اپنی رائے سےآگاہ کیجئے گا۔دوسری طرف "فصلوں اور درختوں کو کاٹ کاٹ" کر "کنکریٹ" کی دیواریں کھڑی کرنا ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنا نہیں ہے؟ وزیر اعظم صاحب ہر وقت بتاتے رہتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی بہت بڑا مسئلہ ہے مگر معصوم یہ نہیں جانتے کہ درختوں کی کٹائی اور کنکریٹ کی افزائش میں ان کی حکومت کی پالیسیوں کا کتنا بڑا حصہ ہے؟ خیر اس سادگی پہ کون کا مٹ جائے اے خدا!

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین