انسان ہمت اور حوصلے سے ہر وہ کام ممکن بنا سکتا ہے، جس کوحاصل کرنے کی وہ ٹھان لے، چاہے وہ کتنا ہی کٹھن اور دشوار کیوں نہ ہو۔ زندگی کی مشکلات کا ان سے پوچھیں جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ معذور نوجوان زیادہ پُر عزم ہوتے ہیں کچھ کر دکھانے کا جنون ان کے اندر موجزن رہتا ہے جو ان کے عزم و حوصلے اور ارادوں کو کمزور نہیں کر سکتا ہے۔ ان کی صلاحیتیں اور ملک و قوم کی خدمت کاجذبہ نارمل نوجوانوں سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
بہت سے ایسے نوجوان ہیں جنہوں نےاپنی محنت اور لگن سے معذوری کو شکست دے کر معاشرے میں اپنا مقام بنایا،اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اگران کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یہ عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے افرادجوجسمانی لحاظ سے کسی معذور ی کا شکار ہوتے ہیں انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں ان نوجوانوں کو مجبوری بنا لینے والے لوگ انفرادی طور پر ہی نہیں پورے معاشرے کو اپاہج بنا دیتے ہیں جو معذوری کو بڑی خوش دلی سے کسی مجبوری کے سانچے میں ڈھالے بغیر زندگی کی دوڑ میں عام آدمی کے ساتھ ہر حال میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
وہ معاشرے سے بہت ساری سہولتوں اور ضرورتوں کے بھی مستحق ہوتے ہیں، ایسے نوجوانوں کو معذور کہہ کر ان پر ترس کھا کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ان کو معاشرے میں اہم مقام دیا جائے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے، تاکہ یہ بھی نارمل نوجوانوں کی طرح معاشرے میں باعزت زندگی بسر کر سکیں۔ اگرکو ئی معذور ہے تو اللہ تعالٰی اسے کچھ اضافی صلاحیتیںدے دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حس بہت تیز ہوتی ہے اور یہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں، یہ جو بھی کام انجام دیتے ہیں لاجواب کرتے ہیں۔
دنیا میں کتنے ایسے معذور نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی معذوری کو اپنے مقصد کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا، بلکہ بعض نے تو اپنی اس کمزوری کو اپنی ترقی اور کامیابی کازینہ بنا لیا اور تعلیم، کھیل، آئی ٹی، ٹیکنیکل اور دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیابیوں کی ایسی شاندار عمارت کھڑی کی کہ لوگ حیران رہ گئے اور دنیا نے ان کے جوش وولولہ، اور ہمت وحوصلہ کے سامنے سر جھکا دیا مثلاََ بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے بڑے ٹورنامنٹ جیتے، جس میں ورلڈ کپ بھی شامل ہے، دیگر کھیلوں میں بھی یہ نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
پشاور کے باہمت نوجوان آصف اکبر جو 9سال کی عمر میں کرنٹ لگنے کی وجہ سے دونوں ہاتھوں سے معذور ہوگیا تھانے اپنی معذوری کو مجبوری بننے نہیں دیا،آنکھوں میں جیت کی چمک، پہاڑ جیسا حوصلہ اور محنت سےقومی سطح پر ٹیبل ٹینس چیمپئن بن کر یہ ثابت کردیا کہ اگر ارادے مضبوط ہوں تو زندگی میں کوئی چیز مشکل نہیں۔آصف نےسونے کے تمغے سمیت چھ میڈلز جیتے ۔
پشاور ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان شہاب الدین پولیو کا شکارہوئے، 1986 سے وہیل چیئر پر ہیں جس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوگئی، بعد ازاں انہوں نے پولیو سے متاثرہ افرادکے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا جسے ’’پوسچر سپورٹ ڈیوائس (پی ایس ڈی) کا نام دیا گیا ہے۔ اس آلے کو ویل چیئر کی سیٹ یا منسلک کیا جاتا ہے۔ جس سے اُن کو ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف نہیں ہوتی۔
معذور افراد کو مشکلات پیش آتی ہیں ، خاص طور پرعام پبلک ٹرانسپورٹ میں ان کے لئے کوئی سہولت میسر نہیں، یہ دیکھتے ہوئے کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوان جاوید جو جسمانی معذوری کا شکار ہیں، اُنہوں نے دو پہیوں والی موٹر سائیکل کو تین پہیوں والی موٹر سائیکل میں بدل کر پیروں سے معذور افراد کو سفر کے قابل بنا دیا۔ پاکستان میں ان کے معذور ساتھیوں نے مل کر ورکشاپ قائم کی، جہاں سے وہ مختلف شہروں میں معذور افراد کے لیے تین پہیوں والی موٹر سائیکلیں بنا کربھیجوا تے ہیں۔
اب تک کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں 700 گاڑیاں بنا کر دے چکے ہیں۔ باہمت افراد میں مردان کے علاقے شیر گڑھ سے تعلق رکھنے والی ریحانہ گل پہلی نابینا آرجے ہیں۔ قوت بینائی سے محروم ہونے کے باوجود معاشرے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ گذشتہ ایک سال سے آرجے کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
اپنی جاندار آواز کے جادو کی بدولت کسی سامع کو یہ نہیں معلوم کہ وہ قوت بینائی سے محروم ہیں، 27سالہ ریحانہ گل خیبر پختوانخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے خصوصی افراد کو درپیش مسائل بھی اجاگر کرتی ہیں اور ان کی زندگی کی کہانیاں مثال بنا کر پیش کرتی ہیں ۔
معذور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ کئی نابینا طلبہ و طالبات پی ایچ ڈی کر کے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان میں حافظ قرآن کی بھی بڑی تعدادہے۔ ان کی صلاحیتوں پر فخر کر نا چاہیے۔ لیکن جہاں یہ اپنی اعلٰی کار کر دگی دکھا رہے ہیں وہیں ان کو مسائل بھی در پیش ہیں۔
ان کے لیے کوئی مناسب پلیٹ فارم نظر نہیں آتا۔ والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو معذور سمجھ کر نظر انداز نہ کریں اور ان کی تعلیم اور تربیت کا خاص خیال رکھیں،تاکہ وہ معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں۔حکومت کو چاہیے کہ ان کے لیےپبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اور اسپتالوں میں ان کو باآسانی آنے جانے سفر کرنے کے لیے ریلنگ اور ریمپب بنائے۔ ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981ءکے مطابق معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
اعلیٰ تعلیم ڈگری کورسز کے ساتھ انہیں وکیشنل ٹریننگ بھی دی جانی چاہیے۔ ہر اسپتال میں اان کے لئے الگ شعبہ قائم کیا جائے۔ معذوروں کے لئے ضرورت کے مطابق سہولت، سفید چھڑی، ویل چیئر، آلہ سماعت اور مخصوص کتب فراہم کی جائیں۔ علاج اور ادویات کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ملک بھر میں یونین کونسل کی سطح پر معذور نوجوانوں کی مختلف کٹیگریز کا ڈیٹا مرتب کیا جائے۔
خصوصی اور ابتدائی تعلیم فری اور اعلٰی تعلیم کے لئے اسکالر شپ کا کوٹہ مخصوص کیا جائے اور ایسے اساتذہ کوا تقرر کیا جائے جو جدید ٹیکنالوجی کے مطابق انہیں تعلیم دے سکیں۔ انہیں بلاسود قرضے دیئے جائیں ۔ وزیراعظم کے احساس سپورٹ پروگرام سے ہر معذور نوجوان کے لئے ا الائونس مقرر کیا جائے۔؎
انسان اپنے جسم کے اعضاء سے معذور نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہمت اور حوصلہ سے معذور ہوتا ہے، جو بھی وسائل اور جو بھی صلاحیت آپ کے پاس موجود ہیں ان کا استعمال کرکے یہ ثابت کردیجئےکہ اگر ہمت بلند ،حوصلہ جوان اور سچی لگن ہو تو ایک معذور نوجوان بھی نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے حالات بھی بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔وہ نوجوان جو معذوری کا شکار ہیں جب تک اپنے آپ پر رحم کرنا نہیں چھوڑیں گے، دوسروں پر انحصار کریں گے، تعلیم سے دور رہیں گے، اپنے حقوق و فرائض سے بے خبر رہیں گے تو زندگی کی دوڑمیں پیچھے رہ جائیں گے ۔ معاشرے میں معذور نوجوانوں کے لئے صرف دن منانا ہی کافی نہیں۔ بلکہ ایسے نوجوانوں کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کریں ، انہیں بجائے ہمدردی کے ا محبت دیں گے تو وہ تو یہی اپنی زندگی اعتماد سے گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی