کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) نسلہ ٹاور بلڈر کا لالچ مکینوں کو لے ڈوبا 340 گز کی زمین ہتھیانے کے چکر میں لینے کے دینے پڑ گئے سروس روڈ کی ساری حدود اضافی جگہ قبضہ کرنا بلڈر کا جرم قرار پایا۔
تفصیلات کے مطابق نسلہ ٹاور 15 منزل پر مشتمل ہے جس میں 150 فلیٹس ہیں اور 150 فلیٹس میں سے 44 فلیٹس آباد ہیں ہر فلیٹ کی قیمت ڈھائی کروڑ سے تین کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے نسلہ ٹاورکو این او سی 2013 میں جاری کیا گیا حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق چیف کمشنر کراچی نے 1957 میں مذکورہ پلاٹ میں 264 گز کے اضافے کی منظوری دی الاٹمنٹ لیٹر میں شاہراہ فیصل کی چوڑائی 280 فٹ درج تھی جبکہ شاہراہ فیصل کی موجودہ چوڑائی 240 فٹ ہے یعنی 40 گز مزید زمین بلڈر نے ہتھیا لی اس طرح 1980 میں شاہراہ فیصل کے دونوں جانب 20 فٹ کا رقبہ پلاٹس میں شامل کردیا گیا نسلہ ٹاور کا780 گز کا پلاٹ 1044 گز کا ہوگیا۔
نسلہ ٹاور کا بلڈر اقبال کاتلیا بیمار ہیں۔ نسلہ ٹاور کا معاملہ سپریم کورٹ میں 30 دسمبر 2020 کو اس وقت سامنے آیا جب چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے استفسار کیا کہ شاہراہ قائدین پر ایک بلند عمارت کھڑی ہے عدالت کو اس عمارت کی قانونی حیثیت سے آگاہ کیا جائے کہ اچانک پچاس سال پرانے علاقے میں ایک پلاٹ کیسے نکل آیا8 اپریل کو دوران سماعت ڈپٹی کمشنر شرقی کی عدم پیشی پر عدالت نے سخت اظہار برہمی کیا، دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا کہ نسلہ ٹاور کے بلڈز کو طلب کرکے پوچھ لیا جائے۔
عدالتی استفسار پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے وکیل نے بتایا کہ عمارت بالکل قانون کے مطابق ہے چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا یہ ایس بی سی اے کے ترجمان کم اور بلڈز کے زیادہ ہیں، عدالت نے کمشنر کراچی کو ذاتی حیثیت میں انکوائری کرنے کی ہدایت دی جس پر اگلے روز ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے نسلہ ٹاور کو لے اوٹ پلان کی خلاف ورزی کا نوٹس جاری کردیا14 جون کو لارجر بینچ کے روبرو کمشنر کراچی نے رپورٹ جمع کرائی کہ نسلہ ٹاور میں کچھ حصہ فٹ پاتھ کا شامل کیا گیا ہے جس پر عدالت نے سخت اظہار برہمی کیا ۔