محمد یاسین شیخ
کائنات میں ہر چیز کو کسی نہ کسی وجہ سے کوئی نہ کوئی خصوصیت حاصل ہے۔بعض چیزوں میں ایسی خصوصیات ہوتی ہیں ،جن کا تعلق عبادات سے ہو تا ہے جیسے نماز ،روزہ ،زکوٰۃ،حج ،قربانی وغیرہ کہ ان کا تعلق اوقات اور ایام کے ساتھ ہے اور ان اوقات و ایام کو ان کی وجہ سے خصوصیت حاصل ہے اور بعض چیزوں میں ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اس چیز کی شان بڑھائی گئی ہو، جیسے لیلۃ القدر کی خصوصیت کہ اس میں قرآن کا نزول، اللہ کا قرب،گناہوں کی معافی، ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب موجود ہونا وغیرہ۔من جملہ مقامات،اوقات اور ایام میں کسی نہ کسی وجہ سے خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ما ہ ’’ربیع الاوّل ‘‘بھی ہے۔
اس ماہ کو تین امتیازی وجوہات کی بناء پر خصوصیت حاصل ہے اوران تینوں وجوہات کا تعلق ایک ایسی عظیم ہستی سے ہے ،جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے کائنات کو وجود بخشا۔جن کی آمد سے پہلے ہی تمام انبیاء،تمام اقوام اور تمام ارواح کو ان کی آمد کی نوید سنائی گئی ۔جو آئے تو سب سے آخر میں، مگر تمام اوّلین کا انہیں سردار بنایا گیا ۔جن کے آنے سے چاروں طرف ہدایت کی روشنی پھیل گئی ،جو اللہ کے بندوں کواللہ سے ملوانے آئے۔جوتمام جہانوںکے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔جن کی شان بیان کرنے میں کوئی بھی کمال کی حد تک نہ پہنچ سکا۔ کہنے والے نے بھی بس اتنا کہ کر اپنی عاجزی تسلیم کی۔
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
وہ عظیم الشان ہستی سرور کونین سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں ۔ماہ ربیع الاوّل کو جو خصوصیت حاصل ہے وہ آقاﷺ کی وجہ سے ہے اور اس ماہ مبارک میں آپ ﷺ کی نسبت سے تین اہم واقعات پیش آئے،جو بالترتیب حسب ذیل ہیں:۔
پہلا تو وہ وقت ہے کہ جب اس دنیا میں فساد مچا ہوا تھا۔ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔ اس وقت اللہ جل شانہ نے انسانیت پر رحم فرمایا اور اس فساد،تاریکی اور ظلم وجبر کو ختم کرنے کے لئے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کو اس دنیا میں بھیجا ۔آپ کا آ نا تھا کہ بس! بے سہاروں کو سہارا مل گیا ، ڈوبتے کو کنارہ مل گیا۔آپ ﷺکا اپنی چشم اطہر کو کھولنا تھا کہ وہ گھر تو گھر سارا جہاں نور سے بھر گیا ۔ ستارے جھک گئے۔ایوان کسریٰ کے کنگرے گر پڑے ۔ہزاروں سال سے روشن فارس کا آتش کدہ بجھ گیا۔گوپیدائش کے وقت ہی اللہ نے یہ دکھادیا کہ آپ ﷺکے ذریعے اس دنیا سے کفر و شرک کی تاریکی ختم ہوگی اور ہدایت کا وہ نور پھیلے گا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
دوسرا وہ وقت تھا جب اللہ کے حبیب ﷺ پر مشرکین مکہ مظالم ڈھانے سے باز نہ آئے ۔طرح طرح سے آپ ﷺ اور آپ کے رفقاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر تکالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ تب اللہ نے اپنے محبوب ﷺ کو مع اپنے صحابہ کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف مستقل ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ ماہ صفر کے اخیر میں آپ ﷺ نے ہجرت کی تیاری مکمل کی اور صحابۂ کرامؓ کو بھی اس کاحکم دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ صرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو لیا اور ماہ ربیع الاوّل کے شروع میں اپنا آبائی اور محبوب وطن چھوڑ کر ، شہر مدینہ کی طرف تشریف لے گئے ۔جہاں رسول اللہ ﷺ کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔
ہجرت کے بعد جس تیزی سے اسلام پھیلااور مسلمانوں کوجو قوت ملی وہ حالت ہجرت سے پہلے نہیں تھی۔اس بات کااندازہ اس سے لگائیے کہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور ہجرت کے بعد مسلمانوں کی تعداد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بڑھتے بڑھتے ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ۔ہجرت ہی کی برکت سے حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں اسلامی سال کا آغاز ہجرت سے کیا گیا ۔یہ وہ دوسرا واقعہ تھا جو اس ماہ مبارک ربیع الاوّل میں پیش آیا اور اسے مزید خصوصیت سے نوازا۔
تیسرا وہ وقت تھا جسے لکھتے ہوئے مورخین اور مصنفین کے ہاتھ کانپ جائیں ۔قلم خود بھی چلنے کی ہمت نہ کرے ۔ بیان کرنے والوں کی زبان حرکت کرنے سے رک جائے ۔ پڑھنے اور سننے والوں کے دل لرز اٹھیں کہ جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ دشمنان اسلام مغلوب ہوگئے ۔ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ مکہ ومدینہ سے باہر بھی اسلامی ریاست قائم ہونے لگی ۔ گو ہرطرف مسلمانوں کے لئے خوشی کا سماںبن گیا ۔اس وقت ایک ایسا سانحہ بھی ہونا تھا جو سب کو غمگین کردے۔چہروں سے مسکراہٹیں غائب ہوجائیں۔آنسو کی قطاروں کی شکل میں بہنے لگیں ۔ وہ وقت آگیا جب اس عظیم ہستی کو موجود اور آنے والے لوگوں کو چھوڑکر جانا تھا۔ ماہ صفر کے آخری عشرے میں رسول اللہ ﷺ بخارمیں مبتلا ہوئے ۔ایک ہفتہ تمام ازواج ؓکے گھر رہنے کے بعد سب کی اجازت لے کر حضرت عائشہ صدیقہؓ کے یہاں قیام کے لئے تشریف لے گئے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اپنے محبوب کی خوب خدمت کی ۔ حتیٰ کہ درمیان میں ایسا بھی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو راحت مل گئی اور طبیعت میں بہتری محسوس ہوئی ۔ سب کے چہروں پر جو پریشانی تھی وہ اطمینان میں بدل گئی ۔ حضر ت صدیق اکبر ؓ آپ ﷺ کے اس سکون کو دیکھ کر پُرسکون ہوگئے، مگر کسے معلوم تھا کہ بس اب وہ وقت آنا تھا جس سے دلوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹے گا۔ آ پ ﷺ کی بیماری میں اضافہ ہوا۔
آپ ﷺحضرت عائشہ ؓ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھے ہوئےلیٹے تھے کہ آپ پر حالت نزع طاری ہونا شروع ہوگئی۔ امی عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کی اجازت سے مسواک لے کر اسے نرم کیا اور آپ کو پیش کی۔ پھر آپ ﷺ نے اللہ کے حضور چند دعائیہ کلمات کہے جن میں اللّٰھم بالرفیق الاعلیٰ شامل ہے ۔ان کلمات کو ادا کرتے ہی اللہ کے حبیب اپنےچاہنے والوں کو چھوڑ کر اس دار فانی سے رحلت فرماگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون!
رسول اللہ ﷺ کے وصال کی خبر صحابہ کرامؓ پر قہر بن کر گری۔ ہر ایک صحابی کا یہ عالم تھا کہ آنسوبہہ رہے تھے ۔دل ثقیل سے ثقیل تر ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ تو ماننے کو ہی تیار نہ تھے، جن میں حضرت عمرفاروقؓ سر فہرست تھے۔ کیونکہ یہ ایسی ہستی کی جدائی کی خبر تھی،جو ہر چیز سے زیادہ محبوب تھے۔ صدیق اکبرؓ بھی گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ آپ ﷺکے چہرہ انور سے چادر ہٹائی ،بوسہ دیا اور رونے لگے۔
اس وقت غم کا جو عالم تھا ،ایسا پھر کبھی نہ آنا تھا ، جن کے آنے سے گلوں پر بہار آئی تھی، آج ان سب گلوں نے مرجھانا تھا ۔ غم ودرد کی گھٹائیں پورے جہاں میں پھیلی ہوئی تھیںاور کیوں نہ پھیلتی ،اللہ کے حبیب اور ہم سب کے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے ۔ یہ وہ تیسرا بڑا سانحہ تھا جو ا س ماہ مبارک میں پیش آیا۔ ان تین واقعات کو بیان کرنے کا مقصد ان سے ملنے والے تین سبق کی طرف توجہ دلانی ہے۔
پہلا سبق....رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آپ کی بعثت کا مقصد انسانوں کو اللہ کے احکام پہنچانا تھا ،تاکہ وہ ان پرعمل کرکے اپنے خالق و مالک کے قریب ہوجائیں ۔ہر نبی کو ان کی قوم کی طرف بھی اسی مقصد کے تحت بھیجا گیا ۔کیونکہ انبیائے کرامؑ، اللہ کے قاصد ہوتے ہیں ،جو اللہ کے احکام اور پیغام، اللہ کے بندوں تک پہنچانے آتے ہیں۔ تو اب اگر ہماری زندگی اللہ کے احکام اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے ،تو ہمارا کوئی بھی فعل ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا تک نہیں پہنچا سکتا ۔کیونکہ اللہ کی رضا تو اللہ کے رسول کی اتباع میں ہے اور اللہ کے رسول ﷺکی رضا اللہ کے احکام کو بجالانے میں ہے۔
دوسرا سبق.....رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی ہجرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جس طرح حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اس دین کی خاطر تکالیف برداشت کیں۔پھر اپنے آبائی وطن ،اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر اشاعت اسلام کے لئے دوسرے شہر کو اپنا وطن بنایا ۔ بعینہ اسی طرح ہمیں بھی اللہ کے احکام پر عمل کرنے کے لئے ان ساری چیزوں کو چھوڑنا ہوگا جو مخلوق اور خالق کے تعلق میں خلل کا سبب بن رہی ہوں۔
ان تمام نفسانی خواہشات کو پس پشت رکھنا ہوگا ،جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل ہو رہی ہوں ۔ جو اتباع سنت سے ہمیں روکتی ہوں ۔ ساتھ ساتھ ہجرت سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ اس دین کے لئے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنی رضا کا فیصلہ سناتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے اسے سمجھااور اس پر عمل کیا، تو انہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل گئی ۔
تیسرا سبق.....رسول اللہ ﷺ کے دار فانی سے تشریف لے جانے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے آقا جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ سب کچھ جن کے لئے بنایا گیا ۔ جہاں کائنات کی ہر شے اللہ کا ذکر کرتی ہے وہیں محمد عربی ﷺپر درود بھی بھیجتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ کے حبیب بھی اس دنیا میں بطور مسافر ہی رہے اور اپنی بعثت کا مقصد پورا کرکے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔تو جب رسول اللہ ﷺ بھی اس دنیا میں نہیں رہے تو پھر اور کون رہے گا ؟ اس سے یہ بات مکمل واضح ہوگئی کہ دنیا عارضی ہے۔
ہر ایک نے مدت پوری ہونے پر یہاں سے جانا ہے ۔تو جب یہ ہمارا حقیقی گھر ہی نہیں تو کیوں اس کی آسائش و آرام کی خاطر ہم اپنے حقیقی گھر سے دور ہوتے رہیں ۔مسافر خانے میں تو انسان اپنی ضرورت پوری کرتا ہے اور اپنی منزل کے لئے نکل پڑتا ہے ۔ یہ دنیا بھی مسافر خانہ ہے، جہاں صرف ضرورت پوری کرنی ہے اور اپنی منزل کی طرف چلنا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضور ﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اکثر صحابہؓ مدینہ چھوڑ کر پوری دنیا میں پھیل گئے ،تا کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد پورا کرسکیں اور لوگوں تک اس دین کو پہنچائیں جو انہیں آقاﷺ کے ذریعے ملا تھا۔
ان تین اہم واقعات اور ان سے ملنے والے اسباق کو اگر ہم اپنی زندگی میں لے آئیں تو سارا سال ہمارے لئے ربیع الاوّل بن جائےگا اور نہ صرف اس دنیا کی، بلکہ یقیناً آخرت کی کامیابی بھی ہمیں نصیب ہوگی ،لیکن اگر ہم ا ن اسباق کو بھلا کر ایک آزاد شخص کی طرح نفس کے غلام بن جائیں تو ہمیں دنیا و آخرت میں خسارے کا سامنا درکار ہوگا جو کسی کی بھی خواہش نہ ہوگی۔ اللہ ہم سب کو اپنے پیارے حبیب ﷺ کی کامل اتباع نصیب فرمائے۔ (آمین)