• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

6 مہینے پہلے پاکستانی روپیہ ایشیاء کی ایک مضبوط کرنسی تھا جبکہ آج پاکستانی روپیہ ایشیاء کی کمزور ترین کرنسی بن گیا ہے۔ اگست 2021ء میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 27ارب ڈالر تھے جو قرضوں کی ادائیگی اور تجارتی خسارے میں اضافے کی وجہ سے 15 اکتوبر کو 24 ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئے جس کی وجہ سے روپے پر شدید دبائو تھا اور پاکستانی کرنسی جو مئی 2021ء میں ڈالر کے مقابلے میں 152 روپے تھی اور ایشیاء کی بہترین کرنسی تصور کی جارہی تھی، اکتوبر 2021ء میں 22 روپے کی کمی سے 175روپے کی کم ترین سطح پر آگئی۔ اس دوران اسٹیٹ بینک نے روپے کو مستحکم رکھنے کیلئے ملکی بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر سے 1.2ارب ڈالر مارکیٹ میں سپلائی کئے جس میں جولائی میں صرف ایک دن میں 100ملین ڈالر اور اگست میں 85ملین ڈالر شامل ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو روکا نہ جاسکا۔ دنیا کی تیسری بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی Fitch کے مطابق پاکستانی روپیہ 2022ء تک 180 روپے تک گرسکتا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف 6ملین ڈالر قرضے کے تحت ڈالر کو 170روپے سے نیچے کی سطح پر دیکھنا چاہتا ہے۔ تاہم وزیراعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں سعودیہ کے پاکستان کو 3ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے اور 1.2 ارب ڈالر کا ادھار تیل دینے کے اعلان سے پاکستانی کرنسی 171.60روپے کی سطح پر آگئی ہے اور اب آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال ہونے کی توقع ہے۔امریکہ،پاکستان تعلقات میں تنائو، پاکستان کی فضائی حدود پر حالیہ پاک امریکہ مذاکرات اور افغان طالبان پر لگائی جانے والی معاشی پابندیوں میں پاکستان کو شامل کرنے کا خدشہ، واشنگٹن میں آئی ایم ایف پروگرام کے مذاکرات بھی پاکستانی کرنسی پر دبائو کا سبب ہیں۔ تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافہ، پاکستان سے افغانستان ڈالر کی ترسیل،40ہزار روپے کے انعامی بانڈز کی بندش کے باعث سرمایہ کاروں کی انعامی بانڈز فروخت کرکے ڈالر میں سرمایہ کاری، ڈالر کی طلب میں اضافہ بھی روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات ہیں۔ پاکستان کی امپورٹس میں ریکارڈ اضافے سے معلوم ہوتا ہے کہ جولائی اور اگست کے مہینوں میں 19ارب ڈالر کی امپورٹس کی گئیں جبکہ اس دوران ایکسپورٹس صرف 7.3ارب ڈالر رہیں جس کی وجہ سے ان 2 مہینوں میں تجارتی خسارہ 120 فیصد اضافے سے 11.7 ارب ڈالررہا۔ امپورٹس میں 5ارب ڈالر کی کھانے پینے کی اشیاء، 2ارب ڈالر کے خوردنی تیل، 831ملین ڈالر کی دالیں، 517ملین ڈالر کی چائے، 500ملین ڈالر کے موبائل ٹیلیفون،235ملین ڈالر کا بچوں کا دودھ، 118ملین ڈالر کے مصالحہ جات، 84ڈالر فی بیرل کے مہنگے فرنس آئل اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات، ٹیکسٹائل مشینری اور فٹ ویئر خام مال شامل ہےجو 174 روپے فی ڈالر پر امپورٹ کرکے کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔ امپورٹ میں اضافہ کنٹرول کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے LC پر کیش مارجن اور لگژری اشیاء پر اضافی کسٹم ڈیوٹی نافذ کی ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے نے ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا کردیا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین کی جیبوں سے 300ارب روپے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے 1000ارب روپے نکال لئے گئے ہیں۔ حکومتی وزراء اور مشیروں کا ٹیلیویژن پر آکر یہ بیان دینا کہ پاکستان میں اب بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے، کو میںمسترد کرتا ہوں۔ قیمتوں کا دارومدار عام آدمی کی قوت خرید، آمدنی اور کرنسی کی قدر پر ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کرنسی ٹکا کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں دگنی ویلیو ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں800روپے یومیہ دیہاڑی کے مقابلے میں پیٹرول 138روپے فی لیٹر خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔

روپے کی قدر میں کمی سے راتوں رات 1656ارب روپے بیرونی قرضوں اور 66ارب روپے سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ غیر مستحکم پاکستانی روپے نے بیرونی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں جو ملکی مفاد میں نہیں۔ پاکستانی کرنسی مقامی مارکیٹ میں قوت خرید کھوتی جارہی ہے جس سے افراط زر اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ایک عام آدمی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ اس موقع پر یہ کہنا کہ اگر روپے کی قدر میں کمی سے کچھ لوگوں کو نقصان ہوا ہے تو ترسیلات زر بھیجنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ بھی ہوا ہے اور انہیں ترسیلات زر پر 10فیصد اضافی رقم مل رہی ہے، اس طرح 30ارب ڈالر کی ترسیلات زر میں ان کے خاندانوں کو 3ارب ڈالر یعنی 500ارب روپے اضافی ملیں گے لیکن معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میں اس بیان سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرے نزدیک روپے کی قدر گرنے سے افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جس کے اثرات اوورسیز پاکستانیوں کے پاکستان میں مقیم خاندانوں پر بھی پڑیں گے۔ ’’دی اکنامسٹ‘‘ کے مطابق پاکستان دنیا میں افراط زر میں چوتھے نمبر پر آتا ہے اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ایک عام آدمی کی آمدنی میں اضافے کے بجائے ایک سال میں 8فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد50فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔ ہمیں مہنگے ترین فیول کی امپورٹ کے بجائے ملک میں سستی متبادل بجلی اور زراعت کے شعبے کو بحال کرکے کھانے پینے کی اشیاء کو امپورٹ کرنے کے بجائے ملک کو پیداوار میں خود کفیل بنانا ہوگا۔

تازہ ترین