• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان معاہدے کو بچانا چاہتے ہیں

اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزراء سے کہا ہے کہ ٹی ایل پی کے معاملے پر بحث سے گریز کریں۔ انہوں نے کابینہ کے صرف دو وزیروں (شاہ محمود قریشی اور علی محمد خان) کو اس معاملے پر عوام میں اور میڈیا پر بحث کی اجازت دی ہے۔ باخبر ذرائع نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی شقوں کو انتہائی حد تک خفیہ رکھا جا رہا ہے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت ٹی ایل پی (جو فی الوقت کالعدم جماعت ہے) کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ مرکزی سیاست میں حصہ لے، اور ساتھ ہی اس کے مظاہروں کے پرتشدد انداز کو روکناچاہتی ہے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم جانتے ہیں کہ اگر سرکاری وزراء اور پی ٹی آئی کے لیڈروں نے ٹی ایل پی کے معاملے اور دونوں فریقوں کے درمیان ہونے والے معاہدے پر بحث و مباحثہ کیا تو معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ اسے بگاڑنے کا کام کر سکتا ہے۔ 

ٹی ایل پی کو چند ماہ قبل حکومت نے کالعدم قرار دیا تھا لیکن معاہدے کے تحت جلد ہی اسے اب کالعدم تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا۔ ٹی ایل پی کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ یہ جماعت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی تیسری بڑی جماعت ہے اسلئے وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے سیاسی راستہ اختیار کرے۔ 

ایک باخبر سرکاری ذریعے کا کہنا ہے کہ ہمیں ٹی ایل پی کو کالعدم جماعت سے دہشت گرد جماعت بننے کی طرف دھکیلنا نہیں چاہئے، ٹی ایل پی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ وہ مرکزی سیاسی دھارے میں شمولیت اختیار کرے۔ حکومت کو احساس ہے کہ ٹی ایل پی کیخلاف طاقت کے استعمال کے سنگین نتائج نکلیں گے اور یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا گیا جس میں ٹی ایل پی بشمول اس کے لیڈر سعد رضوی اور سیکڑوں حامیوں کو رعایتیں دی گئی ہیں۔ 

ان سب کے عوض ٹی ایل پی پرتشدد مظاہروں اور لاک ڈائونز کا سلسلہ بند کرے گی۔ کسی دوسری سیاسی، مذہبی یا سماجی تنظیم کی طرح ٹی ایل پی کو قانون اور آئین کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے مظاہروں کی اجازت دی جائے گی۔ 

جب یہ سوال کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات پر تنقید ہو رہی ہے، اور اسے حال ہی میں کالعدم قرار دیا گیا تھا اور بھارت سے فنڈز اور حمایت کا الزام عائد کیا گیا تھا، تو سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی مظاہروں میں پرتشدد رویہ اختیار کرتی ہے لیکن اس کا رویہ دہشت گرد تنظیم جیسا نہیں ہے۔ 

ایک حکومتی ذریعے کے مطابق، اگر حکومت کسی دہشت گرد تنظیم جیسا کہ ٹی ٹی پی یا بلوچ دہشت گرد گروپس کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے تو ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جانا چاہئے کہ بھلے ہی وہ اپنے موقف پر قائم رہے لیکن پرتشدد رویہ ترک کر دے۔ 

منگل کو کابینہ کے اجلاس سے قبل، وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ مذہبی انتہا پسند گروپس میں صلاحیت ہے کہ وہ ہجوم کو تشدد کیلئے اکسا سکتی ہیں لیکن سیاسی میدان میں ہلچل مچانے کی ان کی صلاحیت بہت محدود رہی ہے۔ ایک موقع پر سنی تحریک ٹی ایل پی سے زیادہ پرتشدد تھی لیکن جلد ہی اس جماعت کے ساتھ معاملات کامیابی کے ساتھ طے ہو جائیں گے۔

تازہ ترین