• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جمشید چیمہ اور ان کی اہلیہ کے کاغذات نامزدگی کیوں مسترد ہوئے؟

بظاہر حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے مابین معاہدےکے اعلان کے بعد ملک میں جاری کشکمش اور بے یقینی کا خاتمہ ہوگیا ہے،جس کے بعد دھرنا اور مجوزہ ناموسِ رسالت مارچ ختم ہوجائیگا لیکن اسکے بعد کیا ہوگا اس کا انحصار حکومت پر ہے جو مجوزہ معاہدے پر کس قدر عمل کریگی، ثابت ہوگیا کہ معاملہ سیاسی ہو یا معاشی حکومت کوئی بھی واضح پالیسی کے تحت اقدامات کرنے سے قاصر نظر آتی ہے ۔ 

ذرائع نے واضح کیا ہے کہ معاہدے کا اونٹ کسی کروٹ بٹھانےمیں حکومت کا کردار کتنا اہم ہے یہ وقت بتائے گا ،دو حکومتی وزراء نے حافظ سعدحسین رضوی کو مذاکرات میں شامل کرنے سے اختلاف کیا لیکن ان کی رائے کو مسترد کردیا گیا ،مذاکرات میں شامل مذہبی رہنمائوں نے انکی اس تجویز کو غیر سنجیدہ قرار دیا ،مذاکرات میں ان دونوں وزراء کے ساتھ بات کرنے ،معاہدہ کرنے سےنہ صرف سرے سے منع کردیا گیا بلکہ پریس کانفرنس میں بھی دونوں اہم وزراء شریک نہیں ہوں گے ،تحریک لبیک کے مطالبے پر ہی آخر کار مفتی منیب الرحمٰن معاہدے کا اعلان کرنے کیلئے حکومت کیلئے روشنی کی کرن ثابت ہوئے ،یہ وہی مفتی منیب الرحمٰن ہیںجنھیں ایک وفاقی وزیر نے عہدہ سنبھالتے ہی تنقید جملوںکے نشانے پر لئے رکھا ۔

جیسے ہی معاہدے کا اعلان ہوا تو مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر نئی بحث شروع ہوگئی ہے ،ناقدین کا کہنا ہے کہ ہر اختلاف کا حل کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے تحت ہوتا ہے ،یہی معاہدہ کرنا تھا تو لاہور سے لیکر اسلام آباد تک کے لاکھوں افراد کو دس روز تک مشکلات میں کیوں رکھا ؟ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ تحریک لبیک آئندہ بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شریک ہوگی،اگر ایسا ہی کرنا تھا تو اس پر دہشت گرد اور غیر ملکی فنڈز لینے کا الزام کیوں لگایا گیا؟معاہدہ ہی کرنا تھا تو حافظ سعد حسین رضوی کو عدالتی حکم کے باوجود رہا کیوں نہ کیا گیا؟ 

اگر پہلے ہی سمجھداری سے کام لیتی تولاہور سے وزیر آبادتک 80 کلومیٹر کے دائرے میں مریدکے،راہوالی، گوجرانوالہ ،جہلم ،گجرات اور چناب پل کے قریب خندقیں کھود کر ٹریفک کے ساتھ ساتھ معموالات زندگی معطل نہ کرنے پڑتے، گذشتہ دس دنوں میں تعلیم، روزگار اور کاروبار کیلئے مقامی افراد اورجی ٹی روڈ سے سفر کرنے والے لاکھوں افراد نے مہنگائی کے بعدراستوں کی بندش اور نظام زندگی مفلوج ہونے پر جتنی بدعائیں اور کوسنے دیئے گئے ہیں اسکی مثال نہیں ملتی، متبادل رستہ ڈھونڈ کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہونیکی تگ و دو میںمتعدد افراد کے مرنے ، زخمی ہونے اور لٹ جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں ہیں۔ 

ملتان روڈ سے شروع ہونیوالے اس دھرنے اور مارچ میں تحریک لبیک کے 15 کئی افراد شہید،300 سے زائد زخمی اورکئی ہمیشہ کیلئے معذور ہوگئےجبکہ پولیس اہلکار بھی اپنی جان گنوا بیٹھے،سوشل میڈیا پر اس ضمن میں ٹرینڈ بن گیا کہ قاتل بھی شہید اور مقتول بھی شہید ؟کچھ ناقدین اور مذہبی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ شرکاء دھرنا و مارچ تو ناموسِ رسالت مارچ کی نیت کرکے گھروں سے نکلے تھے جبکہ ملتان روڈ سے لیکر وزیر آباد تک انھیں روکنے کیلئےرکاوٹیں کھڑی کی گئی ۔ 

قومی اسمبلی کے حلقہ 133سے پی ٹی آئی کے جمشید اقبال چیمہ اور مسرت جمشید کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد مختلف تھیوریاں زبان زد عام ہیں،پہلی تھیوری یہ ہےکہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ اعلیٰ تعلیم میاں بیوی سیاستدانوں کی جانب سے غلطی سے بیرون حلقہ تجویز کنندگان کے نام لکھنا خارج از امکان ہے۔

دوسری تھیوری یہ ہےکہ تحریک انصاف کی مقامی رہنمائوں نے جمشید چیمہ کی بجائے دوسرے امیدوار کو ٹکٹ دینے کی سفارش کی تھی اسی کے کسی فرد یہ تجویزکنندگان کے نام لکھے ہوں گے ، تیسری تھیوری یہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج نے تحریک انصاف کے حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں، انھیں یقین ہوچکا ہے کہ آئندہ جو بھی الیکشن ہوگا بڑے سے بڑا برج زمین بوس ہوجائیگا۔ 

اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے جمشید اقبال چیمہ نے پہلے سے ہی ہارے ہوئے میچ میں کھیل کر ہارنے سے بچنے کیلئے یہ راستہ سوچا ہو، کیونکہ جمشید چیمہ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کو غلطی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مسرت چیمہ کے کاغذات بھی مسترد ہو جائیں یہ ہضم نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن نے جمشید اقبال چیمہ اور انکی اہلیہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ستمبر 2020 کی نظر ثانی انتخابی فہرست کے مطابق دونوں تجویز کنندگان 2018سے ہی حلقہ این اے 130 کے ووٹرہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین