شہر میں مطالبات کے حق میں ہونے والے احتجاج اور دھرنوں کوروکنے والے سندھ پولیس کے 3400 پولیس اہل کاروں کی نوکری سے برطرفی کے خلاف سٹرکوں پر آگئے۔ بر طرف اہل کاروں نے گزشتہ روز سینٹرل پو لیس آفس(سی پی او)کے سامنے ، کراچی پریس کلب اور سندھ اسمبلی کے باہرنوکری پر بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ قانون کی حد میں رہتے ہوئےاحتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے بعد بھی بحال نہ کیا گیا، تو کشمور سے کراچی تک لانگ مارچ کیا جائے گا۔
پولیس اہل کاروں کا پولیس کے خلاف احتجاج کرنا ایک المیہ اور حکومت سندھ اور سندھ پولیس کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ برطرف کیے گئے اہل کاروں کا کہناہے کہ 2012 میں سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے دور میں محکمہ کے مروجہ امتحانات میں کام یابی کے بعد محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی ،تمام کورس مکمل کر نے کے علاوہ حساس ڈیوٹیاں انجام بھی دیں۔
5 برس تک خدمات انجام دیں اور اس کےبعد سرکار سے تنخواہیں بھی لیتے رہے، بلاجواز اور بغیر شوکاز نوٹس کے بیک جنبش قلم نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ رزاق آباد پولیس ٹر یننگ سینٹربم دھما کے میں ہمارے 12جوان شہید 19زخمی ہوئے ،جب کہ 6 آج تک جسمانی طور معذورہو چکے ہیں ۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ اعلی افسران کی آپس کی چپقلش میں ہمیں بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ سابق آئی جی سندھ اللہ ڈنوخواجہ(اے ڈی خواجہ) نے بلا جواز اور غیر قا نو نی طور پر ملازمتوں سے فارغ کر دیا ، جس پر سابق جج سپریم کورٹ ثاقب نثار نے سوموٹو ایکشن لیا، تو اے ڈی خواجہ نے ایڈیشنل آئی جی ثنااللہ عباسی اور آفتاب پٹھان پر مشتمل نام نہاد کمیٹی تشکیل دی ،جس نےتاحال ہمارے بچوں فاقہ کشی مجبور کر رکھا ہے ۔
ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔5 برس سے عدالتوں کے چکر کاٹتے اور جمع پونجی ختم ہو جانے کےبعد مجبوراً احتجاج کی راہ اختیار کی۔ ہم چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری،وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ مشتاق مہر سے اپیل ہے کہ ہمیں فوری طور پر نوکریوں پر بحال کیا جائے۔ ہمارا احتجاج اور دھرنا نوکری کی بحالی تک جاری رہے گا۔ سند ھ پولیس کے سربراہ اور ارباب اختیا ر کو اس صورت حال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔
دوسری جانب ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے زمینوں پر قبضے، جرائم پیشہ عناصر ، قبضہ مافیا ،گٹکا ،ماوا اورمنشیات فرشووں کی پشت پناہی کر کے ہزاروں روپے یومیہ وصول کرنے والی پولیس کی کالی بھیڑوں کے خلاف بالآخر بڑا ایکشن کر ہی ڈالا۔ انھوں نےپہلے مرحلے میں منگھوپیر کی مائی گاڑھی اور ہمدرد پولیس چوکیوں کا نہ صرف خاتمہ کیا ، بلکہ جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر کے کمائی کے حوالےسے نمایاں ویسٹ زون کے سرجانی ٹاون اورمنگھو پیرتھانے کے ایس ایچ او اور ہیڈ محرر زکے علاوہ مکمل نفری تبدیل کر کے ضلع وسطی کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی ہے اور مذکورہ دونوں تھانوں میں ایسے افسران اور اہل کاروں کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے ہیں، جن کی تقرری کبھی بھی ان دونوں تھانوں میں نہیں ہوئی ہو،جب کہ انھوں ضلع وسطی کے تمام تھانوں کےایس ایچ اوز اور ہیڈ محررز کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ متعلقہ علاقوں میں گٹکا ، ماوا، منشیات اور آرگنائزڈ جرائم کا فوری خاتمہ کردیں ۔
ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے بتایا کہ دونوں تھانوں کی نفری تبدیل کرنے کی بنیادی وجہ نفری کی طویل عرصے سے مذکورہ تھانوں میں تعینا تی اوران کے خلا ف سنگین نوعیت کی متعدد شکایات ملی تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے ان کے قابل قدر قدم سے دیگر بدعنوان اہل کاروں پر کوئی اثرہوگا یا وہ روایتی طرز پر ہی رہیں گے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
این سی او سی کی ہدایت پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے چھاپہ مار کر ویکسین نہ لگوانے والے افراد، ان سے جعلی کورونا ویکسین سرٹیفیکٹ جاری کرنے والےایک بڑے گینگ کے11کارندوں کو گرفتار کرلیا۔ اس حوالے سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم عمران ریاض کا کہنا ہے کہ بغیر ویکسین لگوانے والے افراد ان سے جعلی کورونا ویکسین سرٹیفیکٹ بنواتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جعلی کورونا سرٹیفیکٹ جاری کرنے والے گروہ کے 11ملزمان میں خاتون لیڈی ہیلتھ ورکر بھی شامل ہے۔ یہ گینگ جعلی کورونا ٹیسٹ کرا کر جعلی رپورٹس بھی تیار کرتے تھے اورسسٹم میں ویکسین کی تبدیلی بھی کردیتے تھے ۔ایف آئی اے رپورٹ بنانے والوں سے بھی تفتیش کرے گی،جعلی سرٹیفیکٹ بنانے والوں میں ٹریول ایجنٹ بھی ملوث ہیں۔ ملزمان 10 سے11 ہزار روپے میں بیرون ممالک جانے والے افراد کا ریکارڈ بھی تبدیل کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جعلی بنائے گئے تمام سرٹیفیکٹ منسوخ کیےجائیں گے۔ ملزمان نیمز آئی ڈی کا استعمال کر کے ویکسین کا جعلی ڈیٹا انٹری کرتے تھے۔ ہم لسٹیں تیار کررہے ہیں، سارے سرٹیفیکٹ منسوخ ہوں گے، عمران ریاض کا مزید کہنا ہےکہ جن افراد نے جعلی ویکسین سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں یا کووڈ ٹیسٹ کرایا ہے، تو ان کے خلاف بھی کریک ڈائون ہوگا۔ اب تک 15 سو کے قریب جعلی کورونا ٹیسٹ کے شواہد ملے ہیں۔
گینگ کے کچھ کارندے مفرور بھی ہیں، جن کی تلاش جاری ہے ۔ جعلی سرٹیفکیٹ بھی بڑی تعداد میں بنوائے گئے ہیں، جن کو ٹریک جن کوٹریک کیا جارہا ہے۔ جب کہ نادرا نے بھی نیمز آئی ڈیز بنا کر ہیلتھ ورکرز کو دی ہیں جن کو استعمال کیا جارہا تھا۔ نیٹ ورک کے موبائل فونز اور دیگر چیزوں کا فرانزک کیا جارہا ہے۔ جعلی کورونا ویکسین ٹیسٹ اور جعلی سرٹیفکیٹ کو بیرون ملک جانے کے کیے استعمال کیا جاتا تھا، مذکورہ ملزمان ویکسین کا اسٹاک بھی ضائع کردیتے تھے۔اس حوالے سےتفتیش جاری ہےاور مزید اہم انکشافات متوقع ہیں۔
شہر بھر میں ایدھی اور چھیپا ایمبولیس کی ریسکیو خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ لیکن اب چند مفاد پرستوں نے بھی موقع کافائدہ اٹھاتے ہوئے پرائیوٹ ہائی روف کو ایمبولینسوں میں تبدیل کرکے کمائی کادھندا بناکر مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے اور یہ مافیا تمام بڑے اسپتالوں کے سامنےبڑی تعداد میں نظر آتی ہے جو مجبور اور غمزدہ افرادکے مریضوں اور لاشوں کی منتقلی کے عیوض من مانے کرائے وصول کر کے پریشان حال شہریوں کو دہری اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں ۔
ان کی نہ تو کوئی مانیڑنگ ہےاور نہ ہی ان سےکوئی پوچھنے والا ہے۔ دوسری جانب یہ مافیا مبینہ طور پر ایمبولیس کی آڑ میں جرائم پیشہ افراد سے بھاری رقم لے کرغیر قانونی اسلحےکی ترسیل کے علاوہ منشیات،گٹکا ، ماوا اور چھالیہ غیر قانونی اسمگلنگ میں سہولت کا ر بنے ہوئے ہیں۔ حتی کہ چند ایمبولینسوں کے مالکان نام نہاد این جی اوز کا نام لے کر گلیوں اور محلوں میں صدقات اور خیرات بھی بٹورتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی واقعہ یوسف گوٹھ سے آگرہ تاج کے راستے میں رونما ہوا، جب اولڈ سٹی ایریا کے علاقے لیاری میں علاقہ مکینوں نےچھیپا ایمبولنس کی طرز پر بنائی گئی ایمبولینس میں گٹکا ،چھالیہ اور دیگر غیرملکی سامان کی اسمگلنگ ناکام بنا کر ایمبولنس اور 2 مبینہ رضاکاروں کو پکڑ لیا،جب کہ اسمگلنگ میں ملوث ملزمان دوسری ایمبولینس کو لے کر فرار ہوگئے۔
علاقہ مکینوں کے مطابق ایمبولینس کی مشکوک حرکات اور ایمبولینس کے سیاہ شیشوں کی وجہ سے ہمیں شک ہونےپر اس کو تعاقب کرکے پکڑا اور پکڑی گئی ایمبولینس میں اسمگل شدہ سامان اور 2 ملزمان کو کلری پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اس حوالے سے ترجمان چھیپا نے اس کی تردید اور اظہار لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پکڑی گئی ایمبولینس اوراُن کے ڈرائیور کا چھیپا ویلفیئر سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اورعلاقے میں گشت کرنے والی جعلی ایمبولینس کی نشان دہی ہمارے ہی رضاکاروں نے کی ۔ ہمارے رضاکاروں نے جعلی ایمبولینس اور اُس میں موجود2 مشکوک افراد کو گرفتار کراکر کلری تھانے منتقل کرادیا ہے۔
جرائم پیشہ عناصر نے غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے اپنی گاڑی پر چھیپا ایمبولینس لکھوایا ہے ، ایک اورجعلی ایمبولینس جس پر چھیپا کا نام درج تھا، وہ علاقے سےغائب ہو گئی ، چھیپا ویلفیئر کا نام استعمال کر کےجعلی ایمبولینس بنانے اور چھیپا کا نام غلط طور پر استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ شہری حلقوں نے حکومت سندھ ،کراچی پولیس چیف کی اس سنگین مسئلے پر توجہ دلاتے ہوئے نام نہاد این جی اوز کی آڑ میں چلنے والی تمام پرائیوٹ ایمبولینسوں کی مکمل چھان بین کر کے ان پر فوری پا بندی لگائی جائے ۔اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی پولیس کاجعلی مقابلوں میں کوئی ثانی نہیں ہے ۔
3عدالت سے 3سال بعد ایک جعلی مقابلے میں نوجوان انتظار حسین کے قتل میں ملوث2پولیس اہل کاروں کوسزائے موت کے باوجود پولیس کی آنکھیں نہیں کھلیں اور تیموریہ میں پولیس اہل کاروں نےمبینہ جعلی مقابلے کو خود مشکوک بنادیا،واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ تیموریہ پولیس نےعلاقے میں پیر کی صبح4 ملزمان کو مختلف مقامات سے مبینہ مقابلے کے دوران زخمی حالت میں پکڑے جانے کا دعویٰ کیا گیا، لیکن کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوگئی، جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ ملزم کو پولیس نے پکڑا تھا اور اسے راستے میں لے جاتے ہوئے گولی مار کر زخمی کر دیا ور اسے مقابلے کا رنگ دیا ۔
ایس ایس پی سینٹرل غلام مرتضیٰ تبسم کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے دونوں اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کی مکمل اور شفاف انکوائری ایس پی گلبرگ کریں گے۔غفلت اور لاپرواہی برتنے والے اہل کاروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی بھی کی جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک پولیس مبینہ جعلی مقابلوں کا ڈھونگ رچاکربے گناہ شہریوں کوقتل اور زخمی کر کےاپنی جھوٹی کارکردگی دکھاتی رہے گی ،پولیس کے اعلی افسران کو جعلی پولیس مقابلوں کی روک تھام عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ اس سنگین مسئلے پر توجہ دلاتے ہوئے نام نہاد این جی اوز کی آڑ میں چلنے والی تمام پرائیوٹ ایمبولینسوں کی مکمل چھان بین کر کے ان پر فوری پا بندی لگائی جائے ۔