بات چیت: طارق ابو الحسن
کابل میں تعیّنات پاکستان کے سفیر، منصور احمد خان انتہائی تجربہ کار سفارت کار ہیں۔ انھوں نے1992 ء میں پاکستان فارن سروس جوائن کی۔وزارتِ خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل سمیت کئی اہم عُہدوں پر فائز ہوئے۔ ہرارے، جنیوا اور کئی دیگر سفارتی مشنز کا حصّہ رہے۔2009 ء سے 2012 ء تک کابل میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور 2012 ء سے2015 ء تک نیو دہلی میں ڈپٹی ہائی کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔2018 ء سے2020 ء کے دَوران آسٹریا میں سفارت کاری کے فرائض انجام دینے کے علاوہ، ویانا میں پاکستان کے مستقل نمائندے رہے۔
منصور احمد خان پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے افغانستان میں ایک انتہائی اہم اور تاریخی موقعے پر خدمات انجام دے رہے ہیں، حتیٰ کہ جب15 اگست کی تبدیلی کے موقعے پر امریکا سمیت مغربی اور ایشیائی ممالک اپنے سفارت خانے بند کر کے افغانستان چھوڑ گئے، پاکستانی سفارت خانہ نہ صرف کام کرتا رہا، بلکہ امریکی اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں سمیت ہزاروں شہریوں، اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے عملے کا بحفاظت انخلاء بھی ممکن بنایا، جس پر پاکستان کے سفارتی مشن کی خدمات کا عالمی سطح پر اعتراف بھی کیا گیا۔
یاد رہے، کابل میں پاکستانی سفارت خانہ رقبے کے لحاظ سے دنیا بھر میں پاکستان کا سب سے بڑا سفارت خانہ ہے۔ یہ تاریخی عمارت آزادی سے قبل برطانوی نمایندے کی رہائش گاہ اور دفتر تھی، جو بعدازاں پاکستان کے حوالے کردی گئی۔ اس کا کُل رقبہ 27 ایکڑ ہے۔ گزشتہ دنوں’’ جیو نیوز‘‘ کے نمایندہ خصوصی نے کابل کے پاکستانی سفارت خانے میں منصور احمد خان سے خصوصی ملاقات کی، جس میں انھوں نے افغانستان کی تازہ ترین صُورتِ حال، خطّے پر اس کے اثرات، مستقبل کے امکانات و خدشات اور پاک، افغان تعلقات سے متعلق تفصیلاً اظہارِ خیال کیا۔ اِس اہم نشست کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔
س: پاکستانی وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کے حالیہ دورۂ کابل کے کیا مقاصد تھے اور یہ دورہ دونوں ممالک کے لیے کس قدر اہم تھا؟
ج: دیکھیے، افغانستان اِس وقت انتہائی اہم مرحلے سے گزر رہا ہے۔ یہاں15 اگست کو آنے والی تبدیلی کے بعد طالبان نے نئی حکومت بنائی، تو سب سے اہم سوال یہ سامنے آیا کہ اُن کے عالمی برادری ،خاص طور پر پاکستان یا دوسرے پڑوسیوں کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں گے، کیا اُن کی حکومت تسلیم کی جائے گی؟ پھر اُن کے اندرونی معاملات بھی اہم ہیں، تو یہ دورہ اِسی تناظر میں تھا۔ یہ سیاسی سطح پر پاکستان کی طرف سے پہلا اہم دورہ تھا، جو بہت کام یاب رہا۔ اس میں دو اہم ایشوز بڑی تفصیل کے ساتھ افغان لیڈرشپ کے ساتھ ڈسکس کیے گئے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد اُن کی عالمی برادری کے ساتھ بات چیت جاری ہے کہ نئی افغان حکومت کو کس طرح وسیع البنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ انسانی، خاص طور پر خواتین کے حقوق کا کیسے تحفّظ کیا جائے گا اور پھر کاؤنٹر ٹیررازم میں کس طرح تعاون کیا جاسکتا ہےکہ داعش، ٹی ٹی پی اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کی طرف سے کافی تھریٹس ہیں۔ وزیرِ خارجہ کے دورے کے دَوران دونوں جانب سے اِن معاملات پر تفصیل سے بات ہوئی۔ پاک، افغان تعلقات بھی بات چیت کا ایک اہم موضوع تھا۔اِس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ پاکستان اِس مشکل صُورتِ حال میں کس طرح افغانستان کی بطور ایک ہم سایہ مدد کرسکتا ہے کہ یہاں متعدّد بنیادی انسانی مسائل ہیں۔
ضروری اشیاء کی قلّت ہو رہی ہے، موسم کی تبدیلی کے الگ مسائل ہیں، انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے لیے ماہرین کی مدد درکار ہے۔پھر باہمی تجارت اور لوگوں کی آمد و رفت آسان بنانے کے لیے بھی بہت سے فیصلے کیے گئے۔طورخم بارڈر زیادہ سے زیادہ وقت کے لیے کھولا جائے گا، چمن بارڈر کھولنے سے متعلق بھی بات ہوئی( جو بعدازاں کھول بھی دیا گیا)۔ نیز، پاک افغان بارڈر پر جو دیگر کراسنگ پوائنٹس ہیں، وہاں سے بھی لوگوں کی آمد و رفت اور تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں وزیرِ خارجہ کے دورے کے دَوران کئی اہم اعلانات کیے گئے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اب افغانستان اور پاکستان کے مل جُل کر آگے بڑھنے کے لیے ایک اچھا ماحول پیدا ہوچُکا ہے۔
س: افغان معیشت کے لیے طور خم بارڈر کی کیا اہمیت ہے؟
ج: پاکستان اور افغانستان کا2600 کلومیٹر طویل بارڈر ہے، جس میں طور خم اور چمن کے علاوہ دیگر کراسنگ پوائنٹس بھی ہیں۔جیسے انگور اڈا، غلام خان اور ڈاڈی پٹھان۔ یہاں سے لوگوں کی آمد و رفت کے ساتھ تجارت بھی ہوتی ہے۔ طور خم ان میں ایک بہت بڑا بارڈر کراسنگ پوائنٹ ہے۔ افغانستان کے عوام اور حکومت کا مطالبہ تھا کہ15 اگست کے بعد پیدا شدہ حالات کے سبب پاکستان کی طرف سے طور خم کراسنگ پر جو پابندیاں لگائی گئیں، اُن سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
افغان قیادت سے بات چیت کے بعد شاہ محمود قریشی نے طورخم کے ذریعے آمد و رفت بحال کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، یہ آمد ورفت ویزے اور پاسپورٹ ہی کے ذریعے ہوگی۔ البتہ، سرحدی علاقوں میں کچھ ایسے دیہات بھی ہیں، جہاں کے لوگوں کے پاس سفری دستاویز نہیں ہیں اور وہ علاج معالجے کے لیے پاکستان جانا چاہتے ہیں،تو اِس سلسلے میں بھی ہم نے طریقۂ کار طے کیا ہے۔ دونوں ممالک کے باشندے آپس میں بھائی، بھائی ہیں، اِس لیے ہم اُنھیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے میں کوشاں ہیں۔پھر یہ کہ پاکستان میں آج بھی 40 لاکھ کے قریب افغان باشندے مقیم ہیں، تو ہم چاہتے ہیں کہ یہ پہلو تعلقات کی مضبوطی کے لیے استعمال ہو۔
س: افغان عوام کسی فوری طبّی ضرورت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر کس طرح پاکستان جاسکیں گے؟
ج: پہلی بات تو یہ طے کی گئی ہے کہ طبّی بنیاد پر ویزے کا اجراء بہت آسان ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص یا خاندان علاج کے لیے درخواست دیتا ہے، تو وہ فوری طور پر پراسیس ہو اور اُنہیں ویزا مل جائے۔ جو لوگ بارڈر کے قریب رہتے ہیں اور جن کے پاس پاسپورٹ یا اس طرح کی کوئی اور دستاویز نہیں، جس کے ذریعے وہ غیر مُلک کا سفر کرسکیں، تو اُن کو خاص پرویژن دیا جائے گا کہ اگر اُنھیں علاج کی فوری ضرورت ہے اور اُن کے پاس کسی پاکستانی اسپتال کی طرف سے کوئی دستاویز موجود ہے، جہاں اُن کا علاج ہو رہا ہے یا ہوسکتا ہے، تو اس صُورت میں حکومت ایسے اقدامات کرے گی، جن سے اُن کے لیے پشاور یا دیگر قریبی سرحدی شہروں تک جانا ممکن ہوسکے۔ لیکن جہاں تک دونوں ممالک کی عمومی آمد و رفت کا تعلق ہے، تو فیصلہ یہی ہے کہ وہ سفری دستاویز ہی کے ذریعے ہو۔
میرے خیال میں آج کے دَور میں، جب سیکوریٹی معاملات بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے، تو زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے۔ جہاں تک شعبۂ صحت میں تعاون کا تعلق ہے، تو پاکستان اِس شعبے میں بہت عرصے سے افغان عوام سے تعاون کر رہا ہے۔ ہر ماہ ہزاروں افغان شہریوں کو پاکستان میں علاج کے لیے ویزے فراہم کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ پاکستان نے افغانستان میں تین اسپتال بھی قائم کیے ہیں۔ جب کہ میرے خیال میں پاکستان کے نجی شعبے کو بھی اِس میدان میں آگے آکر افغانستان، خاص طور پر دیہات میں زیادہ سے زیادہ سے طبّی مراکز قائم کرنے چاہئیں تاکہ لوگوں کی اِتنی بڑی تعداد کو صرف علاج کے لیے پاکستان جانے کی ضرورت نہ پڑے۔
س: سرحدی علاقوں کے جو افغانی بچّے پاکستان کے اسکولز میں پڑھتے ہیں، اُن کے لیے کیا فیصلہ ہوا؟ کیوں کہ سرحد پر باڑھ لگنے سے اُن کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں؟
ج: وزیرِ خارجہ کے دورے کے دَوران کچھ ورکنگ گروپس بنائے گئے ہیں، جو بارڈر کے آر پار جانے، تجارت، ہوائی سفر اور دیگر معاملات پر کام کر رہے ہیں۔ اگر افغانستان کے بچّے پاکستانی اسکولز میں پڑھتے ہیں، تو یہ ایک تاریخی طور پر چلنے والا سلسلہ ہے، جسے جاری رکھنے کے لیے حکومتِ پاکستان تمام اقدامات کرے گی۔
س: چمن بارڈر سے متعلق کیا فیصلے ہوئے؟
ج: چمن بھی ایک اہم کراسنگ پوائنٹ ہے، جہاں سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد دونوں ممالک آتی جاتی ہے اور یہ تجارتی مقاصد کے لیے بھی بے حد اہم ہے۔ گوادر اور کراچی کے ذریعے افغانستان سے ہونے والی تجارت چمن بارڈر ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔وزیرِ خارجہ کے دورے میں یہ معاملہ بھی زیرِ غور آیا اور دونوں ممالک کی کمیٹیز اِس مسئلے پر کام کر رہی ہیں۔
وہاں بھی ایشو یہی ہے کہ ایسے افغان شہری بہت بڑی تعداد میں پاکستان آنا چاہتے ہیں، جن کے پاس پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ویزے کی سہولت نہیں ہے اور وہ روایتی نظام،’’ تذکرہ‘‘ پر، جو یہاں کے شناختی کارڈ کی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان آیا کرتے تھے۔ یہ مسئلہ جلد ہی حل ہوجائے گا، کیوں کہ دونوں ممالک کے ادارے اِس پر کام کر رہے ہیں۔ مَیں بھی کوشش کررہا ہوں کہ کسی وقت قندھار کا دورہ کرکے کاروباری شخصیات اور انتظامیہ سے ملاقات کروں۔ چوں کہ15 اگست کے بعد ایک نیا دَور آیا ہے، جس کے سبب علاقے اور خطّے میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں،اِس لیے سرحدی معاملات کو ایک بار پھر دیکھنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
س: دونوں ممالک نے باہمی تجارت کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ پاکستان ،افغان تاجروں کو کیا مراعات دے رہا ہے اور خود پاکستان اپنے تاجروں کے لیےکیا مراعات چاہتا ہے؟
ج: باہمی تجارت دونوں ممالک کے تعلقات میںبہت ہی اہمیت رکھتی ہے۔ وزیرِ خارجہ کے دَورے کے دَوران پاکستان نے انسانی بنیادوں پر افغانستان کی مدد کے لیے پانچ ارب روپے کا ایک فنڈ مختص کیا ہے، جس کے لیے افغان حکومت اپنی ترجیحات بتائے گی کہ وہ اسے کِن شعبوں میں استعمال کرے گی۔ افغانستان کے لیے تجارت بہت اہم ہے کہ اس کے ذریعے نہ صرف عوام کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، بلکہ حکومت کو بھی کافی ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان نے اُن کی مدد کے لیے پھلوں پر عاید17 فی صد سیلز ٹیکس ختم اور کئی اشیاء پر ڈیوٹیز کم کردی ہیں۔
دورے کے دَوران ایک ورکنگ گروپ بھی بنایا گیا ہے، جو یہ دیکھے گا کہ دونوں ممالک تجارت کے فروغ کے لیے ایک دوسرے کو کیا مراعات دے سکتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کی تجارت گزشتہ چند سالوں میں، جب حالات سازگار نہیں تھے، صرف ایک، ڈیڑھ بلین ڈالرز کے درمیان رہی، حالاں کہ اس شعبے میں بہت زیادہ پوٹینشیل ہے اور اگر پوری طرح کام کیا جائے، تو 5 سے 7 بلین ڈالرز کی تجارت ہوسکتی ہے، جو پاکستان کے ساتھ افغانستان کے لیے بھی بہت منافع بخش ہے۔ اس ٹریڈ اور ٹرانزٹ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہاں سے خطّے، خاص طور پر وسط ایشیا کے لیے تجارتی راہ داریاں قائم کی جاسکتی ہیں۔ یہ ایک بہت ہی اہم شعبہ ہے، تو ہم چاہیں گے کہ اس میں تیزی سے آگے بڑھا جائے۔
س: سرحد پار دہشت گردی ایک بڑا ایشو ہے۔نئی افغان حکومت کے قیام سے اِس میں کتنی کمی آئی ہے؟ خصوصاً بلوچستان میں دراندازی کی کیا صُورتِ حال ہے؟
ج: پاکستان اور افغانستان کا بہت طویل بارڈر ہے اور گزشتہ بیس برسوں کے دَوران ہمیں یہی شکایت رہی کہ افغانستان میں قائم ہونے والی حکومتوں نے کچھ ایسے گروپس اور عناصر کو سرحد پار سپورٹ کیا، جو دہشت گردی میں ملوّث تھے۔ پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی سب کے سامنے ہے۔ہمارا سابقہ افغان حکومت سے بھی یہی مطالبہ تھا کہ افغانستان کے اندر سے اور افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردانہ حملے پاکستان میں ہونے چاہئیں اور نہ ہی کسی اور مُلک میں۔
نئی حکومت سے بھی یہی مطالبہ کیا ہے اور ہمیں یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں۔شاہ محمود قریشی کے دورے کے دَوران بھی اِس امر پر بہت زور دیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی کے بھی خلاف استعمال نہیں ہونی دینی چاہیے۔ گزشتہ ہفتوں میں داعش کی جانب سے یہاں دہشت گردی کے کچھ واقعات ہوئے، جس پر یہاں کی حکومت اِس قسم کی قوّتوں کے خلاف سخت ایکشن لے رہی ہے۔
پاکستان نے ٹی ٹی پی اور بلوچستان سے متعلق گروپس کے خلاف بھی ایکشن کا مطالبہ کیا ہے،جس کے جواب میں ہمیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔اب دونوں ممالک کے سیکوریٹی اداروں اور مکینزم کو فعال کرنا بہت ضروری ہے، وزیرِ خارجہ کے دورے کے دَوران اِس ضمن میں کئی چیزیں طے پائی ہیں، جن پر مزید اجلاس بھی ہوں گے۔
س: افغانستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کے کیمپس کی، جہاں سے وہ پاکستان میں کارروائیاں کرتے تھے، کیا صُورتِ حال ہے؟
ج: جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہمیں ایسے تمام عناصر کے خلاف، چاہے وہ کیمپس ہوں، ایکٹویسٹ ہوں یا فائٹرز، جو پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوّث ہوں گے، سخت کارروائی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اگر وہ باز نہیں آئیں گے، تو پھر ان کا قلع قمع کردیا جائے گا۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت بڑی یقین دہانی ہے۔
س: داعش پاکستان اور افغانستان کے لیے مشترکہ خطرہ ہے، تو کیا کوئی ایسا مکینزم بن رہا ہے کہ دونوں ممالک مِل کر اس خطرے کا مقابلہ کریں گے؟
ج: بالکل، داعش نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطّے کے امن و سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اپنے پڑوسیوں، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ ہمارا اِس قسم کا تعاون ہو کہ داعش ہمارے مُلک اور خطّے کے لیے خطرہ نہ بنے۔ پاکستان اور افغانستان نے باہمی مشاورت سے طے کیا ہے کہ اس معاملے پر دونوں ممالک ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے مشترکہ مکینزم استعمال کریں گے۔
انسدادِ دہشت گردی کے تمام مکینزم بحال اور فعال کیے جائیں گے۔ اگر افغانستان کو اپنی سیکوریٹی فورسز کو بِلڈ اَپ، تیار اور مستعد کرنے کے لیے کسی قسم کی ٹریننگ اور capacity building کی ضرورت ہے، تو ہم اُن کی مدد کے لیے تیار ہیں اور پاکستان اس کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔افغانستان ایک خود مختار ریاست اور ایک آزاد مُلک ہے۔ ہم چاہیں گے کہ اُن کی ضروریارت کے مطابق تعاون مہیّا کریں۔
س: افغان حکومت نے ایوی ایشن کے شعبے میں تربیت کے لیے کوئی بات کی؟
ج: ہاں، ایوی ایشن کے شعبے سے متعلق بھی بڑی اچھی ڈسکشنز ہوئیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ کچھ سالوں میں ریگولر فلائٹس ہوئی ہیں اور بہت سے لوگ ان فلائٹس کے ذریعے سفر کرتے ہیں بلکہ اس میں کارگو کے لیے بھی خاصی گنجائش ہے۔ وزیرِ خارجہ کے ساتھ آنے والے وفد میں پی آئی اے کے چیئرمین بھی موجود تھے۔
اُن کی یہاں کے وزیر ہوا بازی اور اُن کی ٹیم کے ساتھ تفصیلی بات چیت ہوئی، جس کے بعد ایوی ایشن پر بھی ایک ورکنگ گروپ بنا ہے۔ہم ریگولر فلائٹس، خواہ وہ پی آئی اے کی ہوں یا افغانستان کی ایئرلائنز آریانا اور کام ائر کی، اُن کے لیے ایک لیول پلیئنگ فیلڈ پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ممالک یک ساں طور پر ٹریول مارکیٹ سے فائدہ اُٹھائیں۔
س: کیا مزار شریف اور دیگر شہروں سے بھی پروازیں شروع کرنے کا کوئی منصوبہ ہے؟
ج: جی بالکل، بہت عرصے سے یہ کوشش ہے کہ نہ صرف اسلام آباد سے قندھار، مزار شریف اور ہرات تک پروازیں چلیں، بلکہ کراچی اور لاہور سے بھی ان شہروں کے لیے پروازیں شروع کی جائیں۔ جب ہم ایک ریجنل ایکٹی ویٹی، پورے علاقے کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں اور سی پیک کے ذریعے رابطوں پر زور دیتے ہیں، تو اس طرح کی پروازیں مختلف شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کریں گی ۔
س: پاکستان سول ایوی ایشن کے حوالے سے بہت پوٹینشیل رکھتا ہے،مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کابل ائیرپورٹ کی بحالی میں پاکستان کا کوئی حصّہ نظر نہیں آرہا، ایسا کیوں ہے؟
ج: جب افغانستان میں تبدیلی آئی، تو اُس وقت کابل ائیرپورٹ کا انتظام امریکی افواج کے پاس تھا۔چوں کہ معاملات شروع سے نیٹو دیکھ رہا تھا، جس میں تُرکی ایک لیڈنگ پلیئر تھا، تو اقتدار کی تبدیلی سے بہت پہلے طالبان اور تُرکی کی بات چیت چل رہی تھی کہ تُرکی، ائیرپورٹ پر سیکوریٹی فراہم کرے گا کہ وہاں انٹرنیشنل سسٹم موجود تھا، جسے جاری بھی رکھنا تھا۔ لہٰذا، اسی تسلسل میں جب یہاں سے امریکی انخلا ہوا، تو اس سارے پراسس میں تُرکی، نیٹو کا حصّہ ہونے کی وجہ سے موجود تھا اور قطر بھی اس میں شامل تھا۔ تُرکی اور قطر دونوں برادر اسلامی مُلک ہیں، جن کے پاکستان اور افغانستان سے بہت اچھے تعلقات ہیں، تو یہی محسوس کیا گیا کہ چوں کہ اُن کا سسٹم چلانے میں ایک کردار رہا ہے، تو وہی اس سسٹم کو لے کر آگے چلیں۔
ابھی تک کابل ائیرپورٹ کا مکمل کمرشل انٹرنیشنل فلائٹ کا اسٹیٹس بحال نہیں ہو سکا۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ اسٹیٹس جلد از جلد بحال کردیا جائے۔ اس میں تُرکی اور قطر لیڈنگ پلیئر کے طور پر آگے ہیں۔ ہم نے انھیں پیش کش کی ہے کہ کسی قسم کی مہارت، افرادی قوّت یا تیکنیکی معاونت چاہیے، تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
دراصل، خطّے کے تمام ممالک یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ افغانستان میں سب نے مل کر کام کرنا ہے۔گو کہ پاکستان کو ہم سایہ ہونے کے ناتے ایڈوانٹیج حاصل ہے، لیکن خطّے کے دیگر ممالک، جیسے تُرکی، قطر، سعودی عرب، یو اے ای، روس اور چین کا بھی یہاں کی اقتصادی ترقّی میں بہت اہم کردار ہوگا۔ اور ہماری کوشش ہے کہ تمام قوّتوں کو ساتھ لے کر چلیں۔
س: کیا پاکستان نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے میں کوئی پیش رفت کر رہا ہے؟اور خطّے کے لیے یہ معاملہ کس قدر اہم ہے؟
ج: طالبان نے ستمبر کے شروع میں اسلامی امارت قائم کی اور اب وہ ایک خود مختار ریاست کے حکم ران ہیں۔ اُن کے نہ صرف تمام ہم سایہ ممالک، بلکہ امریکا، چین اور روس کے ساتھ بھی آزادانہ طور پر معاملات چل رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ افغانستان کو گفت و شنید کے ذریعے ہی عالمی برادری سے معاملات طے کرنے ہوں گے۔ چاہے انسانی شعبہ ہو یا اقتصادی معاملات۔ پھر انھیں ایک ایسا ماحول بھی بنانا ہوگا کہ دنیا انھیں قبول کرسکے۔
پاکستان ایک برادر، ہم سایہ مُلک اور طویل مشترکہ بارڈر رکھنے کے ناتے انہیں اچھے مشورے دیتا ہے اور اِس ضمن میں ہمارا مشورہ یہی ہے کہ وہ وسیع البنیاد حکومت کی جانب بڑھیں۔ انھیں انسانی حقوق کی پاس داری، دہشت گردی کی روک تھام، عالمی برادری سے اچھے تعلقات کی سمت آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر وہ ان معاملات پر تسلسل کے ساتھ آگے بڑھیں گے، تو میرا خیال ہے کہ یوں حکومت کو تسلیم کرنے کا راستہ بھی ہم وار ہوگا۔
س: عالمی برادری ان کے ساتھ مختلف امور پر بات کر رہی ہے، تو یہ ایک لحاظ سے تسلیم کرنا ہی ہوا؟
ج: دراصل کسی حکومت کو تسلیم کرنا پورا ایک پراسس ہے۔ آج کوئی بھی مُلک تنہا نہیں رہ سکتا۔ جہاں تک افغانستان کو آئسولیٹ کرنے کی بات ہے، تو یہ افغان حکومت، افغان عوام، بین الاقوامی قوّتوں اور بین الاقوامی برادری میں سے کسی کے حق میں نہیں ہے۔ اِس لیے ایک انگیج منٹ تو شروع دن سے چل رہی ہے، وہ پہلے انخلا کی صُورت میں تھی، پھر آپ نے دیکھا کہ معاملات کا رُخ انسانی بحران کی طرف مُڑ گیا۔
ہیومینی ٹیرین انگیج منٹ ہو رہی ہے، یو این اور دس بارہ ممالک کے سفارت خانے یہاں موجود ہیں۔ سفارت کار افغان لیڈر شپ سے ملتے ہیں۔ انٹرنیشنل وزٹ بھی ہو رہے ہیں۔ یہ ایک پراسس ہے،جس میں کوشش یہی ہے کہ عالمی برادری اور افغان حکومت ڈائیلاگ کے ذریعے کوئی درمیانی راستہ نکال کر آگے چلیں۔
س: یہ مرحلہ کتنا جلد مکمل ہونا چاہیے؟
ج: کوئی ٹائم فریم دینا تو ممکن نہیں،البتہ یہ عمل جتنا جلد مکمل ہوگا، اُتنا ہی افغانستان، خطّے اور عالمی امن و استحکام کے لیے بہتر ہوگا۔ کیوں کہ یہ مُلک اور خطّہ چالیس سال سے جنگ اور داخلی خلفشار کا شکار ہے اور اب کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جنگ کا مکمل خاتمہ کرکے دیرپا امن اور استحکام کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں جس قدر جلد پیش رفت ہوگی، اُتنا ہی ہم سب کے لیے بہتر ہوگا۔
س: امریکی میڈیا کی طرف سے خبر آئی کہ پاکستان، افغانستان کی نگرانی کے لیے اپنی ائیر اسپیس امریکا کو دے رہا ہے، افغان میڈیا میں بھی اِس پر بات ہو رہی ہے، حقیقت کیا ہے؟
ج: پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے وضاحت کر دی ہے کہ اس قسم کا کوئی معاہدہ یا بات چیت نہیں ہو رہی اور جو بھی فیکچوئل صُورتِ حال ہوگی، وزارتِ خارجہ اس پر بھی وضاحت کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں اُس کا بیان کافی واضح ہے۔
س: کیا طالبان حکومت کی طرف سے اِس خبر پر کوئی تشویش ظاہر کی گئی؟
ج: نہیں۔ افغانستان کی حکومت نے کوئی تشویش ظاہر نہیں کی۔ غالباً افغان حکومت بھی یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان جو فیصلہ کرے گا، وہ پاکستان کا اپنا’’ sovereign decision ‘‘ہوگا، لیکن وہ اس خطّے کے امن اور پاکستان و افغانستان کے تعلقات کو بھی مدّنظر رکھے گا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا موجود ہے۔
س:صحت اور تعلیم کے شعبوں میں افغانستان کو فوری مدد کی ضرورت ہے، پاکستان کیا تعاون کر سکتا ہے؟
ج : افغانستان سے بہت بڑی تعداد میں لوگ علاج معالجے کے لیے پاکستان کے اسپتالوں میں جاتے ہیں۔ وہ اِتنی بڑی تعداد میں بھارت یا علاقے کے دوسرے ممالک نہیں جاتے، جتنا پاکستان جاتے ہیں۔ ان افراد کا تعلق عام طبقے سے ہوتا ہے، جو پاکستان کے زیادہ تر سرکاری اور کچھ نجی اسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں تین بڑے اسپتال بھی قائم کیے ہیں۔ ایک تو محمّد علی جناح اسپتال ہے، جو کابل کے مرکز میں ہے۔ یہ دو سو بستروں پر مشتمل ہے۔ یہاں سے قریب ہی لوگر صوبے میں ایک بڑے اسپتال کی تعمیر مکمل ہوچُکی ہے، صرف آلات کی تنصیب باقی ہے۔
اس کے علاوہ، پاکستان نے جلال آباد میں نشتر کڈنی سینٹر کے نام سے یورولوجی کے شعبے میں اسپیشلائز سینٹر قائم کیا ہے۔ یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولتیں ہیں۔اب چوں کہ حالات بہتر ہوئے ہیں، امن و استحکام بڑھ رہا ہے، تو پاکستان یہاں مزید اسپتال قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ عوام کو افغانستان کے اندر ہی علاج معالجے کی معیاری سہولتیں میّسر آ سکیں اور ان کے میڈیکل پروفیشنلز کے لیے بھی مواقع بڑھیں۔ واضح رہے، کینسر اسپتال کا قیام بھی منصوبے میں شامل ہے۔ اگلے دو برسوں میں یہ پراجیکٹس گراؤنڈ پر نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔
افغانستان کے وزیرِ صحت، ڈاکٹر قلندر عباد بہت قابل یورولوجسٹ ہیں۔ وہ پاکستان میں بھی وقت گزار چُکے ہیں اور پمز میں کام کرتے رہے ہیں، اِس لیے پاکستان کے نظام کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ میری اُن سے کئی ملاقاتیں ہوچُکی ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ شعبۂ صحت میں تعاون بڑھانے میں بہت دل چسپی لے رہے ہیں۔ افغانستان کے ڈاکٹرز، پیرا میڈکس پروفیشنلز کو پاکستان میں تربیت فراہم کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح یہاں کے اسپتالوں میں سہولتوں کی فراہمی میں کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ ہم اِن شاء اللہ اُن کی وساطت سے کافی کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان’’ علّامہ اقبال اوپن اسکالر شپس اسکیم‘‘ کے تحت ایک ہزار افغان طلبہ کو اسکالر شپ دیتا ہے، جن میں سے ایک سو اسکالرشپس خواتین کے لیے مختص ہیں، جب کہ مَیں نے پاکستانی حکومت سے اسکالر شپس میں اضافے کی بھی سفارش کی ہے۔